وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاسی بیگانگی

جمعرات 24 ستمبر 2020 سیاسی بیگانگی

ہم سات دہائیوں سے سماجی و معاشی ترقی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایسی کسی ترقی کے لیے خود کو کبھی تیار بھی نہیں کرسکے ہیں تو پھر ایسے میں کیا کیا جائے کہ ہم ترقی کے لیے خود کو تیار کرسکیں ۔پہلے پہل تو ایسی وجوہات کی نشاندہی ہونی چاہئے جو ہمیں ترقی کی طرف بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ تو ملکی سیاست میں ’’عدم توازن‘‘ کا ہونا ہے یعنی سیاسی عمل’’ رسہ کشی‘‘ کا شکار ہے اور یہی رسہ کشی نہ ہی ہمیں آگے بڑھنے دیتی ہے اور نہ ہی غلطیاں سدھارنے کے لیے کچھ قدم پیچھے ہٹنے دیتی ہے۔ الغرض یہ کہ ملکی سیاست’’معلق‘‘ ہے جو ایک ہی طرح کے دور میں جی رہی ہے ۔جہاں تک ملکی سیاست کے عدم توازن کی بات ہے تو اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا غیر معمولی کردار ہے ۔جیسا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے ویڈیو لنک خطاب میں واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کی لڑائی وزیر اعظم عمران خان سے نہیں بلکہ اسے لانے والوں سے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اشارہ کس طرف ہے ،یقینا اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوگا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاحی تعریف بیان نہیں کی جاتی کہ اسٹیبلشمنٹ سے مراد کون سی ایسی طاقت ہے جو پارلیمنٹ اور حکومت پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن گزشتہ روز ایک خبر سامنے آئی کہ گلگت بلتستان کے معاملے پر پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں سے فوج کے اعلیٰ ترین افسران نے ملاقات کی ہے اور اس کے لیے فوج کے اعلیٰ افسران کے لیے’’عسکری قیادت‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی ایک جانب سیاسی قیادت ہے تو دوسری جانب عسکری قیادت ہے ۔
بہر کیف اس سیاسی و عسکری قیادت کی ملاقات کی کہانی اب خبر بن چکی ہے جس کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فوج کو ملکی سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ایسی کون سی طاقت ہے جو فوج کو ملکی سیاست میں گھسیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اب یہ بحث دلچسپ مرحلے میں داخل ہورہی ہے کہ ملکی سیاست کو ایک جانب ایسی قوت کی تلاش ہے جو پارلیمنٹ اور حکومت پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے جس کی جانب سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اشارے کررہے ہیں ۔دوسری جانب عسکری قیادت کو ایسی قوت کی تلاش ہے جو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔جہاں تک اہل سیاست کا یہ الزام ہے کہ سیاسی عمل میں کوئی طاقت ہے جو اپنا غیر معمولی اثرورسوخ رکھتی ہے اسے اہل سیاسست اسٹیبلشمنٹ کے نام سے پکارتی ہے لیکن عسکری قیادت جس غیر معمولی قوت کا ذکر کررہی ہے اسے کیا نام دیا جائے گا اس حوالےسے سیاسی اصطلاحات کا دامن فی الوقت محدود دکھائی دیتا ہے لیکن ملکی سیاست کی مجموعی صورتحال کو ہم ’’سیاسی بیگانگی ‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔
بات سماجی و معاشی ترقی کے حوالے سے ہوررہی تھی کہ ہم ترقی کی تلاش میں کیوں بھٹک رہے ہیں اس سوال کے جواب سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے لیکن بات اتنی سی ہے کہ جب تک ملکی سیاست میں ’’توزان‘‘ قائم نہیں ہوگا اس وقت تک ریاستی استحکام ممکن نہیں ہوگا اور جب ریاست سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوگی تو ملک ترقی کے سفر پر کیونکر گامزن ہوسکتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سیاست میں طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے لیے آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہئے تاکہ ہر ایک ریاستی ادارہ اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی دیانت داری و ایمانداری کرسکے ۔بصورت دیگر ہم سات دہائیوں سے ترقی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور آگے بھی یوں ہی بھٹکتے رہیں گے ،لہذا الزام تراشیوں کی سیاست سے گریز کیا جانے چاہئے بالخصوص ریاستی اداروں پر انگلیاں نہیں اٹھنی چاہئے اور نہ ہی ریاستی اداروں کو کبھی وضاحتی پوزیشن پر ہونا چاہئے ۔ ایسے میں بر صغیر پاک و ہند(ٹیکسیلا) کے عظیم سیاسی و سماجی مفکر کوتلیہ چانکیہ کی کتاب ’’ارتھ شاشتر‘‘کا یہ مرکزی خیال یاد آگیا کہ سماجی ترقی کے لیے معاشی ترقی ضروری ہے اور معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے ۔لہٰذا سیاسی استحکام کے لیے بسا اوقات کڑوے گھونٹ بھی پینے پڑتے ہیں اور سماجی و معاشی ترقی کے لیے ہمیں یہ کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تو پینے چاہئے جبکہ عوام کا یہ عالم ہے کہ اسے مہنگائی اور بے روزگاری کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے جو بغیر کسی امید کے جی رہی ہے حالانکہ اس میں تو ایک ’’عظیم قوم ‘‘ بننے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے لیکن اس کی اس صلاحیتوں کو توفکر معاش کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے۔آخر میں بس اتنا کہ ملکی سیاست میں استحکام کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان آئینی اختیارات سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے اور ایسے ہی ریاستی اداروں کو اپنی آئینی و قانونی حدود سے باہر نہیں جانا چاہئے اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور کسی بھی قسم کی دیو مالائی طاقت کا وجود باقی نہیں رہ پائے گا ۔بصورت دیگر سماجی ومعاشی ترقی کے دعوے اور نعرے محض خام خیالی اور اپنی ذات سے بیگانگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہونگے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر