وجود

... loading ...

وجود
وجود

صوبے پوچھتے نہیں

بدھ 24 جون 2020 صوبے پوچھتے نہیں

کیا عمران خان کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے؟
درحقیقت پاکستان میں قیادت کی تلاش ایک اہم موضوع ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے بھٹو اور چار دہائیوں سے شریفوں کی قیدی سیاست اپنے نئے رخ ورخسار سنوارنے اور بال وپرتلاشنے کے جتن میں منہ کے بل گرتی جارہی ہے۔ عمران خان کا تجربہ کیسا رہا؟ یہ سوال اب منہ زور ہوتا جارہا ہے۔
سابق امریکی صدر نکسن اپنی کتاب ”لیڈرز“ میں موزوں طور پر ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی بھی عظیم کام عظیم انسانوں کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسانوں کے لیے لفظ”عظیم“ تقاضے بھی عظیم پیدا کردیتا ہے۔ کیونکہ عظیم انسان راہِ عظمت پر چلتے ہوئے خواہشیں نہیں پالتے۔ اُن کے پاس صرف ارادے یا منصوبے ہوتے ہیں۔ نکسن کہتا ہے: خواہش کرنا مفعولی عمل ہے، جبکہ ارادہ ایک فاعلی عمل۔ پیروکار خواہش کرتے ہیں، لیڈر ارادہ کرتے ہیں“۔ غور کیجیے! خواہشوں کے الفاظ ہوتے ہیں مگر ارادوں اور منصوبوں کو ایک مقدس خاموشی میں ”عمل“ درکارہوتا ہے۔ بس پھر کیا ہے، عظمت ان سے بغلگیر ہوتی ہے۔ ٹہر جائیے! عمران خان کے تازہ بیان کو شاملِ بحث کرلیتے ہیں۔وزیراعظم نے ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ”صوبے پوچھ لیتے تو کبھی ایسا لاک ڈاؤن نہیں ہونے دیتا، بڑی تنقید ہوئی لیکن شکر ہے میری بات مان لی گئی“۔لاک ڈاؤن ہونا چاہئے یا نہیں، یہ یہاں موضوع نہیں۔ وزیراعظم کے یہ الفاظ کہ صوبے پوچھ لیتے، ان کی ناکامی کا ایک کھلا اشتہار ہے۔ یہ خواہشوں کی جبلت کاآئینہ دار ہے۔ منصوبے سے خالی ارادے سے عاری بیان، جس میں ناکامی کی راکھ اڑتی ہے۔ ”شکر ہے میری بات مان لی گئی“، یہ الفاظ بھی لیڈر کے نہیں، پیروکار اور ماتحت کے ہیں۔
کسی بھی رہنما کے لیے سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ اُسے کب کیا بولنا ہے۔ لیڈر کے لیے بولنا بھی ایک”کام“ کی طرح ہوتا ہے۔ ایک اقدام کے لیے جس طرح درجہ بہ درجہ عمل چاہئے ٹھیک اسی طرح بولنے کے لیے الفاظ کی نشست وبرخاست درکار ہوتی ہے۔ بغیر نوک پلک سنوارے الفاظ پلکوں پر نوکیلے حملے کی مانند ہوتے ہیں۔ آٹھ آٹھ آنسو رُلاتے ہیں۔اسی لیے ہر لیڈر کو بولنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ خاموشی بھی بولنے کی طرح ہی ایک”کام“ ہے۔اگر لیڈر عمران خان ایسا ہوتو پھر یہ کام زیادہ زبردست ہوجاتا ہے۔اطالوی مدبر ڈی گیسپری نے خاموشی کو بلاوجہ موثر ہتھیار نہیں گردانا تھا۔ برطانوی فلسفی تھامس کارلائل نے کہا تھا:خاموشی میں کئی عظیم چیزیں جنم لیتی ہیں“۔ درحقیقت لیڈر کے لیے خاموشی اور گویائی دونوں کا انتخاب ایک زبردست امتحان ہوتا ہے۔پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ بھیانک ہے۔ یہاں اقتدار کوئی گاتی گنگناتی شاہراہ پر چلتے پھرتے مزے لینے کا نام نہیں۔ یہ ایک کٹھن اور کٹھور کام ہے۔ یہاں پگڑی اُچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں! سیاست دانوں نے اقتدار کے حصو ل اور اس پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے کسی حد یا سرحد کا لحاظ نہیں رکھا۔ یہ نوازشریف تھے، جنہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف انتہائی نازیبا پمفلٹس ہیلی کاپٹر سے گرائے۔ذرائع ابلاغ میں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خلاف انتہائی نازیبا تصاویر شائع کرائیں۔ بھٹوز نے کچھ کم نہیں کیا۔ خود ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان اور اپنے دیگر مخالف سیاست دانوں کے غیر اخلاقی معاملات کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے جنرل رانی کے دربار میں دھکے کھاتے پھرتے۔ اللہ کی شان مجید نظامی سے ”مردِ حر“ کاخطاب پانے والے آصف علی زرداری نے سیاست اور جرائم کے درمیان کوئی سرحد ہی باقی نہیں رہنے دی۔ یہ سیاست کا نہیں جرائم کا ورثہ ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ یہاں لب کشائی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔زبان سے کہے گئے الفاظ تعاقب میں رہتے ہیں۔ یہ گھائل کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی پچیس برسوں کی سیاست میں اپنے مخالفین کے خلاف بھی ہمیشہ الفاظ کو ہتھیار بنایا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ اُن کے خلاف استعمال نہ ہوں۔عمران خان کے خلاف پہلی احتیاط اُن کے مخالفین نہیں، وہ خود کریں گے،جب وہ الفاظ کے موزوں انتخاب کا ایک سلیقہ اپنائیں گے۔”شکر ہے میری بات مان لی گئی“ایسے الفاظ ہیں جو اُنہیں ایک جعلی لیڈر ثابت کرنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔
سیاست کے شعبے میں پہلی کامیابی کیا ہے؟ آپ اپنی ذات کو پہچان لیں۔ ذات کو پہچاننے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی محدودات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اپنی حدود کا شعور انسان کے اندر غیر معمولی بصیرت پیدا کردیتا ہے۔ سیاسی رہنما کے لیے تو یہ راہِ عمل کے تعین کا پہلا اور بنیادی قدم ہے۔ پاکستان میں کسی بھی لیڈر کو محدودات کے شعور کے بعد اپنی لفظی بمباریوں کو ان حدود کے اندر رکھنا چاہئے تاکہ اُس کے ساتھ عوامی توقعات کی تہذیب بھی اُسی سطح پر رہے۔ عمران خان نے اس معاملے میں ذرا بھی احتیاط نہیں برتی۔ اُن کے الفاظ اور دعوے سنیں توایسا لگتا ہے کہ آسمان کی بیکراں وسعتیں بھی اُن کی بانہوں میں سمٹ آتی ہیں۔ مگر عمل کی دنیا میں اُن کی لاچاری کا حال یہ ہے کہ قبر بھی سمندر جیسی لگتی ہے۔ نیا پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، مدینہ کی ریاست اور تبدیلی کے نعروں سے لگتا ہے کہ آسمان بھی اپنا اُفق چھو رہا ہے۔ مگر جب ہم سنتے ہیں کہ ”صوبے پوچھ لیتے“ تو لگتا ہے کسی گداگر کو دھتکار دیا گیا ہے۔ الفاظ اور عمل میں یہ خلیج دراصل اپنی محدودات کے عدم شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ عمران خان کے ساتھ یہ مسئلہ اول روز سے ہے۔ مگر یہ واحد مسئلہ نہیں۔ اگر آپ کی زبان پر”صوبے پوچھ لیتے“ کے الفاظ آرہے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے رہنما کی کوئی ”انا“ ہونی چاہئے؟ اگر اسے اخلاقیات کی بحث نہ سمجھا جائے، اور ”انا“ کے منفی معنی کے بجائے اس لغت کی قید سے آزاد کرکے درست سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو ”انا“ کسی بھی لیڈر کے اندر ایک عادت کی طرح ہوتی ہے۔ گاہے یہ ایک لیڈر کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ مگر یہ انا کسی نصب العین پر غیر مستحکم یقین اور کسی ارادے پر غیر معمولی پختگی کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ انا اور ضد کے درمیان ایک مہین سی لکیر ہے، جو دور سے دکھائی بھی نہیں دیتی۔ عمران خان کی انا میں یہ لکیر ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود کہ اُنہیں صوبے نہیں پوچھتے۔
اقتدار اگر شان بڑھانے کا ذریعہ ہے تو وزیراعظم عمران خان کو مبارک باد دینی چاہئے۔ ایک کامیاب زندگی کے بعد وہ پچیس برسوں تک ہر مقابل کی مسلسل مخالفت کے بعد بآلاخر وزارتِ عظمیٰ کے منصب کو پانے میں کامیاب رہے۔ کیا شان ہے جو وہ پانے میں کامیاب رہے۔ وہ جب چاہیں ایک ہجوم کے سامنے مزے سے مسکراتے ہوئے شخص کے طور پر نمودار ہوسکتے ہیں۔ شاندار کمروں میں آرائشی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے تفاخر کے تیور دکھا سکتے ہیں۔اقتدار کی تقریباتی عزت چہرے پر لیے گھوم سکتے ہیں۔ باوردی محافظ، ہمہ وقت ہوائی سواریاں، موسیقی بھرا استقبال، کاروں کے دستے اور جھنڈے یہ سب عمران خان کو میسر ہیں۔ وہ خوش رہ سکتے ہیں۔ مگر قیادت کے لیے یہ سب مزے کی باتیں نہیں ہوتیں۔ ایک کامیاب رہنما کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ کیا نتائج پیدا کررہا ہے؟ پھر اُس کے مقاصد ان نتائج سے ہم آہنگ ہیں۔ یاد رکھیں! وزارتِ عظمی ایک منصب ہے، جسے جیسے تیسے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، مگر مدبر کی کوئی کرسی نہیں ہوتی جس پر قبضہ جمایا جا سکے۔ وزارتِ عظمیٰ تو سلیکٹرز بھی دے سکتے ہیں، مگر مدبر کا مقام تاریخ دیتی ہے۔ مدبر کا مقام کامیاب سیاست دان کے بعد آتا ہے۔ ایک ناکام سیاست دان کبھی مدبر کے مقام کو نہیں چھو سکتا۔ جبکہ کامیاب سیاست دان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑنے کا اہل ہو، اپنے مقاصد سے ہم آہنگ نتائج پیدا کرسکے۔ کیا ایسا لگتا ہے کہ جس کی بات مانی جائے تو اُسے شکر ادا کرنا پڑے، اور جسے صوبے نہ پوچھتے ہو، وہ کبھی کامیاب سیاست دان بن سکتا ہے؟وہ اپنی ناکامی کا اعلان اپنے منہ سے کررہے ہیں، اور اُنہیں معلوم بھی نہیں ہورہا۔ عمران خان کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر