وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی میجر گورو آریا کے جواب میں

هفته 01 اگست 2020 بھارتی میجر گورو آریا کے جواب میں

دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج خالق کائنات نے اتارا نہ ہو، کینسر، ایڈز، کورونا وائرس کی طرح ہندوتوا بھی ایک شدید قسم کا مرض ہے اور جسے یہ لاحق ہوجائے تو وہ اسلام دشمنی و پاکستان دشمنی میں جل جل خود ہی گھستا رہتا ہے آج کل بھارت اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور نعمت اللہ شاہ ولی اپنی پیشین گوئیوں میں اور عالمی ماہرین مختلف موقعوں پر اس کا علاج بھی تجویز کرچکے ہیں جس کے پیش نظر ہندوتوا کا بچہ بچہ پاک آرمی کے نام سے نہ صرف خوف میں مبتلا رہتا ہے بلکہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوے ہیں کہ کسی بھی طرح سے پاک فوج کو کمزور کردیا جائے، ایسی ہی ایک مذموم کوشش سابق بھارتی فوجی افسر میجر گورو آریا نے بھی کی اور نتیجہ وہی مایوسی کی صورت برآمد ہوا۔ میجر گورو آریا اس سے پہلے پاک افواج پر دہشتگردانہ حملوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحدگی پسندوں سے اظہار یکجہتی بھی کرچکے ہیں، حال ہی میں بھارتی میجر صاحب نے اپنے یوٹیوب چینل کے زریعے پاکستانیوں سے خطاب فرمایا جس میں پورے زور لگا کر افواج پاکستان سے بغض و عناد کا کھل کر اظہار کیا اور پاکستانی عوام کو اکسانے کی کوشش کی جوکہ عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، یوں تو بھارت میں ICCPR کے آرٹیکل 19 اور 20 کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں بیگناہ مسلمان و عیسائی جان سے جاچکے اور دہلی مسلم نسل کشی کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے لیکن اب بھارتی میجر براہ راست پاکستانیوں کو تشدد و فساد کے لیے اکساتے رہے جس پر عالمی اداروں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے میجر گورو آریا نے الزام عائد کیا کہ پاک فوج اپنے شہریوں میں بھارت کے خلاف نفرتیں ابھارتی ہے اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ ہے اس کے علاوہ نریندر مودی نے پروگرام من کی بات میں یوم کارگل کے موقع پر بات کرتے ہوے کہا کہ پاکستان نے بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جس کی حقیقت ہندوتوا کی پاکستان و پاک فوج دشمنی سے زیادہ نہیں۔
اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا، ریاست جوناگڑھ کے معاملے پر تو بھارت نے درخواست کی کہ آبادی کی خواہش کے مطابق انضمام کا فیصلہ کیا جائے لیکن کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ دھوکہ و مکاری سے کام لیا، اس کے باوجود پاکستان بھارت سے بہتر تعلقات کا خواہاں رہا جس کا ثبوت 1962 کی ہند چین جنگ ہے کہ پاکستان نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی ورنہ اس وقت اگر اس طرف سے پاکستان حملہ آور ہوجاتا تو یقینی تھا کہ بھارت کشمیر کے ساتھ ساتھ سیون سسٹرز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا لیکن مکار بھارت نے 1965 میں رات کی تاریکی میں مذموم جارحیت کی جس میں منہ کی کھانا پڑی اور روایت کے مطابق عالمی قوتوں کا سہارا لینے بھاگ کھڑا ہوا، معاہدہ تاشقند کے بعد ایک طرف تو رام رام کرتا رہا دوسری طرف مکتی باہنی کی سرپرستی کرتا رہا اور 1971 میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، اس کے علاوہ مشرف دور میں امن کی آشا کی آڑ میں پاکستان میں دہشتگردی کے لیے راہ ہموار کرتے رہے، زرداری نوازشریف فیوریٹ نیشن قرار دیتے رہے بدلے میں بھارت افغان سرزمین کے زریعے پاکستان میں خون کی ہولی کھیلتا رہا، یہ ہیں وہ بھارتی مکاریاں جو قابل نفرت ہیں جن سے لاکھوں پاکستانی براہ راست متاثر ہوے، بھارت کے کرتوت ہی ایسے ہیں کہ عوام نہ چاہتے ہوے بھی نفرت کرتی ہے۔ میجر گورو آریا کے وی لاگ کے بعد اب یہ بات مخفی نہیں رہی کہ پاکستان میں پاک فوج کے خلاف منظم پروپیگنڈے میں کن کے مفادات وابستہ ہیں اور مہم چلانے والوں سے ہر خاص و عام واقف ہے، بھارتی میجر صاحب نے سابق حکمرانوں و روایتی سیاسی جماعتوں کو کلین چٹ دیتے ہوے پاکستان میں انتظامی و تعلیمی ابتری، پانی کی کمی سے لیکر لوڈشیڈنگ تک ہر مسئلے کی ذمہ داری فوج پر ڈالدی جبکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ میں شہری یونیورسٹی پہ پیپلزپارٹی و متحدہ میں تین دہائیوں سے جنگی سیاست چلتی آرہی ہے، یہ بھی کھلا راز ہے کہ کراچی میں ٹینکر مافیا کو کس نے رواج دیکر عروج بخشا، پولیس کو سیاسی بنانے والے کون لوگ ہیں، ٹھیکے کون اپنے من پسند افراد کو دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ سات دہائیوں تک کبھی کسی بھارتی فوجی کو پاکستانی عوام کا درد نہیں جاگا لیکن اب جب پاکستان میں غیرمرئی طور پر ڈنڈا سروس جاری ہے جس کی تھوڑی تھوڑی جھلکیاں عوام تک بھی پہنچتی رہتی ہیں تو ایسے میں میجر گورو آریا کو پاکستانی عوام کا درد پنپ اٹھا جس پر موصوف کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے بھارتی عوام کی فکر کرنی چاہئے جہاں آج بچوں تک کو یہ نعرے لگانے پڑتے ہیں ”چاچا چاچی سرم کرو کھلے میں ہگنا بند کرو” میجر صاحب پہلے لیٹرینیں تو بنالو پھر دوسری طرف جھانکنا اور رہی بات جنرل عاصم باجوہ کے اثاثوں کی تو یہ عام فہم بات ہے کہ چور ہمیشہ اپنے اثاثے چھپاتا ہے اور جس نے حق حلال و جائز طریقے سے اثاثے بنائے ہوں تو ظاہر کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کریگا، جنرل عاصم باجوہ نے نہ صرف اثاثے ظاہر کیے بلکہ ان کی وضاحت بھی دی کہ ان کے زیر استعمال لینڈکروزر ملٹری رول کے تحت ڈاون پیمنٹ پر لی اور کچھ زرعی زمین ان کی آبائی ہے جبکہ کچھ زرعی زمین اور ایک پلاٹ بطور فوجی ملازم ان کا استحقاق ہے اس کے علاوہ ایک دو پلاٹ انہوں نے دوران ملازمت بہت عرصہ پہلے خریدے جس وجہ سے قیمت خرید کم لکھی ہوئی ہے جیسا کہ دو دہائی قبل یفینس میں پلاٹ دو تین لاکھ روپے کا تھا۔ یہ تو پاکستانی جنرل ہیں جو بلا خوف اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں لیکن کیا بھارتی جرنیلوں میں اتنی اخلاقی جرات ہے جو وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں جن کا وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی موقع ملتا ہے تو ملک و قوم کو رسک پہ چھوڑ کر چائنیز کہاوت ”بحران یا مشکلات میں مواقع بھی ہوتے ہیں” کے مصداق مال بنانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ کفن تک پہ مال بنایا، انڈین آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق کارگل جنگ کے دوران مقتولوں کے کفن دفن کے تابوت میں بڑا گھپلا کیا گیا جس میں BJP اور بھارتی فوجی افسران ملوث تھے جنہیں نریندر مودی کے دور میں کورٹ سے کلین چٹ ملنا شروع ہوئی اور دلچسپ بات یہ کہ کہا گیا کہ کرپشن اسکینڈل میں نامعلوم افراد شامل ہیں، بہتر ہوتا اس کا الزام بھی ISI کے سر تھونپ دیا جاتا۔ روایت کے مطابق حالیہ ہند چین تنازعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوے مودی سرکار اور بھارتی کرپٹ فوجی افسران نے شور مچایا کہ ہمارا دفاع مضبوط نہیں اس کے لیے بھارت کو فوری طور پر رافیل طیارے خریدنے ہونگے ورنہ چین میں بھی چائے پارٹی ہوسکتی ہے اور یوں ڈوبی ہوئی رافیل طیارہ ڈیل کو زندہ کرکے اربوں روپے پر ہاتھ صاف کر بیٹھے۔
اس کے علاوہ ٹاٹرا ٹرک اسکینڈل، جیپ اسکینڈل، میرین ملٹری ہیلی کاپٹر اسکینڈل، آبدوز اسکینڈل چند ایسے بھارتی فوج کے شاہکار اسکینڈل ہیں جن میں بھارتی عوام کی جیبوں کو ہی نہیں کاٹا گیا بلکہ یہ وہ اہم وجہ ہے کہ آج بھی 40 فیصد سے زائد بھارتی غربت کی لکیر سے نیچے جی رہے ہیں اور 70 فیصد سے زائد آبادی سوچالوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پچھواڑے دکھانے پہ مجبور ہے، ایسے میں بھارتی عوام خود ہی لیٹرین بنالے لیکن مجبور ہے ایک تو تعلیم و شعور نہیں دوسرا سیوریج سسٹم نہیں۔ گلوبل فائرپاور اور SIPRI کے مطابق گذشتہ کئی سالوں سے بھارت دفاعی بجٹ کے حساب سے دنیا کے پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود ایمرجنسی میں اسے رافیل خریدنے کی ضرورت پڑی جس پر بھارتی عوام کو ضرور سوال کرنا چاہئے کہ سات دہائیوں سے اتنا بجٹ کہاں خرچ ہوا۔ سابق بھارتی جنرل میڈیا پر یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ بہت سارے فوجی افسران فوجی راشن کو عام مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں اور مجبور سپاہی ذہنی مریض ہوتے جارہے ہیں، بھارتی فوجی افسران نے تو کارگل میں جانیں قربان کرنے والے فوجیوں تک کو نہ بخشا آج بھی سینکڑوں متاثرین حقوق کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں کیونکہ فوجی افسران کو گالف کلب و نائٹ کلبوں کے بزنس سے فرصت ملے تو اس طرف دھیان ہو اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی جنرل انڈین ایڈوائزری بورڈ میں چیئرمین لگ جاتا ہے تو کوئی NDMA کا ہیڈ یا پھر بھارتی اسٹیٹ بینک میں اعلیٰ عہدہ ان کا منتظر رہتا ہے اور اب تو عدالت بھی ان کا حصہ بن گئی ہے جس طرح جسٹس گگوہی نے BJP سرکار اور انڈین ملٹری کی خدمت کی ہے تو اب عدلیہ کو بھی اعلیٰ مراعات حاصل ہیں جس کا بڑا نتیجہ جسٹس گگوہی بطور راجیہ سبھا کا ممبر منتخب ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر