وجود

... loading ...

وجود
وجود

سائنس بے ایمان نکلی، ڈاکٹرز جھوٹے

بدھ 29 اپریل 2020 سائنس بے ایمان نکلی، ڈاکٹرز جھوٹے

خواجہ میر درد کہاں یاد آئے:

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

کیا واقعی کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا میں پھیلائے گئے خوف کے علاوہ اس کی حقیقت کچھ نہ نکلی، سائنس پر سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ اُن نادانوں کو معاف کیجیے جنہیں ہر معاملے میں اسلام اور علماء پر برسنے کا کوئی موقع چاہئے ہوتا ہے۔ ابھی اُس نشہ آور زبان کی بدبو سے نکلے ”الفاظ“کے تعفن پہ بھی ناک پر رومال رکھیں جس نے سوال اُٹھایا تو کیا،”بات کس کی مانیں، مولوی کی یا ڈاکٹر کی“؟تعصب کا سب سے بڑا بھبھکامشابہتوں اور مطابقتوں کی بقراطی میں اُٹھتا ہے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے معاملے میں مسئلہ مولوی نہیں، سائنس تھا۔ جو بھیس بدل بدل کر الگ الگ حل پیش کررہی تھی۔ سائنسی علوم عالمگیر بحران پر قطعی ثابت نہ ہورہے تھے، ہر طرف شور شرابہ تھا، اس میں مغرب کو قبلہ بنا کر سائنس کے آگے متھا ٹیکنے والوں کا امتحان شروع ہوا تھا، مگر بددیانتی کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ ایک مرتبہ پھر زہر مولویوں پر اُگلا گیا۔ درحقیقت کورونا وائرس کے ضمن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ سائنس کی یہ بات مانیں یا وہ بات مانیں؟ یا پھر سوال یہ اٹھتا تھا کہ اس سائنسدان کی مانیں یا اُس سائنس دان کی مانیں؟ مغرب میں سائنس دان، بڑے بڑے ڈاکٹرز اور محققین کورونا کو وبا ماننے پر تقسیم ہیں۔وہ وائرس کی حقیقت پر بھی متفق نہیں۔وہ کورونا کے متاثرین پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔وہ ہلاک ہونے والوں کی وجہ موت پر کورونا کی مہر کو بھی غلط قرار دے رہے ہیں۔وہ کورونا متاثرین کی شرح اموات کو بھی غلط قرار دے رہے ہیں۔ اُنہیں کورونا کے حوالے سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے حل پر بھی اعتراض ہے۔ یہ مستند سائنس دانوں کے درمیان جھگڑے ہیں، اس میں بیچارا مولوی کہاں سے آگیا!!مگر سوال اُٹھانے والوں نے یہ سوال اُٹھایا: بات کس کی مانیں، مولوی کی یا ڈاکٹر کی“؟
اگر ایک غیر جانب دار ذہن معاملہ فہمی کے لیے سوال اُٹھائے گا تو وہ کیا ہوگا۔پہلا سوال۔ کورونا وائرس کیا ہے؟سائنس اس وائرس کی تخلیق کے سوال پر تقسیم ہے۔ کچھ اِسے فطری پیدائش مانتے ہیں۔ مگر ایسے بہت سے سائنس دان اور وائرلوجسٹ ہیں جو اِسے ”انجینئرڈ“ قرار دیتے ہیں۔ یہ مولوی نہیں، سائنس دان، محققین اور مان دان رکھنے والے ماہرینِ وبائیات ہیں۔ اس تقسیم میں بھی کئی پہلو اہم ہیں۔ وائرس کو فطری قرار دینے والوں کے پاس ایک ایجنڈا ہے جو اسے نافذ کرنے پر مُصر ہیں۔ وائرس حیرت انگیز طور پر اُن کے انسانیت دشمن ایجنڈے کی تکمیل کا راستا ہموار کرتا ہے۔ وائرس کو انجینئرڈ قرار دینے والوں کی بات اس لیے قابل فہم لگتی ہے کہ آخر اتنا سمجھدار وائرس انسانوں کے اس ریوڑ میں کیسے آبھٹکا؟جو دنیا کے امیر ترین لوگوں کے ایجنڈے کو حرف بہ حرف پورا کرنے کی طرف مائل ہوں۔ اس پہلو سے اِسے فطری قرار دینے والے پورے طبقے کے مجموعی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عام اور اوسط درجے کا ذہن بھی یہ بات سننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا واقعی وائرس انجینئرڈ تو نہیں۔ یہ مسئلہ مذہبی ذہن کا نہیں۔ خود سائنس پر اعتقاد رکھنے والوں کا ہے؟ اور اس سائنسی ذہن کی پرورش سے ہی جڑے ترقی اور لبرل تصورات رکھنے والے شخص کا ہے۔ مولوی بیچارا، بیچ میں کہاں سے آگیا؟
کورونا وائرس کے حوالے سے تمام ابتدائی تصورات کو ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان نے بھک سے اڑا دیا ہے۔ ان سے ملیں، یہ فرانسیسی وائرلوجسٹ ہیں۔ ان کا نام پروفیسر لوک مونٹگینیئر (Luc Antoine Montagnier) ہے۔ انہوں نے 2008ء میں فزیالوجی اور میڈیسن میں ایچ آئی وی کے حوالے سے اپنی دریافت پر نوبل انعام حاصل کیا۔ وہ پیرس میں پیسٹیور انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہے، ان دنوں چین میں شنگھائی جیاؤتونگ یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ اُنہوں نے سادہ لفظوں میں یہ انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس”انجینئرڈ“ ہے اور یہ ایک لیبارٹری میں تیار ہوا ہے۔ اس تحقیق کی بنیاد یہ ہے کہ کورونا وائرس کے جینوم (کورومو سوم کا ایک سیٹ جو اولاد میں منتقل ہوا ہو)میں ایچ آئی وی اور ملیریا کے عناصر موجود ہیں۔ یہ مختلف وائرسوں کی کراسنگ اور اس میں تغیر (میوٹیشن) کے سبب ہی ممکن ہے۔ یہاں بات ختم نہیں ہوئی۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان لوک مونٹگینیئر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس حوالے سے تحقیقی مقالے منظرعام پر آنے نہیں دیے جارہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون کررہا ہے؟ اس کا جواب خود بخود سمجھ میں آتا ہے، جب آپ سائنس دان کی اگلی بات سنیں گے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان کے مطابق کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا، جس کے لیے اوبامہ انتظامیہ کے دور میں باقاعدہ رقم ادا کی گئی، مگر ان ثبوتوں پر اخفاء کے پردے ڈالے جارہے ہیں۔ اب دیکھیے یہ کوئی مولوی نہیں کہہ رہا۔ اس دعوے کومدنظر رکھتے ہوئے ذرا ذہن کو ٹٹولیں۔ کوروناو ائرس کے حوالے سے تمام ابتدائی تصورات مرکزی ذرائع ابلاغ سے آئے تھے، اس حوالے سے تمام دعوے مغرب کے سرکاری اداروں نے کیے تھے۔ لہذا اگر یہ غلط ثابت ہوتے ہیں تو بنیادی سوال یہ اُٹھے گا کہ مغربی ریاستوں نے جھوٹ کیوں بولا؟ اسی کا ایک ذیلی سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ چین اس پورے معاملے پر پراسرار خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟ ان بنیادی سوالات کے بجائے ہمار ا دانشور سوال یہ کرتا ہے ”بات کس کی مانیں، مولوی کی یا ڈاکٹر کی“؟نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کے انکشاف کے بعد کیا ہم انہیں یہ کہنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ مولوی نے اس بکھیرے سے کیا لینا دینا، ڈاکٹر کی مانیں، بھئی ڈاکٹر کی مانیں ! کورونا وائرس کے حوالے سے جب قطعی طور پر کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا، تو یہ کون تھے جو ہمیں بتا رہے تھے کہ کورونا وائرس چمگاڈروں اور پینگولین سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ یہ دعوے کسی بھی تحقیق میں درست ثابت کیوں نہیں ہورہے۔ کورونا کے میزبان کے طور پر تمام تصورات دراصل مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلائے گئے تھے۔ پھر یہ تصورات مغربی ملکوں کے سرکاری ڈاکٹرز ہی پھیلا رہے تھے۔ بنیادی سوال تو یہ تھا کہ کیا ڈاکٹرز جھوٹ بول رہے تھے؟ یہ تمام دعوے دراصل بل گیٹس کے بنائے گئے مخصوص ماحول میں اُبھرے۔ اس دوران ہم نے کیا دیکھا؟ مرکزی ذرائع ابلاغ اور”گوگل“صاحب کو ٹٹولنے پر میسر آنے والی تمام معلومات کو چیلنج کرنے والی کوئی بھی سائنسی تحقیق سامنے آتی تو وہ تیزی سے حذف کردی جاتی۔ اگر یہ تحقیقات غلط تھیں تو اسے چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی تھی؟ یوٹیوب مرکزی ذرائع ابلاغ کی معلومات سے ہٹ کر دیگر تحقیقاتی مواد کو ہٹانے پر تُل گیا۔ مارک زکر برگ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ فیس بک پر بنیادی دعووں کے خلاف مواد کو جگہ نہیں دیں گے۔یہ سب کیا تھا؟مذہبی تاریخ کو اڈھیڑ کر اس میںسے آزادیٔ اظہار کی گنجائش کے خلاف واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے اپنے فلسفۂ آزادی کی حقیقت پر ایک نگاہ تو ڈالیں۔ یہ ہے تمہارا لبرل ازم اور انسانی آزادیاں ؟ ؟ ؟

دھن رے دھنئے اپنی دھن
پرائی دھنی کا پاپ نہ پن
تیری روئی میں چار بنولے
سب سے پہلے ان کو چن

کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں جتنے بھی تصورات ہیں، سارے قیاسی اور ظنی نکلے، تمام کے تمام اندازوں اور تخمینوں پر تھے، کورونا وائرس نے ایک سے دوسرے کو متاثر کیا ہو یا نہیں، مگر ان جھوٹے ڈاکٹرز کی پھیلائی ہوئی یاوہ گوئیوں نے ایک دنیا کو ضرور متاثر کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسی اعتقادات خطرے میں ہیں، مگر پاکستان میں وائرس سے زیادہ خطرناک ایک ایسی مخلوق پائی جاتی ہے، جو سائنس کی ناکامیوں، دروغ گوئیوں، غلط وضاحتوں، جھوٹے جائزوں اور نادرست دعووں میں بھی مولویوں کے خلاف بات کرنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ سائنس بے ایمان نکلی ہے اور ڈاکٹر جھوٹے ثابت ہورہے ہیں۔ مگر انگلی مولویوں پر اُٹھ رہی ہے۔ واہ دانشور صاحب، واہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر