وجود

... loading ...

وجود
وجود

احتسابی عمل اور سیاسی اختلاف

منگل 06 اکتوبر 2020 احتسابی عمل اور سیاسی اختلاف

اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعدسیاسی درجہ حرارت میں غیر معمولی شدت آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف اور پارلیمان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اختلافات محض الزام تراشیوں تک ہی محدود نہیں رہے ہیں بلکہ دونوں جانب کی قیادتیں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لینے بھی لگی ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کی الزام تراشیوں میں جو ’’لب و لہجہ‘‘ اختیار کیا جارہا ہے اور جس طر ح کے’’مفہوم‘‘ بیان کیے جارہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بد ستور یوں ہی جاری رہا تو پھر ایسا ہے کہ اس سیاسی لڑائی کو’’ریاستی لڑائی ‘‘میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی لڑائی میں ’’ریاستی اداروں‘‘ کو نہ گھسیٹا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک جانب ریاستی اداروں کے متنازع ہونے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب اس سے جگ ہنسائی بھی ہورہی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی حریف ایک دوسرے کے خلاف تنقید کرنے کے لیے محتاط رویہ اختیار کریں ۔جہاں تک ملک میں جاری ’’احتسابی عمل‘‘ کا تعلق ہے تو اس کی کامیابی کی پہلی ضمانت تو اس میں ہوگی کہ ملک میں رائج ’’احتسابی نظام ‘‘ غیر جانب دار ہی نہیں بلکہ دیانت دار بھی ہوجبکہ دوسری ضمانت یہ کہ اس نظام کی آنکھیں صرف اور صرف کرپشن پر نظر رکھے اور اس ضمن میں وہ حکومت اور اپو زیشن میںکسی قسم کی کوئی تمیز نہ برتے۔بصورت دیگر پورے کا پوارا نظام اور احتسابی عمل ہی متنازع ہو کر رہ جائے گا جو کہ نہ صرف سیاسی اختلاف رائے کی وجہ بن پائے گابلکہ ’’کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کو تحفظ فراہم کرنے کاذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔
اس عام تاثر میں بلاشبہ کسی قسم کی کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ہمارے مروجہ سیاسی ڈھانچے میں کبھی بھی حکومت(حکمرانوں) کا احتساب نہیں بلکہ جب وہ حکومت سے چلے جاتے ہیں تو ان کا احتساب شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو ایک دوسرے کی کرپشن بے نقاب اور ’’ احتساب ‘‘کرتی آئی ہیں اسی طرح آج کی حکمران جماعت پی ٹی آئی حکوت مخالف جماعتوں کی قیادت کی کرپشن بے نقاب کرکے ان کا احتساب کررہی ہے جبکہ کل کوئی نئی حکومت پی ٹی آئی کی قیادت کا احتساب کررہی ہوگی ۔اس طرح تو ملک سے کبھی بھی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔ اس کے لیے تو ضروری ہے ہر ایک کرپٹ عناصر کے لیے احتساب ہر وقت ممکن ہونا چاہئے ۔ جہاں تک احتساب کے نام پر سیاست دانوں کی چیخ و پکار کا تعلق ہے تو اس میں ’’سیاسی مزاج ‘‘کا بھی بڑا عمل دخل ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں ملک میں جتنی بھی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں اس میں ’’ون مین شو‘‘یا پھر موروثی قیادت پائی جاتی ہے جو کسی صورت جواب طلبی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یہ ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی تقریباًسیاسی جماعتیں ’’کارپوریٹ کمپنی‘‘ کے طرز پرکام کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں’’ سینٹرل کمیٹی ‘‘اور’’ ایگزیکٹیو کمیٹی‘‘جیسی کاروبای اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں جو کسی بھی کارپویٹ کمپنی کے’’ بورڈ آف گورنرز‘‘سے خاصی مماثلت رکھتی ہیں ۔بہر کیف یہ الگ سے ایک مکمل موضوع ہے جس پر آئندہ تفصیل سے تحریر کیاجائے گا لیکن یہاں صرف اتنا کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کے فقدان کی وجہ سے سیاسی جماعتیں فرد واحد یا پھر مخصوص افراد پر مشتمل ٹولوں کی جاگیر بن کر رہ گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جسے ’’قومی سیاسی جماعت‘‘کے طور پر پیش کیا جاسکے۔بہر کیف تبدیلی سرکار کے خلاف اپوزیشن کی تمام بڑی چھوٹی جماعتوں نے ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ‘‘ کے نام سے نہ صرف اپنا سیاسی اتحاد تشکیل دے دیا ہے بلکہ اس کی سربراہی جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کو سونپ کر حکمران جماعت کو پیغام دے دیا ہے کہ اب متحدہ اپوزیشن کا اگلے برس جنوری میں اسلام آباد مارچ یقینی ہوگا ۔دوسری جانب یہ تاثر بھی عام ہے کہ تبدیلی سرکار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی طرح اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی نیب کے ذریعے دبائو میں لانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ اور ہوگااس ضمن میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر مولانا کے سیاسی کردار کے ساتھ کسی قسم کا کھیل کھیلا گیا تو پھر اس کھیل میں بہت سے ایسے کرداروں کے نام بھی سامنے آئیں گے جو صاف چھپتے بھی نہیں ہیں اور سامنے آتے بھی نہیں ہیں ۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کے حل کی جانب اپنی غیر معمولی توجہ مبذول کرے کیونکہ اس میں ناکامی کی صورت میںتبدیلی سرکار اگلے الیکشن میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گی اور اسی طرح اپوزیشن کو بھی عوامی مسائل کو ہی بنیاد بناکر سیاست کرنے کی ضرورت ہے یعنی عوامی ایشوز کوقومی سیاست میں بنیادی حیثیت دینے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک ماضی کے حکمرانوں کے احتساب کا معاملہ ہے تو اس کے لیے متعلقہ ا دارے موجود ہیں لہذا اس حوالے سے حکومتی اہلکاروں کوہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ بعض حکومتی نمائندوں کی روزی روٹی ہی اس بات پر چل رہی ہے کہ وہ ااحتساب کے نام پرمخالفین کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہیں تاکہ ملک کا سیاسی ماحول گرم رہے اور عوامی ایشوز دب کر رہ جائیں ۔بہر کیف احتساب ہونا چاہئے اور بے رحم ہونا چاہئے لیکن غیر جانب درانہ ہونا چاہئے اور اس کے لیے جو طریقہ کار یا ضابطہ کار اپنایا گیا ہے اس کا اطلاق ہر ایک پر ہونا چاہئے نہ کہ کہیں محض وضاحت سے بھی کام چلا لیا جائے اگر ایسا ہے تو پھر احتساب کو متنازع ہونے سے روکنا ممکن نہیں جبکہ قومی سیاست میں ریاست و آئین کے احترام کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر