وجود

... loading ...

وجود
وجود

سخاوت اور کسے کہتے ہیں

هفته 16 مئی 2020 سخاوت اور کسے کہتے ہیں

شاہی مسجد لاہور کے احاطے میں علامہ اقبالؒکے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پر آ بیٹھتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی طواف کے انداز میں زاروقطار روتے ہوئے چکر کاٹنے لگتا۔ لوگ عاشقِ اقبالؒ اور محمد رمضان عطائی کے نام سے پکارتے تھے۔ رمضان عطائی ڈیرہ غازی خان میں اللہ داد خان ترین کے ہاں پیدا ہوئے۔ رمضان عطائی ہونہار طالبعلم تھے گریجویشن کے بعد بی۔ ٹی کا امتحان پاس کرکے انگلش مضمون پڑھانے کے لیے سرکاری ملازمت اختیار کی۔ صوفی اور فقیر طبیعت کے مالک تھے ملازمت کے دنوں میں ان کے ایک قریبی دوست مولانا محمد ابراہیم ناگی ڈیرہ غازی خان میں ہی سب جج تھے وہ لاہور گئے واپسی پر محفل جمی تو مولانا ناگی نے جیب ایک کاغذ کا پرزہ نکالا جس پر علامہ اقبالؒ کے ہاتھ سے لکھی رباعی تھی۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پزیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
رباعی سنتے ہی رمضان عطائی کی حالت روتے روتے خراب ہوگئی وہ مدہوش ہوکر زمین پر گرپڑے اور سر پر چوٹ آئی۔ رباعی ان کے دل پر یوں نقش ہوگئی کہ وہ سوتے جاگتے پڑھتے رہتے یہاں تک کہ وہ حج پر گئے وہاں بھی اسی کا ورد کرتے رہے۔ حج سے واپسی پر علامہ اقبالؒکے نام خط لکھا اور اپنے دیوان کے بدلے صرف یہی رباعی عطا کرنے کی درخواست کی۔ علامہ اقبالؒ بھی ولی تھے وہ ولی ہی کیا جو سخی نہ ہو انہوں نے کمال فیاضی سے اپنی یہ رباعی انہیں عطا کردی اور “ارمغان حجاز” میں اسی وزن کی دوسری رباعی شامل کی۔ آج بھی ڈیرہ غازی خان کے ایک قدیم قبرستان میں محمد رمضان عطائی کی قبر کے سرہانے نصب لوح مزار پر یہ رباعی کندہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن فرماتے ہیں۔ فلم پیاسا کا گیت ” یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے” ساحر لدھیانوی نے مجید امجد سے لیا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے خط لکھا کہ فلم کے سین کے لیے گیت کی ضرورت تھی فوری طور پر لکھ نہ سکا آپ کا یہ کلام مناسب سمجھ کے آپ کی اجازت کے بغیر فلم کے پروڈیوسر کو دے دیا۔ جواب میں مجید امجد نے کہا وہ نظم اب آپ کی ہوئی اور انہوں نے اپنے مجموعے “شب رفتہ” میں شامل نہ کی۔ ہمارا ادب ایسی بیشمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے ہمارے بزرگ تو سخاوت میں ویسے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ہماری نسل بھی خوش نصیب ہے جسے ایسے ہی سخی لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ لطیف پیامی بھی اسی سخی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنا کلام دوسروں پہ “قربان” کرنے کے فن سے آشنا ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سجاد علی کا گایا ہوا مشہور گیت “سوہنی لگدی نی مینوں سوہنی لگدی” بھی ان گیتوں میں شمار ہوتا ہے جو لطیف پیامی کی سخاوت کی “نذر ” ہوئے۔ ایسے ہی ایک اور سخی کو بھی جانتا ہوں۔ میری خوش نصیبی کہ ان کے ساتھ کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ اردو کی الف ب ان سے سیکھی تو فارسی کی اصلاح لطیف پیامی سے لی دونوں کی سخاوت کا انداز جداگانہ مگر پیمانہ ایک جیسا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اظہر غوری صاحب نے ایک نصیحت کی کہ اگر لکھنا چاہتے ہو تو پڑھتے رہو۔ مرشد کی یہ نصیحت آج بھی ازبر ہے۔ لاہور کے صحافی بہت خوش نصیب ہیں کہ انہیں ہر قدم پر سکھانے والے اساتذہ میسر ہیں۔ اسلم ملک بھی ایسے ہی اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی سخاوت کے چشمے کو خشک نہیں ہونے دیتے کل جو ان کے پاس چل پیاس بجھانے جاتے تھے سیر ہوکر واپس آتے تھے آج وہ اپنے علم کا کنواں سوشل میڈیا پر لے آئے ہیں وہ روزانہ علم کے پیاسوں کو صدا دیتے ہیں آؤ پیاس بجھا لو۔ برصغیر میں علم کی جو شمع علامہ اقبالؒ نے جلائی تھی وہ لطیف پیامی۔ اظہر غوری اور اسلم ملک جیسوں کی صورت میں جگمگا رہی ہے۔ سخاوت صرف دولت بانٹنے کا نام نہیں ہے سخاوت علم کی بھی ہوسکتی ہے جو کام علامہ اقبالؒ نے شروع کیا تھا وہ ہمارے بڑوں نے جاری رکھا مجھے لگتاہے آئندہ نسل شاید ایسے بیش قیمت ہیروں کی قدر نہ کرے۔ ایسے دور میں جب ایسی نادر شخصیات اپنے علم کی شمع سوشل میڈیا پر جلائے بیٹھی ہیں کہ آؤ اپنے حصے کی روشنی لے جاؤ۔ افسوس کہ نئی نسل ان سے استفادہ کرنے کی بجائے ان سے جو رویہ اختیار کرتی ہے وہ دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔ اللہ کی کرم نوازی سے ابھی تک اس ملک میں ایسے قابل اساتذہ موجود ہیں جو کسی طمع کے بغیر علم بانٹتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ علم لینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ بچوں کی جو تربیت ماں کی گود سے ہوتی تھی وہ گود اب “اجڑ” چکی۔ آج کی ماں اپنے بچے کی تربیت کرنے کی بجائے ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہوگئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں۔ ادبی۔ ثقافتی و صحافتی ادارے جو کسی حد تک محفوظ تھے اب ان میں بھی سیکھنے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے اب تو یہ عالم ہے کہ یہاں سکھانے والے اساتذہ اور تربیت کرنے والے بزرگ تو موجود ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے سیکھنے والوں کے پاس وقت ہی نہیں۔ آج بھی اگر کوئی علم کا پیاسا اپنی پیاس بجھانا چاہے تو علامہ اقبالؒ۔ مجید امجد۔ فیض احمد فیض کے “جانشین” موجود ہیں۔ سخاوت اور کسے کہتے ہیں آؤ تو سہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر