وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا کا کنٹرول اور جارج اورویل کی پیش گوئیاں!

اتوار 03 مئی 2020 دنیا کا کنٹرول اور جارج اورویل کی پیش گوئیاں!

دنیا میں کوئی بھی نیا بحران ہمیں ”جارج اورویل“ کی پیش گوئیوں کے قریب کردیتا ہے۔
کورونا وائرس کا بحران ہمیں ایک بار پھر جارج اورویل کی جانب متوجہ کرتا ہے۔جارج اورویل کے ساتھ آج کا دن بِتاتے ہے، وہ ہمیں ایک متوازی دنیا میں لے جاتا ہے جس کی سنگینی حیرت کے ساتھ لطف بھی دیتی ہے۔
ارک آرتھر بلیئر اپنے قلمی نام جارج اورویل کے نام سے معروف ہے۔وہ 1903ء میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوا، جہاں اُس کے والد انڈین سول سروس میں ملازمت کرتے تھے۔ جارج کا خاندان اُس کی پیدائش کے صرف چار سال بعد انگلستان پلٹ گیا۔ اُس کا انتقال 23/ جنوری 1950 کو ہوا۔ اس طرح جارج نے بمشکل سینتالیس برس کی مختصر زندگی پائی۔ مگر یہ دور انتہائی ہنگامہ خیز تھااورجارج اوریل انتہائی بیدار مغز۔ جارج اورویل نے اس عرصہئ حیات میں کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کوتتر بتر ہوتے دیکھا۔ ہندوستان میں اس نظام کی آخری ہچکی سنی۔ دنیا کے اس عظیم ناول نگار نے اپنے پیچھے ایسا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، جو اُس کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اُس کی 1933ء سے 1939 ء کے درمیان چھ برسوں میں یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ مگراُس کے 1945ء میں سامنے آنے والے سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ نے ایک تہلکہ مچادیا۔ پھر اپنی موت سے صرف ایک سال قبل اُس نے 1949ء میں اپنا شہرہ آفاق ناول ”1984“ لکھا۔ یہی ناول موت کے باوجود اُسے مرنے نہیں دیتا۔ جارج اورویل نے ”1984“ میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان اپنے ذہن میں بھی کوئی قابلِ اعتراض سوچ کو سنبھال کر نہ رکھ پائے گا۔ ہر وہ سوچ جو اس حکومت کی منشاء کے خلاف جنم لے گی، پہرے داری میں پکڑے جائی گی اور قابلِ سزا جرم ہوگی۔
جارج اورویل کا”1984“ دراصل ناول کی صنف میں ڈسٹوپیئن (dystopian) کے طور پر زمرہ بند کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ ایک یوٹوپیا یعنی مثالی ریاست کے برعکس ایک بیمار اور جابرانہ حالت پر قائم ریاست یا معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔یہ ایک سپراسٹیٹ ہے جسے اوشیانا کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے ہر شہری کی نگرانی کا ایک وسیع اور محیط تر نظام ہے۔استبدادی حکومت ”بگ برادر“ کے کنٹرول میں ہے۔ اب یہ اصطلاح آج کے امریکا میں ”ڈیپ اسٹیٹ“کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔جارج اورویل جس زمانے میں اس حکومت کی پیش بینی کررہا تھا، وہ آج کی جدید دنیا کے نگرانی کے آلات سے یکسر بے خبر تھا۔ مگر بگ برادر کی حکومت عوام کے دلوں اور ذہنوں تک کے خیالات پر مکمل گرفت کا مستحکم نظام رکھتی ہے۔یہ گھروں اور نجی زندگیوں میں پوری طرح دخیل ہے۔ ناول میں ایک اصطلاح ”Thought Crimes“ استعمال کی گئی ہے۔ اس سے مراد شہری کے ذہن میں اپنے طور پر اُبھرنے والی کوئی بھی سوچ ہے،یہ کوئی جرم نہیں بلکہ بگ برادرز کے نزدیک آپ کے ذہن میں پلنے والا کوئی”مجرمانہ خیال“ ہے۔ وہ خیال جس نے عمل کا روپ تو کبھی نہیں دھارا مگر ابھی الفاظ میں بھی نہیں ڈھل سکا۔ بگ برادر آپ کے تعاقب میں ہے اور آپ کے ذہن میں موجود خیالات کی نگرانی کررہا ہے۔ اُس کی ایک ”Thought Police“ ہے جو ان خیالات پر آپ کو گرفتار کرسکتی ہے۔بگ برادر کی حکومت وسیع تر نگرانی کے نظام میں آپ کی کسی بھی گھریلو حالت کو خطرناک قرار دے کر آپ کو شکنجے میں لے سکتی ہے۔
ہمارے آج کو پوری طرح نگرانی کے نرغے میں لیے جانے کے باوجوداس پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ جارج اورویل جن حالات کی پیش بینی کررہا تھا، وہ ہمارے آج پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ نو گیارہ کے بعد دنیا میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ سب جارج اورویل کے پیش قیاسی ناول کے عین مطابق ہے۔ سابق امریکی صدر بش کے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیشگی حملوں کے نظریے سے لے کر نگرانی کے نئے اور متحرک طریقے دراصل اسی ناول کے سیاق وسباق میں نظر آتے ہیں۔نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر جو دنگل امریکا نے سجایا، اس میں جرمِ سوچ کوئی خیالی تصور نہیں رہا، بلکہ ایک واقعہ بنا دیا گیا۔ ایک مسلمان کو آسٹریلیا میں اگست 2008 ء میں محض ایک کتاب مرتب کرنے پر سزادی گئی۔ سڈنی میں اسی نوع کے بہت سے مقدمات اس واقعے کے بعد بھی چلائے جاتے رہے۔ یورپی ممالک میں مختلف قسم کے ملتے جلتے ٹیررازم ایکٹ متعارف کرائے گئے۔ جو لکھنے پڑھنے، سوچنے سمجھنے کی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کرکے اُنہیں سزا کے دائرے میں لاسکتے ہیں۔ برطانیا میں ایک مسلم خاتون بھی ایسی ہی سزا بھگت چکی ہے، جو جارج اورویل کی اصطلاح میں جرمِ سوچ سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان حماد منثی کو صرف اس لیے سزا سنائی گئی جو ایسے مواد کا مطالعہ کررہا تھا، جسے برطانیا پروپیگنڈے کی زبان میں جہادی لٹریچر قرار دیتا تھا۔ روزنامہ گارجین نے ایسے بہت سے واقعات کامختلف اوقات میں احاطہ کیا جس میں سے ایک یہ بھی تھاکہ ایک طالب علم کو علمی تحقیق کے لیے القاعدہ سے متعلق مختلف معلومات کو ڈاؤن لوڈ کرنے پر گرفتاری اور پھر ملک بدری کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
ناول ”1984“ نے دنیا کی حالیہ سیاست کی تفہیم میں بہت مدد کی ہے۔ بلکہ اسے بہت سی اصطلاحات سے مالامال کیا ہے۔
بگ برادر(Big Brother)، ڈبل ٹھنک (double think)،جرمِ خیال(thought crime)، نیواسپیک (New speak)، روم 101 (Room 101) وغیرہ اسی ناول کی اصطلاحات ہیں، جو آج تک مختلف سیاسی تجزیوں، کالموں اور خبروں میں مثالوں کے طورپر استعمال ہوتی آرہی ہیں۔امریکی ہفت روزہ جریدے نے 1923ء سے 2005ء تک بیاسی برسوں میں لکھے گئے تمام ناولوں میں سے سو بہترین ناولوں کا انتخاب کیا تو جارج اورویل کا یہ ناول اس میں شامل تھا۔ بی بی سی کے 2003ء کے ایک سروے سے یہ پتہ چلا کہ ناول ”1984“ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناولوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔ امریکا میں 2013ء میں خود امریکی عوام کی نگرانی کا اسکینڈل سامنے آیا جس سے پتہ چلا کہ امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) خود امریکی عوام کی جاسوسی میں ملوث ہے، تو اس ناول کے مطالعے میں مزید اضافہ ہوگیا۔
جارج اورویل کا ناول نگرانی کے جس پیش آئندہ نظام کے متعلق باخبر کرتا ہے، وہ درحقیقت سفاکی کی آخری حد ہے۔ بگ برادر کی حکومت میں انسان کے مستقبل اور حال کو ہی نہیں بلکہ ماضی کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ شاید ہی یہ تصور کیا جاسکتا ہوکہ انسان کا بیتا ہوا کل بھی آج کنٹرول میں آ سکتا ہے۔ مگر جارج اورویل کے نزدیک یہ ممکن ہے۔یہ حکومتوں کے کنٹرول کے تصور کی بہیمت کو واضح کرتا ہے۔ جارج اورویل کے یہ الفاظ دیکھیں:
”ماضی جو کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے اور جو حال کو کنٹرول کرتا ہے وہ ماضی کو کنٹرول کرتا ہے“۔
جارج اورویل کے ذہن بالکل واضح ہے کہ ماضی سے مراد تاریخ ہے،اور اسے کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اِ سے مرضی میں ڈھال لیا جائے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: عوام کو برباد کرنے کا سب سے کارآمد طریقہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ مسخ کر دی جائے“۔تاریخ مسخ کرنے کی پوری وضاحت موجود ہے:
”ہر ریکارڈ تباہ کر دیا جائے گا یا اس میں جھوٹ کی آمیزش کردی جائے گی، ہر کتاب کو دوبارہ لکھا جائے گا،ہر
تصویر کو دوبارہ پینٹ کیا جائے گا، ہر مجسمے اور سڑک کا نام تبدیل کر دیا جائے گا، تاریخوں میں ردوبدل کیا جائے گا۔
اس عمل کا روز اعادہ ہو گا، ہر منٹ دہرایا جائے گا۔ ماضی ختم ہو جائے گا بس حال جاری رہے گا جو کبھی ختم نہیں ہو گا
اور حکمران پارٹی جو کچھ بھی کرے گی وہ عین جائز ہو گا“۔
آخر کیوں جارج اورویل آج کے حالات میں ہم سے متعلق رہتا ہے۔ وہ ماضی میں ہمارے مستقبل کو ٹھیک ٹھیک دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت کے باعث ہمارے درمیان آج بھی رہتا ہے۔ مغرب میں کورونا وائرس کے بعد جن اقدامات کو اُٹھانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، وہ جارج اورویل کے ناول سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مغربی دانشور ایک بار پھر اس ناول نگار کو یاد کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم جارج اورویل کے ساتھ کچھ مزید وقت گزاریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر