وجود

... loading ...

وجود
وجود

کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹہری!

اتوار 19 اپریل 2020 کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹہری!

امریکی مصنف داشین اسٹوکس (DaShanne Stokes) کا فقرہ کتنا حسب حال ہے:
“Facts are threatening to those invested in fraud”.
(دھوکا دہی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے حقائق خطرہ ہوتے ہیں)
لاک ڈاؤن کا دھوکا سندھ حکومت تک محدود نہیں یہ ایک عالمگیر رجحان ہے۔ مگر سندھ حکومت ”بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ کی تصویر کشی کررہی ہے۔ اس کا وہ ایک سیاسی فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔پاکستان میں جاری یہ کھیل کس قماش کا ہے، اسے بعد میں زیر بحث لائیں گے۔ درحقیقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی پاکستان میں بھی جاری ہے۔ کورونا وائرس پر دنیا کا ردِ عمل دھوکا دہی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ جس میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی بے حساب سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ آئیے اس منافع بخش بساط کے مہرے پہچانتے ہیں۔
امریکی ریاست مینیسوٹا کے سینیٹر اسکاٹ جینسن نے ایک نیوز شو میں یہ انکشاف کیا کہ”مینیسوٹامحکمہ صحت کی طرف سے ڈاکٹرز کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ کووڈ۔19 کو موت کی ایک وجہ کے طور پر رپورٹ کیا جائے خواہ مریضوں کے اس حوالے سے کوئی ٹیسٹ نہ بھی ہوئے ہوں“۔واضح رہے کہ سینیٹر جینسن خود بھی ایک فعال ڈاکٹر ہیں، اُنہوں نے مزید کہا: میں نے اپنے پینتیس سالہ کیریئر میں اس سے قبل موت کے سرٹیفکیٹ پُر کرنے کے لیے کبھی ایسی خصوصی ہدایات نہیں لیں“۔مینیسوٹا میں ایک عمومی پالیسی کے تحت نمونیا یا نزلے کے ساتھ بخار کو کووڈ۔19 کے کیس کے طور پر لیا جارہا ہے۔ یہ اس امریکی ریاست کی کوئی الگ تھلگ پالیسی نہیں بلکہ ڈاکٹر اسکاٹ جینسن کے مطابق یہ امریکا کے مرکزی ادارے سی ڈی سی (Centers for Disease Control and Prevention)کے مطابق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پالیسی امریکا کی مختلف ریاستوں میں رائج ہے بلکہ یہی پالیسی اٹلی، جرمنی، برطانیا اور آسٹریا کی حکومتوں نے بھی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں طبی شعبہ اپنے معمول کے اُصولوں پر کام نہیں کررہا۔ یہاں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔
اولاً: موت کا سرٹیفکیٹ ڈاکٹروں کی قیاس آرائیوں یا احتمالات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتا۔ اِسے ٹھوس طبی وجوہات درکار ہوتی ہیں۔ پھر یہ مرنے والے کے لیے زندہ رہ جانے والوں کی آخری ایمانداری ہوتی ہے۔فراڈ پر سرمایہ کاری کرنے والے شقی القلب لوگوں نے موت کو بھی فراڈ کا حصہ بنادیا ہے۔ سندھ میں اس فراڈ کی تہہ داریاں کتنی خطرناک ظاہر ہورہی ہیں، واقعات کے ساتھ انہیں بعد میں موضوع بنائیں گے۔
ثانیاً: دنیا بھر میں قومی اور مقامی حکومتیں کووڈ۔ 19 کے اعدادوشمار کو فروغ دینے کے لیے اپنے معمول کے اُصولوں سے کیوں ہٹ رہی ہیں؟یہ سوال کوروناوائرس کی پھیلی ہوئی سازشوں سے خطرناک طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس سے ہمیں یہ اندازا بھی ہوجاتا ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والے لوگ کس گھٹیا طرز کی سیاست کرنے کو بہیمانہ طور پر ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اسکاٹ جینسن نے کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتوں کی گائیڈ لائن پر صرف ایک لفظ میں تبصرہ کیا: مضحکہ خیز (ridiculous)۔ یہاں تھوڑی دیر رُک کر مختلف حوالوں سے انتہائی مشکوک ڈاکٹر(؟) ظفر مرزا کے اس بیان پر زیرِ لب مسکرا لیجیے کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے رمضان المبارک کی گائیڈ لائن تیار کررہے ہیں۔
سینیٹر ڈاکٹر جینسن صرف یہاں تک رہتے تویہ زیادہ چونکا دینے والی باتیں نہ ہوتیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں کوروناوائرس کے ردِ عمل میں طبی دنیا کے طرزِ عمل کو ایک حقارت سے دیکھا جارہا ہے۔ یہاں کچھ چھچھوڑے گویے انہیں فرنٹ لائن پر لڑنے والے سپاہیوں کی طرح پیش کررہے ہیں۔ان کے حق میں گانے بنارہے ہیں۔ مگر عملاً دنیا کے بڑے بڑے ایماندار ڈاکٹرز اسپتالوں میں کارگزار معا لجین کے کردار پر سوالات اُٹھا رہے ہیں اور اُنہیں کورونا کے حوالے سے پھیلائے گئے خوف کا ذمہ دار قرار دہے رہیں۔ ڈاکٹر جینسن بھی بارِ دگر یہی بات کہہ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فوکس نیوز پر یہ انکشاف کرکے ہلچل مچادی کہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن اس امر کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ مختلف اموات کو کورونا وائرس کے اعدادوشمار کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس حوالے سے جینسن نے ایک سات صفحات پر مبنی دستاویز کا انکشاف کیا جو یہ بتاتی ہے کہ ایک مرنے والے کے لیے کووڈ۔19 کو وجہ موت قرار دیتے ہوئے موت کا سرٹیفکیٹ کیسے پُر کیا جائے، چاہے اُس کی کورونا وائرس سے موت کی تشخیص پہلے نہ بھی ہوئی ہو، اور اس کے مرنے کی وجہ کا تعین کسی لیب ٹیسٹ سے نہ بھی کیا گیا ہو۔ یہ آپ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے مگر ان کے لیے ایک منافع بخش کھیل ہے۔ جب آپ کسی بیماری کو ”وبا“ کہتے ہیں۔ پھر اس پر ایک خوف کی فضا دنیا بھر میں طاری کرلیتے ہیں، دنیا کی معیشت کو اس سے منسلک کردیتے ہیں تو سب کچھ اس کے اردگرد گھومنے لگتا ہے۔ پھر فارما مافیا اور اُن کے منافع سے جڑے ”مسیحا“ کی رالیں کیوں نہیں ٹپکیں گی؟ ابھی انڈس، آغاخان اور ساؤتھ سٹی اسپتالوں کی باتیں چھوڑئیے۔ امریکا میں دیکھیں کیا ہورہا ہے؟امریکا میں کسی اسپتال میں کووڈ۔ 19 یعنی کورونا وائرس کے کسی مریض کو داخل کرتے ہوئے ہی تیرہ ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں، اگر وہی مریض وینٹی لیٹر پر چلا جائے تو پھر یہ رقم تین گنا بڑھ کر 39 ہزار ڈالر ہوجاتی ہے۔ آدمی کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اُٹھتی ہے۔ یہ کس قسم کا کاروبار جاری ہے۔
کیا ہم کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافے کے بنیادی نکتے کو سمجھنے کے قابل ہوگئے؟ ابھی ہم اس کھیل کے پہلے مرحلے میں ہی داخل ہوئے ہیں۔ جو کورونا وائرس کے خوف میں کھیلا جاتا ہے۔ خوف لوگوں پر قابو پانے کا سب سے بُرا مگر آزمودہ طریقہ ہے۔ خوف ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے۔ یہ طریقہ جتنا کراچی میں کام کرتا ہے، اتنا ہی مینیسوٹا، روم، برلن، انگلینڈ اور ویانا میں بھی کارآمد ہے۔ جب کسی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو جائے تو اسے فریب دینا آسان ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا فریب اس کا ”pandemic“ اعلان تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یہ اعلان انتہائی پراسرار حالات میں کیا جس پر متوازی ذرائع ابلاغ کے دھارے نے الزام لگایا کہ ڈبلیو ایچ او مائیکرو سوفٹ کے بانی اور وائرسوں کی تحقیقات میں سب سے زیادہ پیسے لگانے والے بل گیٹس کے زیرِ اثرکام کررہا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ نے اعلانیہ ڈبلیو ایچ او پر عدم اعتماد ظاہر کیا۔ ڈبلیو ایچ او بل گیٹس کی مالیاتی شراکت سے دنیا میں بیشتر منصوبوں پر کام کرتا ہے۔ خوف کے اس کھیل میں اس ادارے نے مرکزی کردار ادا کیاہے۔ کورونا وائرس نے یہ نکتہ سمجھنے کے لیے زیادہ روشن کردیا ہے کہ دراصل ڈبلیو ایچ او فریب کا کتنا بڑا منچ ہے۔ اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں گے، یہاں انگلستان کے سترہویں صدی کے عظیم شاعر جان ڈرائیڈن کو یادداشت میں اجاگر کرتے ہیں:
”میں جب زندگی پر غور کرتا ہوں تو سب کچھ ایک دھوکا لگتاہے۔ امید کے ساتھ بے وقوف بننا فریب کی حمایت ہے“۔
کیا شاعر نے اس مفہوم کو پوری طرح باندھ لیا ہے:
دنیا ہمیں فریب پہ دیتی رہی فریب
ہم دیکھتے رہے نگہ اعتبار سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر