وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاک ڈاؤن کی عمر دراز ہو۔۔۔!

پیر 13 اپریل 2020 لاک ڈاؤن کی عمر دراز ہو۔۔۔!

صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا تھا اور یوں سندھ میں لاک ڈاؤن کو نافذ ہوئے تین ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔گو کہ لاک ڈاؤن کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا غریب اور متوسط طبقے کو کرنا پڑا،بہرحال انتہائی نامساعد خانگی و معاشی حالات کے باوجود بھی سندھ کے عوام نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے فیصلہ پر لبیک کہتے ہوئے اَب تک لاک ڈاؤن کو بھرپور انداز میں کامیابی سے ہمکنا رکرنے میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیاہے۔ لیکن جیسے جیسے لاک ڈاؤن کی مدت طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے ویسے ہی غریب اور متوسط طبقہ کی معاشی و سماجی پریشانیوں میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔شاید اِسی لیے گزشتہ دنوں تاجروں کے ایک نمائندہ وفد نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی سے ایک خصوصی ملاقات میں تجویز پیش کی تھی کہ 14 اپریل کے بعد سندھ میں لاک ڈاؤن میں کچھ نرمیاں فراہم کردی جائیں تاکہ سندھ میں تجارت کارُکا ہوا پہیہ پھر سے رواں دواں ہوسکے اور غریب کے گھر کا بجھا ہوا چولہا بھی روشن ہوکر اُن کے لیے لذت کام و دہن کابندوست کرسکے۔ تاجروں کے ساتھ ملاقات کے بعد بڑی اُمید ہو چلی تھی کہ شاید وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن میں مزید توسیع نہ کریں لیکن اگلے ہی روز اِن ساری اُمیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب نجی اسپتالوں کے مالکان، چیف ایگزیکٹو افسران اور ملک کے سرکردہ ڈاکٹروں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ایک خصوصی ملاقات میں 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن میں لازمی توسیع کی اپیل کردی۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ”سندھ میں لاک ڈاؤن کو ہرگز آسان یا نرم نہ کیا جائے کیونکہ اگر لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لیا گیا تو کورونا وائرس جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائیگا“۔ڈاکٹروں کی جانب سے سندھ حکومت کو تجویز کردہ تازہ ترین نسخہ کے بعد یقینی طور پر کہا جاسکتاہے کہ 14 اپریل کے بعد سندھ بھر میں لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کردی جائے گی۔
ڈاکٹری نسخہ کے مطابق لاک ڈاؤن میں ہونے والی’انتظامی توسیعی“کے بعد بلاشبہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ہدف تو باآسانی حاصل ہو ہی جائے گا لیکن سندھ کی غریب عوام دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے ہدف سے کوسوں میل دُور ہوجائے گی۔ کیونکہ اَب تک سندھ حکومت لاک ڈاؤن کو نافذ العمل بنانے میں تو پوری طرح سے کامیاب دکھائی دیتی ہے مگر لاک ڈاؤن کے مضراثرات سے صوبہ کی غریب عوام کو بچانے میں بُری طرح سے ناکام بھی نظر آ رہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ اپنی جگہ پر درست کہ”اُن کی جماعت سندھ میں کسی کو بھی لاک ڈاؤن کے باعث بھوکے پیٹ سونے نہیں دے گی“۔ لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ اَب لوگ واقعی رات کو اپنے سر کے نیچے سرہانے کی جگہ چپکے سے بھوک رکھ کر سونے لگے ہیں۔ جب کہ سماجی دُوری اختیار کرنے کا لاک ڈاؤن والا فلسفہ بھی راشن کی تقسیم کے دوران سندھ کے ہر شہر میں رسوا ہوتا ہو ا صاف دیکھا جاسکتاہے۔حالانکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں اور دُکانوں پر راشن کے حصول کے لیے ہونے والے عوام کے رَش پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ”قانون نافذ کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن پر من و عن ویسے ہی عمل در آمد کروائیں جیسے انہوں نے ابتدائی دنوں میں کروایا تھا“۔ مگر شاید قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس نازک مرحلے پر وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بات سمجھنانے سے قاصر ہیں کہ جس طرح گزرا ہوا وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتابالکل ویسے ہی سندھ میں سخت ترین لاک ڈاؤن کے مناظر کا پھر سے لوٹ آنا کم وبیش ناممکن ہی ہوگا۔
اِس کی ایک بڑی بنیادی وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب کسی انسان کو بیک وقت دو خوف لاحق ہوجائیں تو اُن میں سے فقط سب سے طاقت ور خوف ہی برقرار رہتا ہے اور دوسرے خوف کو عموماً انسان خود ہی موت کی نیند سُلادیا کرتاہے۔عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے کورونا وائرس کا خوف بہت بڑا ہے لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ایک غریب کے نزدیک بھوک کا خوف کورونا وائرس سے بھی کئی ہزار گنا زیادہ بڑاہوتاہے۔شاید ہی ہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے تین ہفتہ گزرجانے کے بعد زیادہ تر لوگ بھوک کے خوف کو کورونا وائرس کے خوف پر ترجیح دینا شروع ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اَب لاک ڈاؤن کے نفاذ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اگر اربابِ اختیار کی ساری توجہ صرف لاک ڈاؤن کو ہی سخت سے سخت تر بنانے پر ہی مرکوز رہی اور انہوں نے لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے جلدازجلد کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی تو پھر ڈر اِس بات کا بھی ہے کہ وہ غریب لوگ جنہوں نے کورونا وائرس کے خوف کو فی الحال صرف تھپکی دے کر سُلایا ہے کہیں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُسے جان ہی سے نہ مار دیں اگر ایسا ہوا تو لاک ڈاؤن کی اصل روح کو برقرار رکھنا سندھ حکومت کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔
جیسا کہ خو د وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پہلی بار سندھ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”عوام کی مدد کے بغیر سندھ میں لاک ڈاؤن کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا“۔ہمارا خیا ل ہے کہ بالکل ویسے ہی حکومت کی امداد کے بغیر بہت زیادہ دیر تک غریب عوام بھی لاک ڈاؤن پر رضاکارانہ عملد آمد کو یقینی نہیں بناسکتی۔ سندھ کی عوام نے لاک ڈاؤن کے دوران سندھ حکومت کی بھرپور انداز میں مدد کی لیکن لاک ڈاؤن نافذ ہوجانے کے بعد سندھ حکومت نے اپنے صوبہ کی عوام کو ویسے امداد بہم نہیں پہنچائی جیسا کہ پہنچانے کا حق تھا۔ مگر پھر بھی ہم یہ ہی کہیں گے اگر کورونا وائرس کے عفریت سے لڑنے کے لیے سندھ حکومت مناسب سمجھتی ہے تو بھلے ہی لاک ڈاؤن کی عمر دراز کردے۔مگرمزید کتنے دن؟۔سندھ کی عوام کو کم ازکم اتنا تو بتا دیاجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر