وجود

... loading ...

وجود
وجود

شاندار سیاست کارانہ جبلت

منگل 23 جون 2020 شاندار سیاست کارانہ جبلت

گاہے خیال آتا ہے ، ہم کیسی قوم بن گئے؟ہمارا کوئی منظر ہے نہ تہہ منظر!!ہم چاہتے کیا ہیں ، کچھ معلوم نہیں۔ تعصبات ، مفادات اور ذاتیات، فیصلہ کن عاملین ہیں۔ کوئی نظریہ، کوئی استدلال ، کوئی منطق ہماری رہنمانہیں۔ اور اب یہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس!! فیصلہ کیا آیا، ہم سب بے نقاب ہوگئے۔
فیصلہ آیا تو ملک کے انتہائی قابل وکلاء میںشامل منیر اے ملک کے چہرے پر ایک فاتحانہ وفو ر تھا وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل تھے۔ سپریم کورٹ بار کے مختلف سابق صدور انتہائی پرجوش تھے۔حامد خان، امان اللہ کنرانی اور علی ظفر کو اس فہرست میں شامل کرلیں۔ سپریم کورٹ بار کے موجودہ صدر قلب حسن بھی نہال تھے۔ دوسری طرف کے وکلاء بھی ایک خاموش فتح کی نوید دیتے ہوئے اپنی خوشی چھپائے پھررہے تھے۔ جدہ کے جادوگر شریف الدین پیرزادہ کے’’ منصب ِجلیلہ‘‘ (براہِ کرم جلیلہ کو ’’ذ‘‘ سے نہ پڑھیں) پر نئے فائز ہونے والے بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی نقارہ بجادیا کہ ’’ہار جیت کی بات کریں تو شاید میں مقدمہ جیت گیا ہوں‘‘۔ اُن کے اس موقف کی تائید میں بھی پورے ملک سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ منیر اے ملک کی خوشی اس نکتے کی ترجمان ہے کہ سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے نہ صرف صدارتی ریفرنس کو ہوا میںاڑا دیا ، بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے بھی پرزے پرزے کرکے پورے معاملے کاناس ماردیا ۔ دوسری طرف فروغ نسیم کی جیت کا اعلان اس نکتے کا ڈھنڈورچی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بالواسطہ جڑی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر میں بھجوادیا گیا، جس کی حمایت وہ برسرِ عدالت کرچکے ہیں، کیونکہ یہ عملاً اُن کے اس بنیادی موقف کی تائید ہے کہ سب کا احتساب بلاتفریق ہونا چاہئے۔ فریقین کے متضاد ردِ عمل میں اپنی اپنی ڈفلی بجانے سے واضح ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلہ تفہیم کی سطح پر دشواریاں پیدا کررہا ہے۔ یہ دانستہ ہے یا نادانستہ، اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ جانبین کے لیے اس میں الگ الگ تسلیاں موجود ہیں۔یہ وہی ماجرا ہے ، جو صبح دم سیر کے دوران میں کچھ ڈاکٹرز کو جوس پیتے ہوئے پیش آیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لنگڑاتے ہوئے شخص کو دیکھا تو ایک ڈاکٹر نے رائے دی کہ یہ آتھرائیٹس کا مریض ہے، دوسرے ڈاکٹر کی رائے یہ تھی کہ لنگڑا کر چلنے والے کا دراصل ٹخنہ مڑا ہوا ہے۔ تیسرے نے کہا مجھے لگتا ہے کہ اسے مہروں کا مسئلہ ہے۔ اس دوران میں وہ لنگڑاتا ہواشخص ڈاکٹرز کے قریب پہنچ گیا، اُس نے ان مسیحاؤں سے پوچھا: قریب میں کوئی موچی ہے، میری چپل ٹوٹ گئی ہے۔
ایک سادہ سوال ہے کہ عدالتی فیصلے میں چپل ٹوٹی ہے؟ یا واقعی مریض کو آتھرائیٹس یا مہروں کا مسئلہ ہے؟عدالتیں ابہام اور سقم کو دور کرتیں ، سوالات کے جواب دیتیں اور تنازعات کو فیصل کرتی ہیں۔ ہمارا عدالتی اُفق اس معاملے میں ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ یاد کیجیے! نوازشریف کے حوالے سے پاناما لیکس کے فیصلے پر اسی طرح مٹھائیاں کھائی گئی تھیں، مگر نتائج فیصلے کی تفہیم سے بالکل مختلف نکلے۔ اس عدالتی فیصلے میں بھی ایک اور کہانی سامنے آرہی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے اب یہ کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔ ایف بی آر سے شفاف تحقیقات کی امید نہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ موصوف نے بھی فیصلے کے فوراً بعد سرشاری کے عالم میں مٹھائی کھائی تھی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینے کی بات بھی کچھ حلقوں میں ہضم نہیں ہورہی۔ یہ حکومت کی جانب سے نہیں ، بلکہ خود اپوزیشن کے حلقوں سے ایک آواز ہے۔سیاستدان اور ماہرِ قانون چودھری اعتزاز احسن نے عدالت کے سامنے سوال اُٹھایا ہے کہ محض یہ کہہ دینا کافی نہیںکہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، عدالت عظمیٰ کو یہ وضاحت بھی کرنا ہوگی کہ ’’ریفرنس کیسے بدنیتی پر مبنی ہے‘‘؟ واضح ہے اونٹ کسی جانب کے ہوں، کسی کروٹ چین نہیںلے پارہے۔ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ لنگڑا کر چلنے والے کا مسئلہ کیا ہے؟
درحقیقت یہاں کسی بھی معاملے کا کوئی درست تناظر موجود نہیں۔ایک بے ہنگم اور بے جوڑ زندگی کے ساتھ تاریخ کے چوراہے پر پڑی قوم کشاکشِ طاقت کے کھیل میں اپنے بنیادی تصورات کی بھینٹ دے چکی ہے۔ ہمارے پاس حالیہ تاریخ میں کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں جس کی تعبیر وتشریح متفقہ ہو۔ یہ زندگی سے دستبردار ہونے جیسی ایک ہولناک حقیقت ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہمارا کوئی قومی تناظر نہیں۔ واقعات کی بُنت میں کوئی قابلِ اعتبار معیار نہیں۔ قومی اعمال کو جانچنے میںکوئی سچا اور یکساں پیمانہ نہیں۔بس آدھی ادھوری وابستگیاں ہیں، جس کے ساتھ پورے پورے مفادات پیوستہ ہیں۔ اسی سے ہمارا سچ برآمد ہوتا ہے، اسی سے تاریخ کی تعبیریں ڈھونڈی جاتی ہیں، ادبی تشبیہات تراشی جاتی ہیں۔ طاقت کی حرکیات پر چلنے والے نظم ِ اجتماعی میں یہ منظر نامہ زیادہ بھیانک اور مضرت رساں ہوجاتا ہے۔ اسی لیے یہاں پارلیمانی ، عدالتی اور سیاسی تاریخ سمیت ہر قسم کی تاریخ بس ایک بھرم اور دھوکا ہے۔ واحد حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر چیز ایک مشتبہ منطقے (گرے ایریا) میں کشمکش سے دوچار رہتی ہے۔یہاں طاقت کے مراکز ایک دوسرے کو اپنی ڈھب پر لانے، لے جانے کے لیے زور آزما رہتے ہیں۔ پیشِ منظر پر اُبھرنے والے’’ حقائق ‘‘درحقیقت پسِ منظر میں چلنے والے معاملات کے زیرِ اثر اُدھیڑ بُن سے دوچار رہتے ہیں۔ نوازشریف کا معاملہ اسی نوعیت کا تھا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے باب میں اس نوع کے شکوک خارج از امکان نہیں۔ یہ فیصلہ ایسا ہے کہ اگر ’’صراطِ مستقیم ‘‘ پکڑ لی گئی تو اسے اُنگلی پکڑ کر جنابِ منصف کی مرضی کی حدود میں لے جایا جائے گا۔ اگر جناب ِ منصف نے اپنی ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر چلنے کی کوشش کی تو یہی صراطِ مستقیم اِسی فیصلے کے ذریعے تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک کی جاسکتی ہے۔ فیصلہ دونوں طرح کے امکانات سے آباد ہے۔اس میں گاتی گنگناتی شاہراہیں بھی ہیں اورسکوت افزا سناٹوں ، تیرہ وتار اندھیاروں میں اندیشوں سے گھرے راستے بھی۔ قانونی تشریح اور نکتہ آفرینی کہیں اور سمجھداروں کا مشغلہ ہوتا ہوگا، یہاں بے وقوفوں کا ہے۔
واحد نکتہ یہی نہیں، یہاں فریقین کی حمایت ومخالفت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔جانبین کی زور آزمائی کے نکتے خوب ہیں۔ ایک طرف ہر ایک کے بلاامتیاز احتساب کا واویلا ہے۔ دوسری طرف آئین کی بالادستی کا ڈھنڈورا، اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے پاک عدلیہ کے بروئے کار رہنے کا نظریہ!!! دونوں طرف کے تصورات بہت ہی ارفع ہیں۔ مگر ان تصورات پر کردار کی کسی گواہی کے بجائے وابستگیوں کی چھاپ لگی ہے۔ مختلف زمانوں اور حوالوں میں انہوں نے اپنے ان نظریات کے بجائے اپنی وابستگیاں نبھائی ہیں۔ اگر ان کے کردار کو دیکھیں تو حامی حامی نہیں دکھائی دیں گے اور مخالف مخالف نظر نہیں آئیں گے۔ بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ایک جیسے نظر آئیں گے۔ شاندار سیاست کارانہ جبلت ان کی قیادت کرتی ہے، جو اُنہیں کبھی بکواسی بناتی ہے اور کبھی گونگا بہرا کردیتی ہے۔ تعصبات ، مفادات اور ذاتیات سے اُبھرنے والے اقدامات کو بھلے ہی اچھے بھلے نظریات کے زرق برق اوراق میں لپیٹ دیا جائے، اس کی بدبو کبھی نہ جائے گی۔ ایسی لایعنیت میں معنویت تلاش کرنے کے رسواکن کام پر خود کو کیوں صرف کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر