وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا آٹے اور چینی کے بحران کے اصل ذمہ دار سامنے آگئے

اتوار 24 مئی 2020 کیا آٹے اور چینی کے بحران کے اصل ذمہ دار سامنے آگئے

ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی اپنے ہی دور کے گزشتہ سال پیدا ہونے والے آٹا اور چینی کی قلت کے بحران اور ان کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن کی فرانزک آڈٹ رپورٹ پبلک کردی گئی ہے جس کے مطابق شوگر ملز مالکان کے کارٹل کی جانب سے کیے جانے والے پیداواری گھپلے،ڈبل کھاتے،کم قیمت پر گنّے کی خریداری،بغیر اجازت شوگر کی زائید پیداوار،ٹی ٹی کے ذریعے رقوم کی وصولی،سٹے بازی اور دیگر اقسام کی ہیرا پھیری کے الزامات کو درست پایا گیا ہے ،رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات قائم کرکے لوٹی ہوئی رقوم بازیاب کی جائیں جن کو متاثرہ کسانوں اور عوام میں تقسیم کیا جائے۔تحقیقاتی کمیشن نے چینی کے بحران کاذمہ دار ریگولیٹر اداروں کو قرار دیا ہے جن میں شوگر ایڈوائیزی بورڈ،سیکورٹی ایکسچینج کارپوریشن آف پاکستان،(ایس ای سی پی) مسابقتی کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو،(ایف بی آر) اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان سمیت دیگر وفاقی اور صوبائی اداروں کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کی بنا پر یہ بحران پیدا ہوا اور آٹے و چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ انکوائیری کمیشن نے یہ تحقیقات دسمبر 2018سے اگست2019 کے دوران چینی کی قلت کے مصنوعی بحران کے بارے میں کی اور اس بات کا پتہ چلایا کہ اس عرصہ میں چینی کی قیمتوں میں 33فیصد اضافہ کیونکر ہوا جبکہ اصل میں یہ اضافہ 17روپے فی کلو گرام بنتا تھا۔رپورٹ کے مطابق ہر سال گنے کی کرشنگ کے بعد چینی کی قیمت کا تعین شوگر ملز مالکان کرتے ہیں جو ہر حکومت تسلیم کرلیتی ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017-18میں چینی کی لاگت 51روپے فی کلو بتائی گئی تھی جبکہ کمیشن نے یہ جانچا کہ یہ لاگت 38روپے فی کلو تھی اس طرح چینی کی قیمت 13روپے فی کلو زیادہ مقرر کی گئی تھی۔اسی طرح 2018-19 میں 12 روپے زیادہ وصول کیے گئے جبکہ 2019-20میں اس کی قیمت میں 16روپے فی کلو کا فرق پایا گیا تھا۔وزیر آعظم کے مشیر برائے احتساب کے مطابق چینی کی قیمت میں ایک روپے فی کلو زائید قیمت وصول کرنے سے شوگر ملز مالکان کو 5ارب روپے سے زائید منافع ملتا ہے تو اندازہ لگائیں کہ ہر سال بارہ سے پندرہ روپے فی کلو چینی کی زائید قیمتوں کی وصولیابی کی بنا پر کتنا بھاری منافع شوگر کارٹل ڈکار گیا ہے۔
اب جبکہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے تو ایک بار پھر سیاست کا بازار گرم ہوگیا ہے ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایکدوسرے پر الزام تراشی کے لیے صف آراء ہوچکی ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماوں کی جانب سے شہباز شریف کے بیٹوں اور آصف ذرداری کے اومنی گروپ کو اس لوٹ کھسوٹ کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب سے حزب اختلاف کی جانب سے عمران خان،اسد عمر،صدیق داود،عشمان بزدار،جہانگیر ترین،خسرو بختیار اور مونس الہی کو اس بحران کاذمہ دار بتا یا جارہا ہے۔بظاہر تو یہ ملکی سیاست میں یہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کوئی حکمراں جماعت اپنے ہی دور حکومت میں وسیع پیمانے پرکی جانے والی کسی قسم کی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف شائید ہی کوئی تحقیقاتی کمیشن بناتی ہے ۔کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اگر کسی مسلہ کو دبانا ہو یا ٹھنڈا کرنا مقصود ہو تو تحقیقاتی کمیشن بنادیا جائے پھر کچھ عرصہ کے بعد کسی کو یاد نہیں رہتا ہے کہ رپورٹ کہاں آئی اور کہاں چلی گئی۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ وزیر آعظم عمران خان نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرکے ان کے ہی دور حکومت کے دوران گزشتہ سال پیدا ہونے والے آٹے اور چینی کی قلت کے بحران اور قیمتوں میں اضافہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جس کا ذمہ دار ان کی کابینہ میں شامل افراد اور انکے قریبی ساتھیوں کے نام لیے جارہے تھے۔تحقیقاتی کمیشن ان کی ہی حکومت کے ایک ماتحت ادارہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء کی زیر نگرانی قائم کیا تھا جس کو اکتوبر 2018سے اگست 2019 کے عرصہ کے دوران یعنی آٹھ ماہ کے عرصہ میں پیدا ہونے والے معاملہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنی تھی لیکن کمیشن نے اپنے ٹی آر اوز کو نظر انداز کرتے ہوئے تحقیقات کا دائیرہ پانچ سال کے عرصہ تک پھیلا کر اس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنماوں کو بھی شامل کرلیا اور اور ثابت کردیا کہ سرکاری افسر کتنے ہی اہم اور بڑے عہدہ پر ہی کیوں نہ فائیز ہو ں حکمراں جماعت کے لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی ایک بڑی واردات جس میں عمران خان ہی کی کابینہ کے لوگ ملوث تھے اس میں گزشتہ پانچ سال کا حساب کتاب شامل کرکے شہباز شریف اور آصف ذرداری کا نام ڈال کر اپنے وزیرآعظم کو دل کو ٹھنڈک پہنچائی ہے جو سب سے زیادہ اہمیت اپنے مخالفین کو جیل میں ڈلوانے اور سزائیں دلوانے کو دیتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شوگر مافیا کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اکتوبر 2019میں شوگر کی برآمد کی اجازت نہ دینے اور پھر دو ماہ بعد اس کی برآمدکی اجازت دے کر سبسڈی دینے کی اجازت صوبائی حکومتوں کو دینے کے محرکات کے پیچھے کون لوگ تھے؟اس پر کمیشن کی رپورٹ خاموش ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ عشمان بزدار نے صوبائی کابینہ کی منظوری سے قبل شوگر ملز مالکان کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کس کے اشارہ پر کیا اور صوبائی وزیر خزانہ کی مخالفت کے باوجود سبسڈی کیو ں دی گئی؟ اس کا بھی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں شوگر انڈسٹری میں جن بد عنوانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ٹریڈ اینڈ انڈاسٹری کے ہر شعبہ میں گزشتہ 70برس سے جاری ہیں،کون نہیں جانتاکہ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ہر شعبہ میں بجلی،گیس، پانی،کسٹم و ایکسائیز ڈیوٹی ،انڈر انوائیسنگ اور انکم ٹیکس کی چوری کے بغیر کام نہیں چلتا ہے پھر تمام سرکاری شعبوں میں افسران سے لے کر ایک عام کلرک بھی اوپر کی آمدنی کے بغیر کوئی جائیز کام کرنے کا بھی عادی نہیں ہوتا ہے جو بہر طورکرپشن کو فروغ دینے ہی کو اپنے مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت،پولیس،عدالتوں،کسٹم،ایکسائیز،ایف بی آر،ٹرانسپورٹ، تعمیرات ،آبپاشی، ریلوے،بورڈز آف ریوینیوز اور لاتعداد وفاقی و صوبائی اداروں میں جاری کرپشن اور بدعنوانیوں کا سدباب کرنے کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوئی ہے تاکہ ایک عام آدمی کو ریلیف ملے جس کو اپنے جائیز کام کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ملک میں چند گنے چنے سیاستدانوں کے خلاف جاری احتساب مہم کی بنا پر تمام وفاقی و صوبائی سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کا دھندا بلا خوف و خطر کے بدستور جاری ہے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک سے کرپشن کے خاتمہ کے نام پر اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے پر توجہ دے رہی ہے جس کا واضح ثبوت کمیشن کی رپورٹ خود فراہم کررہی ہے کہ دسمبر 2018اگست 2010 کے دوران ملک میں آٹے اور چینی کی قلت کا بحران پیدا کرنے والی مافیاز موجودہ حکو مت کے ماتحت ریگولیٹری اداروں کے تعاون سے لوٹ مار میں مصروف رہے اور عمران خان کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ ان مافیاز کے سرپرست خود ان کی کابینہ میں اہم عہدوں پر فائیز تھے۔
وزیر آعظم عمران خان کی کابینہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر مزید کاروائی عید الفطر کے بعد شروع کرنے کے اعلانات کے باوجود ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ طاقتور لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں لانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی تھی اورانہوں نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ارکان اسمبلیوں کی آزادانہ خرید و فروخت کی تھی ،کیا وہ اپنے خلاف کی جانے والی کسی کاروائی پر خاموش رہیں گے۔دس سے بارہ اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل ہوجانے پر کیا عمران خان قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت بر قرار رکھ سکیں گے جو اس ملک کی سیاست میں میں کوئی عجب بات نہیں ہے۔قومی اسمبلی میں قائید حزب اختلاف میاں شہباز شریف آٹے اور چینی کی قلت کے بحران کا ذمہ دار براہ راست وزیر آعظم عمران خان،وفاقی وزیر اسد عمر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ عشمان بزدار کو قرار دیتے ہیں جن کے بارے میں رپورٹ نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے اس لیے اس رپورٹ پر جب بھی کاروائی شروع ہوگی متنازعہ ہی رہے گی اور اگر اس رپورٹ پر کسی کاروائی کے لیے نیب اور ایف آئی اے کو کہا گیا تو پھر یہ معاملہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک بھی جاسکتا ہے تاکہ اس بحران کے حقیقی کردار سامنے آسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر