وجود

... loading ...

وجود
وجود

تھوکوں کا فرقہ

بدھ 10 جون 2020 تھوکوں کا فرقہ

سنتھیارچی ایسی عورتیں خود میں سمائی نہیں دیتیں۔
میلان کنڈیرا کے ناول ”IDENTITY“ کا کردار”شونتال“ ذہن میں اُبھرتا ہے۔لطیف سبھاؤ، شعلوں کی طرح رقص کرتا لبھاؤ اور آنکھوں میں باہمی ساز باز کا سجھاؤ۔پھر زندگی پر پژمردگی کا کوئی لمحہ اُترتا ہے، کوئی احساس دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جیسے کمرے میں کوئی چیز غلط رکھ دی گئی ہو۔ شونتال کے اسی احساس نے اُس کی ایک فقرے سے جنگ کرائی، جب وہ بولتی ہے:مرد اب مڑکے مجھے نہیں دیکھتے“۔ یہ احساس ہر ”شونتال“ کے اندر ایک آپا دھاپی پیدا کرتا ہے۔ یہی آپادھاپی اندر سے باہر شروع ہوتی ہے۔یہ کہانی کبھی نہیں مرتی۔ اس کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ بس یہ تعاقب کرتی رہتی ہے۔
شونتال ہو یا سنتھیارچی!یقین مانیں،ان کا بھی ایک فرقہ ہوتاہے۔
اس فرقے کا ایک عقیدہ ہوتا ہے، مایوسیوں کو شدید کیے بغیر باہمی کشش جاری رکھیں۔ اس میں تخیل کو تسکین کی حد تک گدگدائے رکھنا ہوتا ہے۔ شخصی رازداری کے اہتمام کے ساتھ لعاب ِ دہن کا اختلاط ایک عبادت کی طرح جاری رہتا ہے۔ میلان کنڈیرا ہمیں دکھاتا ہے کہ کس طرح لعاب ایک مخلوق سے عاشق کے منہ کی طرف حرکت کرتا ہے۔ اور پھر یہ مختلف منہوں سے لگ کر ہر ایک کوتھوکوں کے سمندر میں غرق کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
“So that every one of us is immersed in a sea of salivas that blend
and make us into one single community of salivas, one humankind
wet and bound together.”

اس فرقے پر حیا کا دیوتا ایک عذابِ دائم مسلط کیے رکھتا ہے۔ ناستلجیا کا عذاب! آدمی اُسی کی غیر موجودگی محسوس کرتا ہے، جب وہ عین اُس کے سامنے موجود ہوتاہے۔ تب یہ ایک دوسرے پر لات مارنے کاوقت ہوتا ہے۔ اس فرقے کا عقیدہئ شخصی رازداری، اچانک متزلزل ہونے لگتا ہے۔ پھر لعابِ دہن کا اختلاط ایک کہانی کی طرح بن جاتا ہے۔ پھر منہ سے صرف تھوک ہی نہیں نکلتا، بات بھی نکلتی ہے۔ اردو محاورہ ہے:منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی!سنتھیارچی کے لیے تھوک نگلنے اور باتیں اُگلنے کا وقت ہے۔ یاد رکھیں!نم آلود اور باہم دگر تھوکوں کے فرقے کی”زاہدہ“ خواتین کی”احتیاط“ آئندہ ”مہم“ کی حفاظت کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ اگر آئندہ کی مہم محفوظ نہیں تو احتیاط کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔سنتھیارچی پر سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ اتنے عرصے کے بعد وہ یہ انکشافات کیوں کررہی ہے؟ اس سوال پر پھیلی دانش کی روشنی سے آنکھیں چندھیائے جاتی ہے مگر ان چندھیائی آنکھوں سے بھی وہ تاریخ نظر آجاتی ہے جو اس مخلوق کے بروئے کار آنے کا تعین کردیتی ہے۔ تھوکو ں کا فرقہ آئندہ کی مہمات سے انکشافات کے زمانے کا تعین کرتا ہے۔ یوسف رضاگیلانی، رحمن ملک اور مخدوم شہاب الدین کے متعلق ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ اگلی تحریروں میں زیر بحث لائیں گے۔ ابھی سنتھیارچی کے انکشافات کو کیلنڈر کی تاریخ سے نہیں، اپنی تاریخ سے ٹٹولنے کا وقت ہے۔ یہ تھوکوں کے فرقے کو پوری طرح پہچاننے کی ایک کوشش ہے۔
اگر وطنِ عزیز میں تعمیر کی کوئی بنیاد ڈالنی ہے تو”کردار“کے پہرے داری کی طرح بھی ڈالنی ہوگی۔ پاکستانی سیاست کا ایک بہتر نسب نامہ بنانا ہوگا۔ ہمارے حصے میں جاگیرداروں کی جو سیاسی فصل آئی، اس کاخمیر اسی مخلوق سے گندھا ہوا ہے۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان جن 562ریاستوں میں منقسم تھا، اس میں جاگیرداروں کی ذہنی وجذباتی اُفتاد کا اندازا ایک انگریز افسر کے برطانوی حکومت کے نام مراسلے سے لگالیجیے:ریاستی افسروں کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ حکمرانوں کے لیے عورتیں اغوا کرتے ہیں“۔ شورش کاشمیری کی کتاب”اُس بازار میں“ ہماری مجروح تاریخ کی شب گزاریوں کی ورق درورق جو کہانی سناتی ہے، اس کا یہ حصہ شرمناک طور پر متوجہ کرتا ہے کہ ”ایک طوائف نے عندالملاقات بتایاکہ ریاستوں میں گورا رنگ اور سرمئی آنکھیں ہمیشہ راجواڑوں کی ملکیت سمجھی گئی۔مشہور کہاوت ہے کہ:۔
”ریاستوں میں خوب صورت لڑکیاں ترقی حاصل کرنے کے لیے جنی جاتی ہیں“۔
پاکستان کے حصے میں بھی سیاست دانوں کا ایک ایسا انگڑ کھنگڑ آیا جن کا ماضی سیاسی طور پر انگریزوں کی وفاداری اور اور جذباتی طور پر کسبیوں کی ہیراپھیری میں بسر ہوا تھا۔ قلم کے لقندرے، زبان کے لُقے،سیاسی اُٹھائی گیرے اور صحافتی حرافے سب اس حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بدعنوانیو ں کی لن ترانیاں بعد میں اور”تھوکوں کے فرقے“ کی کارگزاریاں پہلے شروع ہوئیں۔ ترتیب بھی یہی ہے۔ جذباتی اُچھال اور کرپشن میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ جب شب وروز جذباتی طور پر اغوا ہوتے ہیں تو دولت کی بھوک بھی ساتھ ہی بڑھتی ہے۔ دل کشی کے کوچے دراصل نیلام گھر بھی ہوتے ہیں۔ کھوکھلی رنگ رلیاں بکاؤ ہوتی ہیں، جو پہلے جیبوں کو تھپتھپاتی ہے۔ سیاست سے رشتہ ہوتو بدعنوانیوں کا در کھولتی ہے۔ سکوں سے ان بن ہو تو پائل کی چھن چھن اور طبلے کی دھن دھن سنائی نہیں دیتی۔ ہماری سیاسی تاریخ کے تمام تر انحرافات میں اس کا ایک پورا سیاق وسباق موجود ہے۔ سنتھیارچی کا معاملہ نیا نہیں۔ اُسی پرانی کتابِ تسلسل کا ایک باب ہے جو ورق در ورق کھلتا ہے۔
یہ سوال دلچسپی کے ساتھ قابل احتساب ہے کہ تھوکوں کے فرقے نے اقتدار کے ایوان میں کب رسائی حاصل کی؟اس سے جڑا ایک دوسرا سوال بھی ہے کہ غیر ملکی خواتین کا عمل دخل کب سے شروع ہوا؟ داغدار قومی سیاست سے اُس بازار کا آنکھ مٹکا تو اول روز سے تھا، مگر قومی سیاست میں یہ آلودگی ابتدا میں ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ ابتدا سے ہی انہونیوں کے دھڑے پر چلنے لگی۔ کون جانتا تھا کہ لیاقت علی خان جس وزیر خزانہ کو اُن کی خرابی ئ صحت پر سبکدوش کرنا چاہتے ہیں، وہ اچانک گورنر جنرل بن جائیں گے۔ لیاقت علی خان کی غیر متوقع شہادت نے جیسے اُن کا مقدر ہی بدل دیا۔ خواجہ ناظم الدین وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز ہوگئے اور ککے زئی ملک، غلام محمد کو گورنر جنرل کا تاج پہنا دیا گیا۔ ان کی اخلاقی قدریں متزلزل تھیں، بلڈ پریشر، لقوہ اور فالج کا مریض گورنر جنرل ایک غیر ملکی نرس پر رالیں ٹپکانے لگا۔ اقتدار کے ایوان میں یہ تماشا خاموشی سے دیکھا گیا۔ آگے حالات کا دریا اسی بہاؤ میں بہنا تھا۔ پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی خاتون کے عمل دخل کا یہ پہلا واقعہ ملتا ہے۔قدرت اللہ شہاب کی کتاب ”شہاب نامہ“ اس کا مدہم مدہم اور نرم نرم تذکرہ کرتی ہے۔ دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی یہ کہانی ظاہرکرتی ہے کہ لقوے اور فالج کے مریض میں ہوس آنکھوں سے حکمرانی کرتی ہوگی، اپاہج سیاست کی طرح اعضاء لاچار رہے ہوں گے۔ تھوکوں کا فرقہ اقتدار کی راہداریوں میں قدم قدم آگے بڑھ رہا تھا۔اسکندر مرزا نے کہنی ماری اور گورنر جنرل غلام محمد کی جگہ اس عہدے پر جابراجے۔ محلاتی سازشوں اور سیاست کو تباہ کرنے کی بنیاد غلام محمد ڈال چکے تھے، اب سیاست میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہونا تھا۔ اسکندر مرزا کے دور میں اقتدار کی راہداریوں میں غیر ملکی عورتوں کا عمل دخل سب سے زیادہ بڑھا۔ اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے اور ناہید مرزا اُن کی دوسری بیگم تھی۔ ناہید مرزا ایرانی کرد تھی، پاکستان میں ایران نے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کا جال خواتین کے ذریعے پھیلایا۔ یہ اس کاآغاز تھا۔ تھوکوں کے فرقے کو فروغ ملنے لگا۔ ناہید مرزا کی قریبی عزیزہ نصرت بھٹو بھی ایرانی کرد تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں وہ کیسے آئی؟ اس کی ایک تاریخ ہے۔ کبھی ارد شیر کاؤس جی اور اکبر بگٹی سنایا کرتے تھے۔اس پوری کہانی سے آگاہ الہی بخش سومرو کم زبان کھولتے ہیں۔ اسٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ”زلفی بھٹو“ میں کچھ اشارے کیے ہیں۔ کالم کا ورق تمام ہوتا ہے، اگلا تذکرہ آگے کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ تھوکوں کے فرقے کے فروغ کی کہانی بس یہاں سے شروع ہوتی ہے۔سنتھیارچی اس فرقے کی پہلی خاتون نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر