وجود

... loading ...

وجود
وجود

دو کام ایک انجام

منگل 19 مئی 2020 دو کام ایک انجام

تجاوزات کے خلاف آپریشن زوروں پر تھا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس آپریشن کی خود نگرانی کررہے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر پنجاب بھر سے رپورٹیں موصول ہورہی تھیں حکومتی ایوانوں میں داد و تحسین کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ حکمرانوں کی “کمزوری” سے آشنا لوگ اس آپریشن سے خوب “فائدہ ” اٹھارہے تھے دوسری جانب کچی آبادیوں میں موت کے مناظر تھے جن غریبوں کے سر سے چھت چھن گئی تھی ان کی آہیں عرش ہلارہی تھیں۔ گلیوں میں چیختے چلاتے بچے اور بین کرتے خواتین و حضرات جھولیاں اٹھائے بزدار سرکار کو بددعائیں دے رہے تھے۔ کمشنرز۔ ڈی سی صاحبان۔ پولیس لوکل انتظامیہ کی بھاری نفری بلڈوزروں کی مدد سے یوں حملہ آور ہوتی جیسے “ثواب” کمارہی ہو۔ یہ آپریشن پورے زور شور سے جاری تھا ایک دن میں نے ایک اعلیٰ آفیسر سے پوچھا کہ اب تک کتنی مالیت کی سرکاری زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی جاچکی ہے۔ آفیسر بولا صرف ایک سال میں 129 ارب روپے کی زمین واگزار کرائی جاچکی ہے۔ میں نے اگلا سوال داغا کہ اب تک کتنے مگر مچھ گرفتار کیے تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ اربوں روپے کی زمین صرف ان چند لوگوں کے قبضے سے واگزار کرائی تو اس نے کہا چھوڑیں کوئی اور بات کریں۔ آفیسر سے پرانی آشنائی تھی میں نے کہا بات گھماؤ نہ سیدھی طرح جواب دو وہ بولا وعدہ کرو میرا نام نہیں آئے گا میں نے یقین دہانی کرائی تو اس نے بتایا 90 فیصد رقبہ کچی آبادیوں۔ غریبوں سے واگزار کرایا گیا ہے۔ میں نے پوچھا تو پھر وہ چند لوگ جن کو سرکار قبضہ مافیا کہہ کر صبح شام میڈیا میں ڈنگے بجاتی ہے وہ کون ہیں۔ اس آفیسر نے کہا ان میں اکثر سیاسی مخالف اور کچھ آفیسرز کے عتاب کا شکار۔ میری دلچسپی بڑھ گئی میں نے حقیقت جاننے کی تگ و دو شروع کردی معلوم ہوا تبدیلی سرکار پٹواری کلچر کا “شکار” ہوگئی۔ ہوا یوں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حکم کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطحی میٹنگ بلائی جس میں لائحہ عمل ترتیب دیا گیا اس پر ڈی سی اوز کی ڈیوٹی لگائی گئی ڈی سی نے اے سی اس نے آگے یہ ڈیوٹی منتقل کی دیکھتے ہی دیکھتے وہ “پٹواری” جو پی ٹی آئی کی چھیڑ بن چکے تھے یک دم اہمیت اختیار کرگئے۔ اب یہاں سے “گیم” شروع ہوئی پٹواریوں نے مقامی پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے قبضہ مافیا کی بجائے غریب آبادیوں کا رخ کیا۔ انتظامیہ کے سر پر کارکردگی کی تلوار لٹک رہی تھی وہ ہر صورت میں دکھانا تھی بس پھر کیا تجاوزات کے خلاف آپریشن کی “بندوق” پٹواری کو تھما دی گئی پٹواری نے خود کو “گالی” بنانے کا وہ بدلہ لیا کہ سردار عثمان بزدار کو یہ آپریشن روکنا پڑا لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ وہ کام جو پورے زور و شور سے شروع کیا تھا خاموشی سے بند کرنا پڑا۔ تجاوزات آپریشن سے سبق سیکھ لیا گیا ہوتا تو اب اسی طرح کا دوسرا “آپریشن ” شروع نہ کیا جاتا۔
س بار یہ کام گندم کا ہدف حاصل کرنے کے نام پر شروع کیا گیا ہے۔ پنجاب میں 45 لاکھ ٹن گندم کا ہدف مقرر کیا گیا حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوگا اسے کم کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی گئی۔ جب اپنی “اوقات ” سے بڑا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے تو پھر اس کے حصول کی کوئی ڈھنگ کی منصوبہ بندی ہی کرلی جاتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ گندم بحران ایک صوبائی وزیر کو “نگل” چکا ہے پھر بھی غیر سنجیدگی سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بال ایک بار پھر وزیر اعلیٰ سے ہوتے ہوئے فوڈ انسپکٹر اور پٹواری تک آن پہنچی ہے۔ مجھے تو اس کام کا انجام بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن جیسا لگتا ہے۔ پنجاب بھر سے بے شمار شکایات موصول ہورہی ہیں کہ سرکاری عملہ فلاں زمیندار کے گھر میں گھس گیا وہاں سے اتنی بوری گندم برآمد کرلی اس کی حقیقت جاننے کے لیے آپ کو بہاول پور کے نواحی علاقہ گڈن میں لیے چلتے ہیں ریاض گڈن کے گھر اے سی صدر بہاول پور نے چھاپہ مارا اور 5 ہزار بوری گندم قبضے میں لے لی۔ گندم برآمد ہوگئی مگر ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ جس ایریا میں اے سی بہاول پور نے چھاپہ مارا تھا وہ دراصل اس کے زیر کنٹرول بنتا ہی نہ تھا۔ اب اے سی صاحب کو جان کے لالے پڑ گئے اور منت ترلے سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوئے وہاں سے نکلنے کے بعد وہ اپنی حدود میں آئے اور متعدد گھروں پر چھاپے مار کر اپنا ٹارگٹ پورا کیا۔ وہ چھوٹے زمیندار جو بڑے کنبے اور نوکروں چاکروں کے مالک ہیں اس ٹارگٹ کلنگ کا “شکار” ہوئے وہ یہ بات پوچھتے پھرتے ہیں کہ فی گھر 25 من گندم رکھنے کا فارمولا کس بنیاد پر ایجاد کیا گیا۔ پنجاب میں مینجمنٹ کا شدید بحران ہے اللہ جانے فیصلے کہاں اور کون کررہا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں۔ کیا یہ 25 من فی گھرانہ گندم رکھنے کی پالیسی بنانے والوں کو معلوم تھا کہ دیہی علاقوں میں اکثر مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہے۔ ممی ڈیڈی لوگوں کی طرح دیہی لوگ برگر۔ شوارما نہیں بلکہ گندم کی روٹی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کے پاس صرف دونوں فصلوں کے وقت ہی کیش ہوتا ہے باقی پورا سال وہ گندم بیچ کر گزارا کرتے ہیں۔ یہ گندم صرف انسان نہیں اس زمیندار کے جانوروں کی بھی خوراک بنتی ہے یہاں تک کہ آئندہ سیزن کا بیج بھی اسی میں سے ڈالا جاتا ہے۔ کل بزدار سرکار غریبوں کے گھروں پر حملے کرکے ان سے چھت چھین رہی تھی آج بزدار سرکار ان سے روٹی کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ حکومت پنجاب اپنا مقرر کردہ ٹارگٹ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی کم سے کم سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر کوئی سنجیدہ لائحہ عمل ہی ترتیب دے لیں۔ آج آپ زمیندار اور دیہی افراد کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں کل کو شہری عوام کا گلا گھونٹنا پڑے گا۔ آپ سے صرف اتنی سی درخواست ہے کہ آپ نے کل سرکاری رقبہ واگزار کرانے کی جو 129 ارب کی “فلم” چلوائی تھی وہ فلاپ ہوچکی اب نئی فلم چلانے کی بجا? زمینی حقائق پنجاب کے عوام کے سامنے رکھیں اور بتائیں کہ آپ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے آٹے کا ایک اور بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر