وجود

... loading ...

وجود
وجود

اے مادرِ ملّت کسی دشمن کی ضرورت نہیں تجھ کو

هفته 11 جولائی 2020 اے مادرِ ملّت کسی دشمن کی ضرورت نہیں تجھ کو

مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی پر سوشل میڈیا پر من گھڑت قصے کہانیوں، فرضی و بے بنیاد باتوں کو ذہنی تخریب کاری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور منافقت سے بھرپور جھوٹ بولتی و زہر اگلتی زبانیں و تحریریں حقیقت کو مسخ کرنے میں لگی ہیں، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا کو کسی بھی ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے، آج کے جدید دور میں میڈیا کی رسائی نہ صرف تیز ہوگئی ہے بلکہ اس کے اثرات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اگر حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے والے چوتھے ستون پہ قابض ہوں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت عوام کو گمراہی اور اقوام کو بربادی سے نہیں بچا سکتی، جس طرح کسی بھی فصیل چاہے وہ کتنی ہی لمبی چوڑی یا مضبوط ہو اس کی پختگی کا دارومدار اس کے فنِ تعمیر کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں استعمال ہونے والے خام مال اور اس کی بنیاد کی پختگی پر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی معاشرے یا ریاست کی پختگی کا دارومدار افراد کی پختگی و شعور پر ہوتا ہے۔
ریاست کی تباہی کے لیے فقط اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے عوام کو گمراہ کر دیا جائے یہی وجہ تھی کہ چین نے سب سے پہلے چوتھے ستون کو کالی بھیڑوں سے پاک کیا لیکن افسوس ہمارے ہاں تو معاملہ بہت آگے کا ہے، کائنات کی ساری اقدار پامال کرچکے سرے سے سچ اور دلیل کا رواج ہی ناپید ہوچکا اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے جواباً پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں لیکن اس کی عملی زندگی ناپائیدار ہوتی ہے خواہ کتنا ہی پروپیگنڈہ کرلیا جائے اگر مضبوط دلیل آجائے تو سارے پروپیگنڈے ڈھیر ہوجاتے ہیں جیسا کہ میجر جنرل آصف غفور نے احسن حکمت عملی سے اس محاذ میں کامیابیاں سمیٹیں جسے بھارت ایسا ازلی دشمن بھی تسلیم کرنے پہ مجبور ہوا۔ اسے بدقسمتی کہیں، المیہ یا کچھ اور کہ اس وقت پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ ہمارے اپنے ہی نقصان پہنچارہے ہیں جنہوں نے عبداللہ بن ابئی ٹولے کی یاد تازہ کردی ہے خواہ کوئی بھی موقع ہو یا بات ان کا ہدف یا تو پاک فوج بحیثیت ادارہ ہوتی ہے یا پھر ملکی مفادات کو نقصان پہنچانا اور نظریہ پاکستان سے دشمنی تو آج تک میری سمجھ ہی میں نہیں آ سکیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی مثال لے لیجئے کس طرح بیبنیاد و بھونڈا الزام لگاکر افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے، کہا جارہا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مادر ملت کو غدار قرار دیا جبکہ اس میں ایک فیصد بھی صداقت نہیں۔ ایوب خان کے طرز حکومت سے لاکھ اختلاف صحیح لیکن یہ بات سراسر تہمت ہے کہ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار و بھارتی ایجنٹ کہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان نے ہمیشہ مادر ملّت کے لیے Venerable کا لفظ استعمال کیا،فخر اور وفاق کی علامت قرار دیا، اپنی روداد میں انہوں نے تسلیم کیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل الیکشن لڑنا ان کی غلطی تھی، ایوب خان نے آف دی ریکارڈ میٹنگ میں بھی کبھی محترمہ فاطمہ جناح پر الزام نہیں لگایا جبکہ یہ حقیقت تھی کہ پشتونستان و فری بلوچستان تحریک چلانے والوں نے اور بنگلہ نیشنلسٹ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے محترمہ فاطمہ جناح کے اسٹیج کا سہارا لینے کی کوشش کی جس پر صدر ایوب خان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس بات کو بنیاد بناکر پروپیگنڈہ بریگیڈ نے یہ بات گھڑ لی ہے جس کی آڑ میں مذکورہ ٹولہ پشتونستان، فری بلوچستان اور بنگلہ نیشنلسٹوں کو پاک صاف بنانے کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ وہ تو مادر ملت کے ساتھی تھے۔ اگر یہ پیمانہ کسی کے صاف، وفادار، محب وطن ہونے کا مان لیا جائے تو پھر حضور اقدسؐ کے ساتھیوں میں شامل ہوجانے والے عبداللہ بن ابئی اور حضرت علیؓ کے گروہ میں گھس جانے والے عبداللہ ابن سبا و پیروکاروں کو بھی صاف شفاف مان لیا جائے؟ اس کے علاوہ معروف ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا، ہوسکتا ہے ایسا ہوا ہو لیکن اس پر صدر ایوب کو مورد الزام ٹھہرانے کو اگر عقلی بنیاد پہ پرکھا جائے تو روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل یا وفات سے اور آپ کے جنازے میں ہونے والی بدامنی سے نقصان صرف صدر ایوب کو ہوا اور محترمہ فاطمہ جناح کی رخصتی کا فائدہ تین قوتوں کو ہوا جن میں اولاً پیپلزپارٹی کیونکہ محترمہ کے جیتے جی پیپلزپارٹی یا بھٹو صاحب کو قوم بطور لیڈر کبھی قبول نہ کرتی۔ ثانیاً بنگلہ نیشنلسٹوں کو ہوا جیسا کہ مادر ملت وفاق کی علامت تھیں اور آپ کے جیتے جی بنگالیوں کے دل میں پاکستان سے علیحدگی کے جذبات پیدا نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ثلاثاً مغربی پاکستان میں موجود وڈیروں و قوم پرستوں کو جن کی راہ میں مسلم لیگ رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ پروپیگنڈہ مافیا بغض پاک فوج میں غلاظت بکھیرنے میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ انہوں نے لیاقت علی خان جیسی عظیم شخصیت تک کو نہ بخشا اور محترمہ فاطمہ جناح سے منسوب کرکے من گھڑت قصے لکھے جن میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ‘‘لیاقت علی خان بابائے قوم کی عیادت پر نہیں بلکہ یہ دیکھنے آئے ہیں کہ اور کتنے دن جی سکیں گے’’کیا وطن پرستوں کا ایسی سوچوں پر تُف اور ایسی سوچ کے حاملین پر وائے کہنے کو جی نہیں چاہتا؟ سوال یہ ہے کہ جس آدمی کے اخلاص و وابستگی پر قائد اعظم کو شک تھا اسی کو وزیر اعظم کیوں منتخب کیا؟ اگر یہ سوچا جائے کہ لیاقت علی خان کو دولت کا لالچ تھا تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ انہوں نے اپنی جائیداد کے دعوے واپس کیوں لے لیے کیوں انہوں نے اپنی اربوں کی ملکیت و دولت چھوڑی؟ لیکن نفرین ہے پروپیگنڈہ بریگیڈ پہ ہزاروں لعان جن کے نزدیک قائداعظم، لیاقت علی خان اور مادر ملّت سمیت تمام لوگ ہی ملک دشمن تھے۔ یہاں ملکی سلامتی کے ادارے اور نظریہ پاکستان کے مقابلے میں ہر اس شخص کے لیے ہمدردی ہے جس نے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہو یا ملکی بنیادوں کو کمزور کرنے پہ تُلا ہو۔ چین کو تو اپنے دور میں صرف چوتھے ستون میں موجود کالی بھیڑوں سے پریشانی تھی اس نے مسئلہ حل کر لیا ہمارے ہاں تو کسی کالی پیلی صحافت کے ہوتے ہوے کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر