وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’معلوم آتی‘‘۔کالم۔۔

بدھ 23 ستمبر 2020 ’’معلوم آتی‘‘۔کالم۔۔

دوستو،آج آپ سے روٹین کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ساتھ ساتھ کوشش کریں گے کہ آپ کو کچھ’’ معلوم آتی‘‘باتیں بھی شیئر کریں، آپ نے آج تک معلوم آتی کو ’’معلوماتی‘‘ ہی پڑھا بھی ہوگا اور لکھتے بھی ایسا ہی ہوں گے، لیکن ہم اسے ’’معلوم آتی‘‘ ہی کہتے ہیں کیوں کہ جب بھی ہم کسی بھی انسان سے کسی واقعہ کے بارے میں بتاتے ہیں تو اسے پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔۔ آپ کو اکثر ایسے لوگ ضرور ملتے ہوں گے کہ آپ کی بریکنگ نیوز اس کے سامنے زیرو ہوجاتی ہوگی۔۔ کیوں کہ اس کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے لگتا ہے کہ جو کچھ آپ نے اسے بتایا وہ تو اسے پہلے سے ہی معلوم تھا۔۔ تو چلئے کچھ نئی باتیں جو ہمارے علم میں آئیں آپ سے شیئر کرتے چلیں۔۔
دوسروں کے لیے حسد، بغض اور کینہ رکھنے اور طنز کرنے سے ہمارا دین اسلام بھی سختی سے منع کرتا ہے اور اب سائنسدانوں نے بھی ان منفی عادات کے متعلق ایسا تشویشناک انکشاف کر دیا ہے کہ ان عادات کے مالک لوگ اپنے روئیے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹینسی کے سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ دوسروں پر طنزکرنے، حسد، بغض اور کینہ جیسے منفی جذبات رکھنے والے لوگوں کی قبل از وقت موت ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں دل کی بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں ہارٹ اٹیک زیادہ آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے ہارٹ اٹیک سے بچ نکلنے والے 2ہزار 300لوگوں میں روئیے کی عادات کا معائنہ کیا۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ مذکورہ منفی عادات کے مالک تھے ان کو اگلے دو سال کے اندر ہی دوسری بار ہارٹ اٹیک آنے اور اس سے ان کی موت ہونے کا خطرہ مثبت جذبات رکھنے والے لوگوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ٹریسی ویٹوری کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق میں اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ انسان کا ہمیشہ منفی سوچ اور منفی رویہ اپنائے رکھنا اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں اپنی دیکھ بھال کرنے کا رجحان بہت کم ہوتا ہے اور یہ لوگ سگریٹ و شراب نوشی کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک اور طرز زندگی انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جو ان لوگوں میں دل کے عارضے سمیت دیگر امراض کا سبب بنتی ہیں اور ان کی جلد موت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماہرین فیس ماسک کی پابندی پر تو زور دیتے آ رہے تھے۔ اب انہوں نے عینک پہننے کے متعلق بھی نئی تحقیق میں ایک حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ چینی ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں بتایا ہے کہ جو لوگ باہر نکلتے وقت ہمیشہ عینک پہنے رکھتے ہیں، ان کو کورونا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت کئی گنا کم ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں جو مردوخواتین دن میں آٹھ گھنٹے نظر کی عینک پہنتے تھے انہیں وائرس لاحق ہونے کا خطرہ 5.8فیصد کم پایا گیا۔اس تحقیق میں نن چینگ یونیورسٹی کے ماہرین نے چینی صوبے ہیوبی میں ماہرین نے ہزاروں لوگوں کے چشمہ پہننے کی عادت اور ان کو وائرس لاحق ہونے کے امکان کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔۔رپورٹ کے مطابق کئی سابقہ تحقیقات میں بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بیشتر لوگوں کو کورونا وائرس آنکھوں کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔ وائرس ان کی آنکھوں میں ہوا میں معلق لعاب کے قطروں سے یا ہاتھوں سے آنکھوں کو چھونے سے داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے عینک پہن رکھی ہو، وہ ان دونوں طریقوں سے آنکھوں میں وائرس داخل ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔
ٹرینوں کی جب ابتدا ہوئی تو اس وقت کسی بھی ٹرین میں واش روم نہیں ہوتا تھا۔۔ لگا ناں جھٹکا۔۔؟؟ٹرین کے اندر واش روم کب شروع ہوا؟یہ انیس سو نو کی بات ہے ، ٹرین میں سفر کرنے والے ایک بنگالی ہندو مسافر’’اوکھیل چندراسین‘‘ نے ریلوے افسر کو دلچسپ شکایتی مراسلہ لکھا، جو کچھ یوں تھا۔۔جناب ڈویژنل ریلوے آفیسر!میں ریل پہ سفر کررہا تھا۔ بسیار خوراکی کے سبب میرے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ ریل احمد پورا سٹیشن پر رکی تو میں حاجت کے لیے اترگیا۔ابھی حاجت روائی جاری تھی کہ ناس پیٹے گارڈ نے سیٹی بجادی۔ سیٹی سن کر میں سٹپٹاگیا اور اس عالم میں دوڑ لگائی کہ ایک ہاتھ میں لوٹا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے لنگوٹ پکڑا ہوا تھا۔ریل کو جا لینے کی تگ و دو میں دھڑام سے گر پڑا۔ ریلوے اسٹیشن پر موجود کیا خواتین اور کیا حضرات سبھی نے میرے کھلے پچھواڑے کے خوب خوب نظارے کیے۔ یوں دیکھتے دیکھتے ہاتھ سے عزت بھی گئی اور ریل بھی گئی۔محترم!میرے اس ہمہ جہت نقصان کا ذمہ دار وہ ناہنجار گارڈ ہے جس نے بے وقت سیٹی بجائی۔میری درخواست ہے کہ اس گارڈ پر تگڑا جرمانہ عائد کریں۔ اگر نہیں، تو پھر میں اخبارات کو واقعے سے متعلق تگڑی خبریں دینے والا ہوں۔۔فضل الرحمن قاضی صاحب اپنی کتاب ۔۔وداد ریل کی۔۔ میں لکھتے ہیں کہ اوکھیل چندراسین کا یہ خط دہلی میں ریلوے کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔یہ وہ تاریخی خط ہے جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ہندوستان میں پہلی بار ریل کے اندر واش روم کی سہولت شروع کرنے کا حکم جاری کیا۔
موبائل فون بلاشبہ یہ وہ واحد سائنسی ایجاد ہے جو خریدکر،چھین کریاچوری کرکے بھی استعمال کی جاتی ہے،ہمارے پیارے دوست سے ان کے ایک دوست نے شکوہ کیا،تم میرا فون نہیں اٹھاتے،اب اُن کے دوست کا موبائل ہمارے پیارے دوست کے پاس ہوتا ہے کیوں کہ وہ اگلے ہی روز اس کا فون ’’اٹھا‘‘ لائے۔۔ذرا ایک منٹ کے لئے تصورکریں، اگر موبائل فون ’’ میڈان لہور‘‘ ہوتا تواس کے ’’فیچرز‘‘ کس طرح کے ہوتے ؟؟۔۔ پلے اسٹور پر لکھا ہوتا، مفت دا مال۔۔کانٹیکٹ کی جگہ لکھاہوتا، یارسجن۔۔ ڈائل پہ ہوتا، خرچ کر۔۔ اسکائپ پہ لکھاہوتا، فری چہ گلاں۔۔ واٹس ایپ کی جگہ ہوتا،لگا رہ۔۔سیٹنگ کی جگہ ہوتا، مکینکی کر،۔۔ گیلری کی جگہ تصویراں ہوتا، یوٹیوب پر ہوتا،گانے ویکھ،براؤزر کی جگہ لکھاہوتا، نیٹ کھول، فیس بک کی جگہ ہوتا، ویکھ دا رہ اور میپ کی جگہ ہوتا، رُلدا رے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جن لوگوں کا کہیں بھی جی نہیں لگتا وہ میرے نام کے آگے جی لگاسکتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر