وجود

... loading ...

وجود
وجود

سردار مینگل کی مراجعیت

هفته 27 جون 2020 سردار مینگل کی مراجعیت

بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین قریبا دوسال قربت رہی ،اس امتزاج پر گہرے شبہات کا اظہار ہو تا رہا ،بلکہ ہنوز نقد و جرح کا سامنا ہے ۔چناں چہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مراجعیت اختیار کر لی اور کمزور و مصلحت کوش حزب اختلاف کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔ حکمران اتحادسے مفارقت کا اعلان پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل نے بدھ17جون 2020ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا کہ مزید تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں ہو گا ۔ حکمران اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں مشاور ت کے بعد کیا گیا ۔ بی این پی نے25جولائی2018ء کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی چار نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف کا حکومت بنانے میں ساتھ دیا تھا۔ بی این پی ساتھ نہ دیتی تو شاید تحریک انصاف کی حکومت تشکیل نہ پاتی یا انہیں حکومت سازی میں مزید مشکلات کا سامنا ہوتا۔ یہ جماعت عام انتخابات میں صوبے کی بڑی قوم پرست جماعت بن کر سامنے آئی۔ بلوچستان اسمبلی کی سات جنرل نشستیں جیتیں۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد اس وقت ان کے صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تعداددس ہے۔ صوبے میں حکومت بنانے کا ماحول نہ بن سکا۔ اس بنا بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور پشتونخو ا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھ گئیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مرکز میں تحریک انصاف کی مشروط حمایت کر رکھی تھی۔ یعنی اپنے چھ نکا ت کے ساتھ اتحاد کا حصہ بنی۔
یہ نکات اس طرح ہیں۔1۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ پختہ عزم کے ساتھ حل کیا جا ئے گا اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کا تدارک کیا جائیگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائیگا۔2۔بلوچستان کے جغرافیائی شناخت کا تحفظ کیا جا ئے گا۔اس سلسلے میں تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ 3۔وسائل کی تقسیم شفاف اور منصفانہ انداز میں کی جائے گی۔ معدنی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے مقامی سطح پر ریفائنریز لگائی جائیں گی۔4۔بلوچستان سے نقل مکانی کے خدشات ختم کرنے کے لیے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کی خاطر بڑے ڈیمز بنائے جائیں گے۔5۔وفاق اور فارن سروسز کی ملازمتوں میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹے پر عملدرآمدکیا جائے گا۔6۔تمام افغان مہاجرین کو با عزت طریقے سے وطن واپس بھیجا جائے گا۔گویا یہ نکات وفاق کے ہاں توجہ کے لائق نہ ٹھہرے ۔
بی این پی کے نزدیک لا پتہ افراد یا گمشدگیوں کا نکتہ سردست فوری توجہ کا حامل تھا ۔ اس ضمن میںاختر مینگل نے کہا تھا کہ اگر ان کے چار ووٹوں سے کوئی لاپتہ بلوچ منظر عام پر آتا ہے تو وہ حکومت سازی میںتحریک انصاف کی حمایت کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ تب عمران خان نے واضح بھی کیا تھاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ان کے بس سے باہر ہے۔ جس کے لیے طے ہوا کہ سردار اختر مینگل کی ملاقات افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کرائی جائے گی۔ مگر بظاہر یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان پہلا معاہدہ18اگست2018ء کو ہوا۔ جس کے لیے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور سردار یار محمد رند کوئٹہ آئے اور یہاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بہر حال اس عرصہ بی این پی بارہا معاہدے پر عملدرآمد کی جانب توجہ دلاتی رہی۔ معاہدے کے نام پر بی این پی نے صدر مملکت کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو ووٹ دیا۔ نیز اس شرمناک کھیل کا حصہ بھی بنی جس کی بنیاد پر پارلیمانی سیاسی روایات و اقدار کا جنازہ نکالتے ہوئے میر صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ جس میں وائٹل رول پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا۔ اس گندے کھیل کی شروعات بلوچستان سے ہو ئی۔ جہاں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان کے علاوہ جمعیت علماء اسلام ف ، بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی ،بی این پی عوامی اور مجلس وحدت مسلمین اس کھیل کا حصہ تھیں۔پھر سینیٹ الیکشن میں یکجائی دکھائی ۔سینٹ کے انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے ضمیر فروخت کیے۔ جس کے نتیجے میں کئی آزاد امیدوار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے جن میں صادق سنجرانی بھی شامل تھے۔ چناں چہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی بی این پی ناروا سیاست کا حصہ بنی تھی۔فوج کے سربراہ کی توسیع کا معاملہ گنجلک ہوا تو بھی بی این پی ہمنواء بنی رہی ،اور آرمی ایکٹ منظوری میں اپنی ہاں شامل کرلی ۔سردار اختر مینگل اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی جماعت نے ان مواقعوں یا مشکل وقتوں میں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا۔ بی این پی لاپتہ افراد قضیہ کے باب میں مقتدرہ سے کچھ نا کچھ حاصل بھی باور کراتی ہے ۔یعنی بلوچ عوام کو بتایا گیا کہ وہ (بی این پی) کوشش یا معاہدے کے تحت 418لاپتہ افراد کی بازیابی میں سر خرو ہوئی ہے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ معاہدے کے بعدبھی 500افراد لاپتہ ہوئے۔اور مزید ایک ہزار افراد لاپتہ کرد یے گئے۔ان کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔
اس ذیل میں یہ حقیقت مد نظر رہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق دعوے دار سیاسی جماعتیں اور دیگر فورمز حکومت کو مطلوب لاپتہ افراد کے کوائف فراہم نہیں کرسکی ہیں۔بلکہ ان کے دعوئوں میں مبالغہ کا عنصر شامل رہا ہے ۔ لاپتہ افراد بارے کمیشن بھی بارہا نشاندہی کرچکا ہے کہ کمیشن کو مطلوب معلومات مہیا نہیں کی جاتیں۔ یقینا بلوچستان کے اندر سے لوگ لاپتہ افراد ہورہے ہیں۔ مگر یہ پہلو نگاہ میں رہے کہ صوبے کے اندر چند مسلح تنظیمیں ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد وابستہ ہیں۔ جو براہ راست عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیںجو عسکریت پسندوں کے لیے مختلف نوعیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ چناں چہ یہ حقیقت سردار اختر مینگل پر بھی پوری طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلح عملیات ہوں گی تو لوگ لازم لاپتہ ہوں گے۔بلا شبہ کسی کا ماورائے عدالت غائب کیا جانا خلاف ِ قانون ہے۔ لہذاعسکریت پسندی کو صوبے کی سیاسی جماعتیں کیا حیثیت دیتی ہیں؟ کچھ عرصہ قبل ضلع قلات کے نواح میں ایک جھڑپ میں کالعدم تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی کے دو افراد شہداد بلوچ اور احسان بلوچ مارے گئے۔ تنظیم نے اپنے لوگوں کے مرنے کی تصدیق کرلی ہے،کہا کہ فورسز سے جھڑپ میں ان کے دو کامریڈجاں بحق ہوگئے۔ تربت کا رہائشی شہداد بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا اور یونیورسٹی کے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری کے لیے ایڈ مشن بھی لے رکھا تھا جو مارچ 2015ء میں ایک بار تربت سے لاپتہ بھی ہوچکا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اْن کی بازیابی کے لیے آواز بھی اٹھائی تھی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سردار اختر مینگل آگاہ تھے کہ ان کی حکمران اتحاد سے تعاون کی سیاستاس ذیل میں بھی کارگر ثابت نہیں ہوگی۔ اپنے اس فیصلے و معاہدے سے ان کو رجوع کرنا ہی تھا۔ چناں چہ سوال یہ ہے پرکیوں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا؟۔ یہ اہم سوال ہے اور آئندہ دنوں شاید مترشح ہوں ۔ بی این پی روز ِ اول سے اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ دو کشتیوں کی سواری عوام میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھی جارہی۔خواہ جواز کے لیے کتنے نکات پیش کیے گئے ہوں۔ بہر حال تحریک انصاف انہیں منانے کے ضمن میں اب بھی پراْمید ہے۔ حکمراں اتحاد اس علیحدگی کے بعد بھی چنداں تشویش میں نہ ہے وہ اس لیے کہ متحدہ حزب اختلاف علی الخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر کا سودا کرنے والے ار کین (حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ) موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر