وجود

... loading ...

وجود
وجود

اہلیانِ کراچی کا، بس اتنا سا خواب تھا۔۔۔!

جمعرات 20 اگست 2020 اہلیانِ کراچی کا، بس اتنا سا خواب تھا۔۔۔!

سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’شہری سیاست کے بل بوتے پر انتخابات جیت کرحکومت تو نہیں بنائی جاسکتی لیکن شہری سیاست کسی بنی بنائی انتخابی و جمہوری حکومت کو گرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔ پاکستانی سیاست پر ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی بصیرت سے لبریز یہ تبصرہ ہمیشہ ہی صادق آیا ہے اور ماضی میں کئی بار تواتر کے ساتھ ہیوی مینڈیٹ لے کر ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والی جمہوری حکومتیں بھی پاکستان میں شہری سیاست کے احتجاجی مزاج کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت آسانی کے ساتھ زمین بوس ہوچکی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی اقلیم کی واحد امین جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اپنے قائد عوام کے اِس اہم ترین جملہ کو اپنے سیاسی منشور کا اُصولِ زریں بنا لیتی اور شہری سیاست کے بدمست گھوڑے کو انتظامی چابک سے سدھانے کے بجائے عوامی خدمت کے زریں اُصولوں سے رام کرنے کی کوشش کرتی ۔
لیکن افسوس صد افسوس پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے قائد عوام کی سیاسی نصیحت پر کان دھرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے دورِ حکومت میں ہمیشہ ہی سے شہری اور دیہی سیاست میں زیادہ سے زیادہ خلیج پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ خاص طور پر سندھ حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں سے شہر کراچی کے ساتھ سیاسی بغض و عناد کا جو انتظامی رویہ، روا رکھا ہے، اُس کی وجہ سے کراچی کے شہری ،سندھ حکومت سے اس قدر نالاں اور مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اَب مشکل کی کسی چھوٹی سے چھوٹی گھڑی میں بھی سندھ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے وفاقی حکومت اور پاک فوج کو مدد کے لیے دہائیاں دینا شروع کردیتے ہیں ۔ جس کی تازہ ترین مثال کراچی میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشیں ہیں ۔ اُصولی طور پر تو شہرکراچی میں طوفانی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال میں کراچی کے باسیوں کو اپنے شہر کے بلدیاتی اداروں اور سندھ حکومت کو مدد و اعانت کے لیے ہی پکارنا چاہئے تھا لیکن کیا عجیب ستم ہے کہ بارش کے پانی میں ڈوبتے ہوئے بھی شہر کراچی کے مکینوں نے سندھ حکومت کے ’’سیاسی تنکے ‘‘ کا سہارا لینا گوار ا نہ کیا اور اپنی ساری اُمیدوں کا مرکز و محور وفاقی حکومت اور پاک فوج کو بنا لیا۔
اَب آپ خود ہی بتائیے کہ ایسی مخدوش انتظامی صورت حال میں جب سارا شہر کراچی جھولیاں پھیلا ،پھیلا کر وفاقی حکومت اور پاک فوج کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہو ۔ ان حالات میں وفاقی حکومت اور پاک فوج کے پاس سوائے اس کے اور کون سا دوسرا راستہ باقی رہ جاتاتھا کہ وہ فی الفور عازم کراچی ہوجائیںاور سسکتے ، بلکتے شہریوں کو پیش آنے والی تکلیفوں کا مقدور بھر مدوا کریں۔ یادش بخیر ! کہ وفاقی حکومت اور پاک فوج نے یہ ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی اور اتنے بہتر انداز میں کی کہ کراچی کے مکینوں کے شکستہ دل ،رفو ہوگئے اور وہ اپنے مددگاروں کے صدقے واری جانے لگے ۔ چونکہ یہ سب کچھ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے ہوتے ہوئے ، ہو رہا تھالہذا سندھ حکومت کی انتظامی و سیاسی اہلیت پر کچھ سوالات اُٹھنا تو لازم تھے کہ آخر گزشتہ دو دہائیوں سے متواتر صوبہ سندھ کے راج سنگھاسن پر براجمان ہونے کے باوجود بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اس قدر تباہ حال کیوں ہے کہ مون سون کی بارش کے چند چھینٹے بھی برداشت نہیں کرسکتا؟۔
کچھ اس طرح کے کاٹ دار سوالات نے اور کچھ وفاقی حکومت اور پاک فوج کے دوستانہ رویے نے کراچی کے مکینوں کی اُمیدوں کو اتنا زیادہ بڑھاوا دیاکہ بے چارے ناعاقبت اندیش شہریوں نے دن کی تیز ’’سیاسی روشنی ‘‘میں بھی ایک ’’انتظامی سپنا‘‘ دیکھنا شروع کردیا۔سپنا کچھ یوں تھا کہ کراچی دو، چار دنوں کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہی وفاقی حکومت کے زیر انتظام آچکا ہے اور شہر بھر کی حکومت دنیا کے کسی بڑے میٹرو پولیٹن کارپوریشن شہرکی مانند راست انداز میں چلائی جارہی ہے ۔ یعنی کراچی پورے چالیس برس بعد روشنیوں کے حقیقی شہر کا ایک دلکش منظر پیش کررہاہے۔ ابھی یہ سپنا ،سپنے میں بھی مکمل نہ ہو پایا تھا کہ اِس سپنے کی اُڑتی ،اُڑتی بھنک پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو پڑ گئی ۔بس پھر کیا تھا ، پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں وہ آہ آہ کار مچی کہ کراچی کے شہریوں کا سپنا ، کہیں بیچ سپنے میں ہی ٹوٹ کر رہ گیا ۔ جب کہ سیاسی چیخ و پکار سُن کر کراچی کے شہریوں کی آنکھیں بھی مکمل طور پر کھل چکی ہیں اور وہ اپنے ٹوٹے خواب کی ایک ایک کرچی جمع کرنے میں مصروف ہیں۔شاید یہ سادہ دل اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں جمع کربھی لی جائیں تو پھر بھی اُنہیں جوڑ کر دوبارہ سے خواب نہیں بنایا جاسکتا۔
ویسے بھی کوئی مانے یا نہ مانے بہر کیف حقیقت یہ ہی ہے کہ کراچی پر دائمی اور ہمیشگی حکومت کا’’انتخابی حق ‘‘ تو صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی نامزد کردہ سندھ حکومت کے ہی پاس ہے ۔پیپلزپارٹی کے اِس مقدس سیاسی حق پر کراچی کے عوام نے کبھی کوئی اعتراض بھی نہیں اُٹھایا۔لیکن اہلیانِ کراچی کو اپنے جسم و جاں کا نازک سا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کچھ بنیادی نوعیت کی سہولیات تو آخر کار درکارہی ہوں گی نا!۔ مثلاً رات کاٹنے کے لیے بجلی دے دی جائے ، پینے کے لیے صاف پانی پہنچا دیا جائے ،چلنے کے لیے ٹوٹی پھوٹی ہی سہی،چند سڑکیںان کے قدموں میں بچھادی جائیں، گھر کے سامنے پڑا ہوا تعفن پھیلاتا ہوا کچرا اُٹھالیاجائے اور اگر ممکن ہوسکے تو سندھ حکومت کے دفتروں میں رشوت کا ریٹ تھوڑا سا کم کردیاجائے۔اہلیانِ کراچی کا ،بس اتنا سا خواب ہے۔اس سے زیادہ کراچی کے عوام، سندھ سرکار سے کچھ مانگتے ہی نہیں ۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ کے حکمران اِن مسائل کے حل کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں۔ بقول شاعر
کسی بھی شخص پہ اس کو ترس نہیں آتا
امیر شہر ہوا ہے،یہ کن صفات میںگم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر