وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاک ڈائون کی سیاست اور قومی ایشو۔۔؟

بدھ 03 جون 2020 لاک ڈائون کی سیاست اور قومی ایشو۔۔؟

کورونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کے لیے ’’حکومتی سنجیدگی ‘‘قابل تعریف اقدام ہے لیکن یہ سنجیدگی ’’غیر معمولی خوف ‘‘کی علامت بن جائے تو یہ کورونا وائرس سے زیادہ سنگین صورتحال کا باعث ہو سکتی ہے ۔لاک ڈائون جو کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنایا گیا تھا جبکہ ملک بھر میں اسے ’’ سیاسی ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔عید الفطر کے ابھی تین دن مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے نیم دھمکی آمیز انداز میں ایک بار پھر سخت لاک ڈائون کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ ایک جانب کہا جارہاہے کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ‘‘تو دوسری جانب کورونا وائرس کو ’’عظیم خوف ‘‘کی علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کا بلاشبہ پوری قوم بہادری کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے جس میں حکومتی حصہ محض عارضی احکاماتی ، سطحی معلوماتی اور ظاہری اقدامات تک محیط ہے جہاں تک سخت لاک ڈائون کے دوران بھوک اور افلاس کے مارے لوگوں کی کفالت اور مالی امداد کا تعلق ہے تو اس میں حکومتی کرادر کو کسی طور بھی مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ اسکے مقابلے میں مخیر حضرات اور فلاح و بہبود کی سماجی تنظیموں کا کردار غیر معمولی تعریف کا حامل رہا ہے ۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاک ڈائون کے دوران ضرورت مندوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجو’’د سخت لاک ڈائون‘‘کرنے پر بضد کیوں ہے اور کیونکر وہ کورونا وائرس کے غیر معمولی پھیلائو کی منتظر ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ کورونا وائرس کے پھیلائو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتوں کو اپنی بے چینی کا محور کورونا وائرس کے خلاف ویکسین اور ادویات کی تیاری کے حوالے سے دنیا بھر میں جاری تحقیقاتی عمل کو بنانا چاہئے کہ اس عظیم کار ِخیر میں اپنا حصہ کس طرح سے ڈالا جائے ۔اس ضمن میں ایک جانب عالمی مکالمہ میں قومی قیادت کا کردار صفر ہے تو دوسری جانب سائنسی میدان میں بھی ہم اب تک بیمار ثابت ہوئے ہیں ۔
بہر کیف کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اس کی ویکسین اور ادویات کی تیاری کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کے نتیجے میں اب تک 10ارب ڈالر سے زائد کے فنڈز جمع کیے جاچکے ہیں جبکہ اس فنڈ میں امریکا نے تاحال اپنا حصہ نہیں ڈالا ہے ۔کہا جارہا ہے اس فنڈ سے تیار کی جانے والی ممکنہ ویکسین اور ادویات امیر اور غریب ممالک کو یکساں بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔بہر کیف دنیا کورونا وائرس کے خلاف ویکسین اور ادویات کی تیاری کے حوالے سے ابھی ابتدائی مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن کورونا وائرس کا فوری تدارک نہ ہونے کی صورت میں عالمی اداروں بالخصوص عالمی ادارہ برائے صحت اور عالمی پروگرام برائے خوراک کی حالیہ رپورٹیں دنیا کوسنگین صورتحال سے دوچارکرنے کے اشارے دے رہی ہے جس میں عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کے تناظر میں دنیا کے بیشتر ممالک ممالک بالخصوص غریب ممالک میں ہیضہ اور خسرہ کی وباء پھوٹ سکتی ہے جبکہ عالمی پروگرام برائے خوراک نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حالیہ رپورٹ میںیہ واضح کیا ہے کہ اس وقت دنیا میں 2ارب سے زائد افراد بھوک و مفلسی کا شکار ہیں اور دوسری جانب کورونا وائرس اور لاک دائون کے تناظر میں دنیا کو ممکنہ طور پر’’عظیم قحط سالی ‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یعنی کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے نتیجے میں دنیا بھر میں پیدا ہونے والی معاشی ابتری کا اثر عالمی زرعی پیداوار پر بھی پڑے گا اگر ایسا ہے تو پھر دنیا میں خوراک کے مسائل پیدا ہونے کا سنگین خدشہ موجود ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے عالمی خوف نے دنیا کے مزاج کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اسی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششیں کی جارہی ہیں اس ضمن میں اب تک بعض حقائق اور سنجیدہ مفروضے سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں ہر ایک ملک اپنی حفاظی پالیسیاںمرتب کررہا ہے جس میں سر فہرست غذائی اجناس اور صحت عامہ کی صورتحال ہے جبکہ روزگار کا تحفظ اور عام آدمی کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے اقدامات بھی نمایاں ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا لاک ڈائون سے جان چھڑانے کی تدبیریں کررہی ہے اور ’’کورونا وائرس کے ساتھ جینے‘‘ کی ترغیب عام ہونے لگی ہے ۔
دوسری جانب ہماری حکومتیں ہیں جو اپنی عوام کو اب تک لاک ڈائون کے خوف میں مبتلا رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے جو کہ کورونا وائرس کے خوف سے زیادہ سنگینی رکھتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر ہوکر ملک و قوم کو کورونا وائرس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں پیش آنے والی ممکنہ مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کی رفتار کے ساتھ قدم ملا کر ساتھ چلے اور اپنی پالیسیوں کو عالمی سطح پر ہونے والی اجتماعی کوششوں سے ہم آہنگ کرے جبکہ اس کے بر عکس ملک میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری پر حملے جیسے شوشے چھوڑے گئے اور کورونا وائرس کے معاملے کو ایڈ ہاک ازم کے تحت چلایا جارہاہے ۔اس بحث سے ہٹ کر کہ کورونا وائرس ’’وبائ‘‘ ہے یا نہیں لیکن کورونا وائرس کو ’’عالمی وبائ‘‘ قرار دیا جاچکا ہے لہذا ملکی سطح پر اسے ’’قومی ایشو‘‘ کے طور پر لینے کی ضرورت تھی تاکہ اس کے خلاف قومی پالیسی مرتب کی جاتی جس پر عملدرآمد ہر ایک کے لیے لازم ہوتا ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کورونا وائرس کو غیر معمولی خوف کی علامت بنانے اور لاک ڈائون کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے اس حوالے سے ایک واضح اور منظم قومی پالیسی مرتب کرے تاکہ اس کے ذریعے کورونا وائرس کے خلاف نئے انداز سے لڑائی شروع کی جاسکے۔بصورت دیگر قوم کیا سوچ رہی ہے یہ جاننے کے لیے حکومتوں کو موقع تو کیا وقت بھی میسر نہیں ہوسکے گا ۔جیسا کہ شاعر احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے کہ ’’مری خاموشیوں میں کروٹیں لیتے ہیں ہنگامے ۔۔۔زمانے پر قیامت بن کے ٹوٹے گا سکوں میرا‘‘۔ اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی تشنگی کو زہر بننے کے لیے چھوڑ دیتی ہے یا پھر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حقیقی معنوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر