وجود

... loading ...

وجود
وجود

وائف آئی یا وائی فائی؟؟

بدھ 07 اکتوبر 2020 وائف آئی یا وائی فائی؟؟

دوستو،ایک طرف اچھا وائی فائی کنکشن ہوں اور دوسری طرف آپ کے ماں باپ، تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟ برطانیا میں ایک تحقیقاتی سروے میں شہریوں سے یہی سوال پوچھا گیا اور اکثریت نے ایسا جواب دیا کہ سن کر آپ کی حیرت کی انتہانہ رہے گی۔ تحقیقاتی سروے میں کئی چیزوں کی ایک فہرست بنائی گئی تھی اور شہریوں کو انہیں اپنی پسند اور ترجیح کے لحاظ سے ترتیب دینے کو کہا گیا تھا اور حیران کن طور پر واضح اکثریت نے اچھے وائی فائی کو اپنے والدین پر فوقیت دے ڈالی۔ہاسپیٹلٹی کمپنی ’ٹریولاج یوکے‘ کے ماہرین کی طرف سے کیے گئے اس سروے میں سب سے زیادہ لوگوں نے خوشگوار گھرانے، فیملی ٹائم اور وفادار شریک حیات کو منتخب کیا۔ دوسرے نمبر پر لوگوں نے اچھی صحت، تیسرے نمبر پر نیشنل ہیلتھ سروسز، چوتھے نمبر پر اچھے وائی فائی کنکشن، پانچویں نمبر پر دوستوں اور فیملی کے ساتھ قہقہے لگا کر ہنسنا اور گپ شپ کرنا، چھٹے نمبر پر بااعتماد دوستوں اور ساتویں نمبر پر لوگوں نے والدین کو ترجیح دی۔ آٹھویں نمبر پر باغیچے کے ساتھ اچھے گھر، 9ویں نمبر پر پالتو جانور اور 10ویں نمبر پر سوشل میڈیا چینلز کو ترجیح دی۔
ایسا ہی جب ایک اور سروے کیاگیا کہ آج کل لوگ اپنے والدین سے بھی زیادہ کس چیز کی فکر کرتے ہیں؟تو اس سوال کا بھی ایسا جواب سامنے آگیا ہے کہ سن کر آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق سمپل ٹیکسٹنگ نامی مارکیٹنگ ایجنسی کے ماہرین نے اپنے اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ آج کل لوگ اپنے پالتو جانور، اپنے شریک حیات، جنسی تعلق اور حتیٰ کہ اپنے والدین سے بھی زیادہ اپنے موبائل فون کی پروا کرتے ہیں۔ سروے میں ماہرین نے لوگوں سے پوچھا کہ انہیں ایک ماہ کے لیے کوئی ایک چیز چھوڑنی پڑے تو وہ کس چیز کا انتخاب کریں گے۔ ان چیزوں میں موبائل فون، پالتو جانور، شریک حیات، جنسی تعلق، والدین اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ حیران کن طور پر 40فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے پالتو جانور کو چھوڑ دیں گے، فون کو نہیں۔ 42فیصد نے والدین، شریک حیات اور جنسی تعلق کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی مگر فون کو اپنے پاس ہی رکھنے پر اصرار کیا۔ 72فیصد نے کہا کہ وہ ایک ماہ کے لیے شراب چھوڑ دیں گے، فون نہیں۔ 64فیصد نے چائے اور کافی کے متعلق یہی موقف اختیارکیا۔
ان دو سروے رپورٹس میں آپ پر یہ تو واضح ہوگیا ہوگا کہ لوگ اب رشتے ناطے، تعلق داری اور کسی بھی چیز پر اپنے موبائل فون اور وائی فائی کو اہمیت دینے لگے ہیں۔۔ باباجی وائی فائی کو ’’وائف آئی‘‘ کہتے ہیں، اور کہتے بھی لفظوں کو چباچبا کر۔۔ وائف آئی یعنی بیوی کی آنکھ۔۔ ہم نے باباجی سے اس کی تشریح کرنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں سمجھی کہ ہمیں اندازا ہے کہ وائی فائی کتنی اہمیت رکھتا ہے، اور اس کے اثرات کتنے دوررس ہوتے ہیں۔۔ کچھ دیر کے لیے تصور کریں کہ پرانے زمانے میں وائی فائی ہوتا تو آج تاریخ کا دھارا ہی تبدیل نظر آتا۔۔ ہمارے پیارے دوست کے مطابق اگر پہلے زمانے میں وائی فائی یا انٹرنیٹ ہوتا تو ۔۔اکبر بادشاہ نے انارکلی کو دربار کے اس حصے میں قید کیا ہوتا جہاں وائی فائی کے سگنل نہیں آتے تھے۔۔شہزادہ سلیم کا اکاؤنٹ ہیک کروا کے اس کے سارے میسجز اس کی امی جان کو سب دربار والوں کے سامنے سنائے گئے ہوتے۔ ۔اور بتایا جاتا کہ یہ دیکھو ملکہ عالیہ انار کلی نے شہزادے کو کہا بھی تھا کہ میری تصویر دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا مگر اس نے نہیں کی۔۔ہیر کو سیلفی لیتے کیدو نے دیکھ لیا اور اسی وقت اس کے گھر جا کر سب کو شور مچا کر بتایا کہ دیکھو اس کی حرکتیں کھیتوں کے پیچھے کھڑی ہو کر منہ وینگے چیبے کر کے سیلفیاں لے رہی تھی۔رانجھے کو بلا کر اس کے موبائل کا پیٹرن پوچھا جائے ابھی پتہ چل جائے گا یہ سلسلہ کب سے جاری ہے۔۔ سسی سے سوال پوچھے جاتے کہ مٹی کے گھڑے میں موٹی پن والا چارجر کیوں چھپایا تھا۔ کیوں کہ سارے گاؤں والوں کے پاس نئے موبائل ہیں سوائے پنوں کے۔۔کیوں کہ پنوں کے پاس تو فقط چھوٹا سا نوکیا تینتیس دس ہے۔۔
گزشتہ دو،تین کالموں میں باباجی کی نسلی باتوں کا تذکرہ نہیں ہوا تو کافی احباب نے توجہ دلائی ہے کہ کسی بھی موضوع پر کچھ بھی لکھیں لیکن باباجی کی نسلی باتوں کا تھوڑا سا ’’تڑکا ‘‘ ضرور لگایا کریں، احباب کے خیال میں باباجی کی باتیں بہت ’’باریک‘‘ ہوتی ہیں، جسے وہ سمجھنے کے بعد کافی دیر تک انجوائے کرتے ہیں۔۔ چلئے جی، کوشش کرتے ہیں کہ باباجی کو ہر کالم میں یاد رکھا کریں، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ کبھی کبھار موضوع دست بستہ گزارش کررہا ہوتا ہے کہ ’’مجھے مکمل کردو، باباجی کے چکر میں نہ پڑو، ورنہ پڑھنے والوں کے پلے ککھ نہیں پڑنا کہ کہنا کیا چاہ رہے ہو‘‘۔۔ اس لیے کبھی کبھار باباجی غیرحاضر ہوجایا کریں تو معافی کے خواستگار رہیں گے۔۔ چلیں باباجی کی نسلی باتیں شروع کرتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔ کہتے ہیں جہاں عزت نہ ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ تو کیا اب بندہ اپنے گھر بھی نہ جائے؟ وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔آگ دونوں طرف برابر ہے۔ شادیوں پر عورتیں دوسرے کے سُوٹ دیکھ کرجَل رہی ہوتی ہیں اور مرد دوسروں کی بیویاں۔۔باباجی کا یہ بھی کہنا ہے کہ۔۔ وہ رہنما جو دوسروں کی بات نہیں سنتے بہت جلد ایسے لوگوں میں گھِر جاتے ہیں جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔۔انہی کا فرمان عالی شان ہے کہ۔۔زندگی جب مشکل وقت میں ناچ نچاتی ہے تو ڈھولک بجانے والے آپ کی جان پہچان والے ہی ہوتے ہیں۔۔باباجی اکثر خواتین کے امور پر بھی لب کشائی فرماتے رہتے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے امور کے ماہر ہیں۔۔خواتین سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ۔۔ برصغیر کی عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ بہو بنتی ہیں تب ساس اچھی نہیں ملتی اور جب ساس بنتی ہیں تب بہو اچھی نہیں ملتی۔۔ برصغیر کی اکثریت بہوؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ ساس ’’چنگی‘‘ ہو یا پھر اس کی تصویر دیوار پر ’’ٹنگی‘‘ ہو۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ دوسروں کو ہر وقت ’’تولنے ‘‘ والے خود بہت ’’ ہلکے ‘‘ ہوتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر