وجود

... loading ...

وجود
وجود

تبدیلی سرکار وینٹی لیٹرپر

جمعه 26 جون 2020 تبدیلی سرکار وینٹی لیٹرپر

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی کابینہ کو ’’کارکردگی‘‘ بہتر بنانے کے لیے چھ ماہ کا’’ الٹی میٹم ‘‘دیا ہے ۔یہاں یہ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے وزراء کو اس طرح کے الٹی میٹم پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں جس کی بنیاد پر محض وزراء کے قلمدان تبدیل ہوتے آئے ہیں جبکہ وزراء ، مشیران اور معاون خصوصی کسی نہ کسی صورت میں کابینہ کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔بہر کیف اس بار الٹی میٹم کے حوالے سے معاملہ کچھ زیادہ سنگین معلوم ہوتا ہے کیونکہ میڈیا نے یہاں تک رپورٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے اگر وزراء نے اگلے چھ مہینوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا تو ’’معاملات‘‘ان کی گرفت سے باہر ہوجائینگے جس سے حکومت کمزور اور اپوزیشن مضبوط ہو جائے گی ۔ دوسری جانب کابینہ کے حالیہ اجلاس کی اندر کی کہانی ہے جس نے تبدیلی سرکار کی سیاسی سنجیدگی اور قومی خدمت کے جذبے کی نہ صرف قلعی کھول کر رکھ دی ہے بلکہ وزیر اعظم عمران خان اور اس کی پارٹی کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ عام انتخابات 2018کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت اب تک عوام کو کسی بھی شعبے میں ریلیف نہیں دے سکی ہے اور جہاں تک اداروں میں کرپشن کے خاتمے کی بات ہے تو تبدیلی سرکار اب تک کوالٹی اور پرائس کنٹرول جیسے شعبوں پر بھی اپنی گرفت قائم نہیں کرسکی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تبدیلی سرکار اس وقت کہاں کھڑی ہے۔ لہذا سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے یا کمی کی باتیںمحض ہوائی ثابت ہوئی ہیں۔دوسری جانب حکومتی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر اپوزیشن کی مجرمانہ چرب زبانی ہے جو حکومت کے خلاف عملی مزاحمت کرنے یا اس سلسلے میں اسکی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے کی بجائے تماشہ دیکھ رہی ہے۔
جہاں تک تبدیلی سرکار کی غیر تسلی بخش کاکردگی بلکہ ناقص گورننس کا معاملہ ہے تو یہ پہلے دن سے ہی واضح ہوچلا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت بغیر کسی ہوم ورک کے محض جنون کی آمیزش کے ساتھ حکومت میں آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کی تشکیل اور قلمدان کی تقسیم کے معاملے میں میرٹ اور مہارت دونوں کو ہی نظر انداز کیا گیا جیسا کہ وزیر خارجہ کے لیے پارٹی میںا سٹریٹیجک اسٹڈیزاور خارجہ امور میں غیر معمولی مہارت کی حامل شخصیت ڈاکٹر شیریں مزاری کے ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص(مخدوم شاہ محمود قریشی) کو وزیر خارجہ بنایا گیا جس کی پوری زندگی کا تجربہ محض خانقاء چلانا رہاہے یہی وجہ ہے کہ آج ملکی خارجہ پالیسی بھارتی خارجہ پالیسی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اورمسئلہ کشمیر سے لیکر سلامتی کو نسل کی مستقل رکنیت کے تک کے معاملے میں ہمیں پسپائی ہوئی ہے۔اسی طرح اسد عمر کو نہ صرف وزیر خزانہ لگایا گیا بلکہ انتخابات سے پہلے اسے معاشی فلسفی کے طور پر بھی پیش کیا گیا لیکن وہ بھی اس شعبے میں ناکامی سے دوچار ہوئے اور اس کی جگہ بھاڑے پر مشیر خزانہ (ڈاکٹر حفیظ شیخ) لے آئے اگر عالمی اداروں کے تنخواہ داروں سے ہی خزانہ امور چلانا مقصود تھا توپھر کابینہ میں شامل وفاقی وزیر محمد میاں سومرو بہتر ین آپشن ہو سکتے تھے ۔قلمدان کی تقسیم کے معاملے میں عجلت کا یہی مظاہرہ وزارت اطلاعات و نشریات ، ریلوے ،موسمیاتی تبدیلی ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ،مواصلات ، تعلیم ،صحت عامہ ،قومی تحفظ خوراک اورصنعت و پیداوار جیسی اہم وزارتوں اور قلمدانوں میں بھی کیا گیا جبکہ ایف بی آر کو ٹھیکے پر دینے کا تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا ۔
بہر کیف وزیر اعظم عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ اور اداروں سے کرپشن کے خاتمے کے دعوے ڈھکوسلے ثابت ہوئے ہیں اور اب یہ ڈھکوسلے ’’ہچکولے ‘‘ لے رہے ہیں کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ابتری کی طرف بڑھ رہی ہے اور رہی سہی کسر کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل نے پوری کردی ہے ۔اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے وزراء کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے چھ ماہ کا الٹی میٹم دیا جانا اس امر کا اعتراف ہے کہ تبدیلی سرکار کو ناقص کارکردگی کا عارضہ لاحق ہے اور اس کے علاج کے لیے جوں جوں دوا کی جارہی ہے یہ عارضہ مذید بگڑتا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ حکومت مصنوئی سانس لے رہی ہے۔ یعنی تبدیلی سرکار وینٹی لیٹر پر ڈالی آچکی ہے لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی تقدیرسنوارنے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو آخری آپشن کے طور پر پیش کرنے والی طاقتور اشرافیہ اس وقت کیا سوچ رہی ہے اور وہ ’’متبادل ‘‘کے طور پر کہاں نظریں جماکر بیٹھی ہیں ۔بہر کیف ایک بار پھرملکی سیاست کو بند گلی کی طرف دھکیلا جارہا ہے بلکہ دھکیل دیا گیا ہے ایسے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ایک بار پھر ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو ’’میثاق جمہوریت‘‘جیسے فارمولے کی طرف لانا چاہئے جس میں سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے قوم پرستوں کو خصوصی طور پر شامل کیا جائے جبکہ ملکی سیاست کو ’’جہانگیر ترین‘‘ جیسے سیاسی ایجنٹوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے کرداروں کو اپنی صفوں میں بٹھانے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہر کیف وزیر اعظم عمران خان کے چھ ماہ کے الٹی میٹم نے ملکی سیاست میں جہاں ہلچل مچادی ہے وہاں یہ خدشات اور امکانات بھی پھوٹ پڑے ہیں کہ تبدیلی سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے لیکن ایسے میں کسی صورت جمہوریت کے مستقبل کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے لہذا جمہوریت کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیںکھلی فضاء میںسانس لیں نہ کہ خود کو گھٹن زدہ ماحول کا اسیر بنا لیں۔بہر کیف ملکی معیشت کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں اس وقت جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا طاقت ور اشرافیہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے فی الوقت کسی اور کاندھے پر بوجھ ڈالنے پر مجبور ہوگی۔ا اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا سیاسی کاندھا کس کا ہوگا لہذا اس وقت تک پی ٹی آئی کی حکومت کو سیاسی وینٹی لیٹر پر سانسیں دی جاتی رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر