وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کو رہنما اور منزل دونوں چاہیے!

جمعرات 01 اکتوبر 2020 کراچی کو رہنما اور منزل دونوں چاہیے!

کراچی میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ، شہر میں در آنے والے پانی کے ہلاکت خیز سیلابی ریلوں کے اُترجانے کے بعد ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ کی صورت میں اچانک سے اُمڈ آنے والا عوام کا سیلاب ،اگر کوئی سمجھنا چاہے تو کراچی کے بدلتے ہوئے سیاسی تیور کی جانب ایک واضح اشارہ فراہم کرتا ہے کہ اہلیان شہر اپنے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں ۔بظاہر’’ حقوق کراچی مارچ‘‘ جماعت اسلامی کے سیاسی پلیٹ فارم کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔لیکن جس طرح سے کراچی کے عوام نے تمام سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مارچ میں اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنایا ۔ یقینا اس حیران کن نظارے کو ملاحظہ کرنے کے بعد ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘کو فقط جماعت اسلامی کی سیاسی طاقت کامظاہرہ قرار دینا ،اس مارچ کے شرکاء کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ بہر حال یہ کریڈٹ تو جماعت اسلامی کراچی کی قیادت کو ہی جاتاہے کہ انہوں نے شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے عوام کی آواز بننے کا بروقت اور انتہائی پر اثر فیصلہ کیا۔خاص طور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے گزشتہ چند ماہ میں جس طرح سے کراچی کی آواز شہر کے’’ اندھے اور بہرے حکمرانوں‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بھی جماعت اسلامی کے خرمن میں ایک دو چنگاریاں ایسی ضرور موجود ہیں ۔ جنہیں اگر مناسب ماحول ملے تو وہ’’سیاسی جوالا مکھی‘‘ بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر دوسری جانب ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ میں امیر جماعت اسلامی پاکستان ،سینیٹر سراج الحق کا خطاب سیاسی تاثر سے یکسر خالی محسوس ہوا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے موصوف کراچی میں نہیں بلکہ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر خطاب فرما رہے ہیں ۔امیر جماعت اسلامی نے اپنے خطاب میں کراچی کے ساتھ گزشتہ چالیس برسوں میں روا رکھے جانے والے سیاسی مظالم کا حساب کتاب لینے کے بجائے وفاقی حکومت کی دو سالہ حکومتی کارکردگی کے سقم زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔
حالانکہ ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ کے شرکاء فقط اپنے مسائل اور اُن کے حل کا تذکرہ سننے آئے تھے لیکن امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے تمام ملک کے مسائل کے ساتھ کراچی شہر کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اس طرح سے ایک تقریر میں سمونے کی ناکام کوشش کی کہ آخر میں سننے والوں کو خبر ہی نہ ہوسکی کہ کراچی کے حقوق کی باتیں ،ملکی سیاست کے سیاسی سمندر میں غوطے کھا کر کہاں گم ہوگئیں۔جبکہ کراچی کے مسائل کا ذمہ دار بار بارموجودہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو قرار دینا ایک ایسی ’’سیاسی گپ ‘‘ تھی ،جسے ہضم کرپانا کم ازکم اہلیان کراچی کے لیے تو ناممکن ہی تھا۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جماعت اسلامی کراچی کے دیگر تمام مقررین نے ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ میں اپنا بنیادی ہدف شہر یوں کی سیاسی ،انتظامی اور سماجی مشکلات کو ہی بنائے رکھا اور اُن نکات پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کرنے کی کوشش کی جن کا تعلق کراچی کے ماضی ، حال اور مستقبل سے تھا۔ ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ کی فقید المثال کامیابی جماعت اسلامی کے لیے ایک بڑا سیاسی موقع ہے ۔ اگر جماعت اسلامی کی قیادت اس موقع سے درست انداز میں فائدہ اُٹھانے میں کامیاب ہوجائے تو کراچی میں بانی ایم کیو ایم کے مائنس ہونے کے بعد جو بہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوا ہے ،اُسے وہ باآسانی پر کرسکتی ہے۔ یعنی جماعت اسلامی کے قائدین کی تھوڑی سے سیاسی بالغ نظری ایک بار پھر سے اس جماعت کو کراچی کی ناقابلِ تسخیر سیاسی قوت بنا سکتی ہے ۔ لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے اہلیان کراچی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں لاحق اصل ’’سیاسی وائرس ‘‘سے نجات دلانے کی عملی سعی کی جائے اور گزشتہ کئی برسوں سے کراچی کا استحصال کرنے والی سیاسی قوتوں کے خلاف واضح اعلان جنگ کیا جائے ۔
اگر خوش قسمتی سے ایسا واقعی ہوجائے اور جماعت اسلامی کراچی شہر کے جائز حقوق کے لیے واضح حکمت عملی اور سیاسی نیت کے ساتھ شہر کی اصل استحصالی قوتوں کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنے کا حتمی فیصلہ کرلے تو یقین مانئے !اہلیان کراچی اپنی تمام سیاسی قوت جماعت اسلامی کے ہاتھوں میں خوشی سے تھما دیں گے ۔ لیکن اس اہم ترین مرحلے پر بھی اگر جماعت اسلامی کی قیادت نے روایتی سیاسی پس و پیش سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں میں ’’سیاسی لڈو ‘‘ رکھنے کی کوشش کی تو یہ سنہری موقع ضائع بھی ہوسکتاہے ۔ جس کا براہ راست فائدہ صرف اور صرف تحریک انصاف کی جماعت کو ہی حاصل ہوگا اور کراچی کے عوام اپنے آخری آپشن کے طور پر تحریک انصاف کو اپنی سیاسی قوت و طاقت فراہم کرنے میں مجبور ہوں گے۔کیونکہ اس وقت کراچی کے عوام جس کیفیت سے دوچار ہیں ،اُس سے نجات کے لیے اُن کی نظریں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پر بیک وقت ٹکی ہوئی ہیں۔ اَب جو سب سے پہلے دو قدم آگے بڑھا کراچی کے مظلوم و مقہور عوام کا ہاتھ تھام لے گا ۔یہ اُسی کے ساتھ اپنے حقوق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے ۔ مگر اس بار اہلیانِ کراچی کو رہنما اور منزل دونوں چاہیے کیونکہ ماضی میں ایسے سیاسی رہنما کا ساتھ دینے کی قیمت وہ سود سمیت ادا کرچکے ہیں ،جس کے پاس سرے سے منزل تھی ہی نہیں ۔ لہٰذا کراچی کو اَب ایسے سیاسی رہنما کی تلاش ہے ،جس کے پاس منزل بھی ہو اور رہنمائی کی صلاحیت بھی ۔ آنے والے وقت میں دیکھنا یہ ہو گا کراچی کے استحصالی حکمرانوں کے خلاف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں سے کون سی سیاسی جماعت اہلیانِ شہر کی طاقت ور آواز بننے کی سعادت حاصل کر پاتی ہے۔بقول شاعر عزم بہزاد

اس سے پہلے کہ منزل اندھیروںمیں تبدیل ہونے لگے

قافلے سے کہو، رہنما ڈھونڈ لے ، رہنما کے لیے
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر