وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کے لیے قومی لائحہ عمل کی ضرورت

بدھ 02 ستمبر 2020 کراچی کے لیے قومی لائحہ عمل کی ضرورت

میں کراچی ہوں جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ میں دنوں کے دنوں اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہوں ۔ جگمگاتی شاہراہیں اور صاف ستھرے راستے میری پہچان ہوا کرتے تھے لیکن اب ایسا ہے کہ شاہراہوں پر جگہ جگہ پر گھڑے پڑے ہیں اور راستوں میں قدم قدم پر کچروں کا ڈھیڑ لگا ہے ۔اپنے پہلو میں ایک عظیم الشان سمندر رکھنے کے باوجود میں کبھی زیر آب نہیں ہوا تھا اب نوبت یہ ہے کہ مون سون کی چند بارشوں نے مجھے ڈبو ڈالا ہے ۔ مجھے غریبوں کی ماں ہونے کا در جہ دیا گیا اور چھوٹے پاکستان کی حیثیت سے پکارا گیا لیکن اس ماں اور چھوٹے پاکستان کے ساتھ کیا کچھ کیاگیا یہ ایک لمبی داستان ہے لیکن میری موجودہ حالت یہ داستان خود بیان کررہی ہے کہ مجھے کس طرح سے لُٹا گیا،نچوڑا گیا اور دھتکارا گیا ہے۔ میری آن بان سب کی سب لٹ چکی ہے اور میرے ایک دکھیاری ماں کی طرے حصے بخریے کیے جارہے ہیں حالانکہ میں سب کا ہوں اور سب میرے ہیںلیکن میں ایک ایسی ماں کی مانند ہوں جو آ ہ وبکا بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں میرے بیٹوں کی ہی رسوائی ہے ۔
بہر کیف آج بھی مجھے سنوارنے کی بجائے مجھ پر سیاست کی جارہی ہے ،ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں ،میرے ہی خزانوں سے سمیٹی جانے والی دولت کو مجھ پر ہی خرچ کرنے کے لیے مانگا تانگا کیا جارہا ہے حالانکہ میں نے تو اپنے بیٹوں کو نہ ہی الگ کیا ہے اور نہ ہی ان میں بٹوارا کیا ہے تو پھر کیوں میری موت سے پہلے حصے بخریے کیے جارہے ہیں جبکہ میں سب کے لیے یکساں ہوں اور میرے لیے سب برابر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ مجھے وفاق کے ماتحت کیا جارہا ہے جبکہ میں خود اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہوں ،مجھے وہ تاریخ بعید کا وقت بھی یاد ہے جب میں سندھ کا حصہ نہیں تھا لیکن مجھے سندھ کے حکمرانوں نے فتح کیااور مجھے تاریخ قریب کا یہ وقت بھی یا د ہے جب مملکت خداداد پاکستان معرض وجودمیں آیا تو مجھے اس کی راج دھانی (دارالحکومت)بنایا گیا لیکن آج میں سندھ کا حصہ ہوں اور اس کی راج دھانی ہوں جبکہ اس سے بڑھ کر میں ’’کراچی ‘‘ ہوں ۔ میری اپنی پہچان اور شناخت ہے میں سندھیوں کے لیے سندھ ہوں ، بلوچوں کے لیے بلوچستان ہوں ، پختونوں کے لیے خیبر پختونخوا ہوں،پنجابیوں کے لیے پنجاب ہوں اور ہجرت یافتہ گھرانوں یعنی مہاجروں کے لیے پاکستان ہوں ۔یہاں یہ واضح رہے کہ میرے نزدیک سرائیکی اور ہزارہ سمیت دیگر قومیں بھی اپنے اپنے صوبوں سے ہٹ کر اپنی الگ علاقائی شناخت رکھتی ہیں جو اپنی زبان اور کلچر میں نمایاں ہیں لہذا ان کی قومی شناخت اور ثقافت کا احترام مجھے ہر صورت ہے اور ان قوموں کی بھی ایک بڑی تعداد کراچی میں آباد ہیںلہذا کراچی ان کا بھی ہے ۔جہاں تک کراچی کی موجودہ خستہ حالی کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جہاں دیگر قومی و شہری ادارے ذمہ دار ٹھہرائے جائینگے وہاں اس شہر کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی مورد الزام ٹھہرے گی جن میں ایم کیو ایم پاکستان ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سر فہرست ہیںکیونکہ جماعت اسلامی اورر ایم کیو ایم نے کراچی پر براہ راست حکمرانی کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کی حاکم ہونے کی وجہ سے کراچی کی بھی والی رہی ہے۔
اس وقت کراچی پر حق حکمرانی کا تاج کسی حد تک تحریک انصاف کے سر پر بھی ہے جہاں سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان ہی منتخب نہیں ہوئے بلکہ ان کی جماعت کی جانب سے یہاں نمایاں کامیابی سمیٹی گئی ہے ۔یعنی اس وقت کراچی کی اسٹیک ہولڈرز جماعتوں میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں جن میں سے جماعت اسلامی اس وقت پس پشت ہے اور پارلیمانی سیاست میں کراچی کے حوالے سے اس کاحصہ نہ ہونے کے برابرہے جبکہ مسلم لیگ (ن) جو کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن وہ کراچی کی سیاست پر اپنا اثرو رسوخ نہیں رکھتی اسی طرح دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں جو کراچی کی سیاست میں شور تو برپا کر سکتی ہیں لیکن انتخابی سیاست میں انھیں پذیرائی حاصل نہیں ہے جن میں جمعیت علماء (ف) اور جمعیت علماء اسلام پاکستان جیسی دیگر جماعتیں شامل ہیں جبکہ کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا سندھی و بلوچ قوم پرست تنظیموں کو ہے جو کراچی کے تاریخی اسٹیک ہولڈرز تو ہیں لیکن موجودہ دور میں صرف انکے پاس حقِ دعویٰ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بہر کیف کراچی سب کی ماں ہے اور ہم سب اسکے بیٹے ہیں لہذا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دکھیاری ماں کے آنسوئوں کا مداوا کریں اور کراچی کی ازسر نو تعمیر وترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ جہاں تک کراچی کے مسائل اور اس کے حل کا سوال ہے تو اس پر سیاست کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں یہ بات خصوصی طور پر ملحوظ خیا ل رکھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کو ایک قلعے کے طور پرفتح نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے ایک ماں کی خدمت کے طور جیتا جاسکتا ہے کیونکہ ماں کی دعا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ کراچی پر سیاسی پوائنٹ اسکوررنگ سے گریز کیا جائے اور ہر ایک سیاسی جماعت اپنے حصے کی ذمہ داری مکمل ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ پوری کرے اورر جہاں تک قوومی و شہری داروں کی مبینہ نااہلی کا سوال ہے تو اس کی جواب طلبی ہونی چاہئے۔اسی طرح فنڈز کی کمی اور عدم دستیابی کا رونا کراچی جیسے عظیم الشان شہر کا مذاق اڑانے
کے مترادف ہے جو دراصل حکمرانوں اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا اپنا مذاق آپ اڑانے کے برابر ہے ۔بہر کیف کراچی کے مسائل کے حل اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے الزام تراشیوں کی سیاست کو ترک کرکے ایک’’ قومی لائحہ‘‘ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی و غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ قومی و شہری اداروں کا مساوی کردار شامل ہو نا چاہئے ، ایسے میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت کراچی کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ رکھتی ہے تو اسے ہر سطح پر حمایت حاصل ہونی چاہئے لیکن یہ تمام منصوبہ بندی ریاستی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونی چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر