وجود

... loading ...

وجود
وجود

اصلاح شدہ نسلِ نو کا پاگل پن

اتوار 05 اپریل 2020 اصلاح شدہ نسلِ نو کا پاگل پن

ویکسین سے انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کا طریقہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں سوچا گیا ہے، مگر انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کا تصور اس سے بھی پرانا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بل گیٹس ویکیسن سے انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے تک پہنچنے سے پہلے ہی انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کے تصور سے وابستہ ہو چکا تھا۔

جرمنی میں مقیم امریکی مصنف ایف ولیم اینگڈھل (F. William Engdahl)نے لکھا ہے کہ بل گیٹس دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے ویکسی نیشن کا ذریعہ استعمال کرنے کی بات کرتا ہے۔ اور یہ بآ لفاظِ دیگر ’’ یوجینکس‘‘ (eugenics) تحریک کی بازگشت ہے۔’’یوجینکس‘‘ جی ہاں یوجینکس‘‘ !!! اصلاح شدہ نسلِ نو کا پاگل پن !!!ٹہر جائیے ! اسے تصور کو ماند یادداشتوں میں اُجاگر کرتے ہیں۔

درحقیقت یہ نسل کشی کی ایک تحریک تھی جس کی جڑیں امریکی تاریخ میں پیوست ہیں۔ اس اصطلاح کو پہلی بار فرانسس گیلٹن(Francis Galton) نے 1800 ء کے اواخر میں استعمال کیا تھا۔ انگریز دانشور گیلٹن نے نفسیات ، موسمیات اور جینیات سمیت بہت سے شعبوں میں کام کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چارلس ڈارون کا نصف کزن بھی تھا۔ ڈارون نے اپنی کتاب’’ اصل انواع‘‘ کے ذریعے انسانی شرف چھین کر اُسے جرثوموں اور جانوروں کی نسل در نسل ارتقائی شکل قرار دیا تھا۔ گیلٹن نے انگلینڈ کے اعلیٰ اور اشرافی طبقے کی ذہانت کو بھی ’’اعلیٰ‘‘ قرار دیتے ہوئے اُن کی خصوصیات کا تجزیہ کیا، اور اسے محنت ، جستجو سے انسانی یافت کے بجائے ’’موروثی‘‘قرار دیا۔ یہ موقف بآ لفاظِ دیگر یہ تھا کہ چونکہ وہ انگلستان کی اشرافی نسل کا ہے تو ذہین بھی ہے۔ اس موقف کے بعد اُس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان خصوصیات کو نسل درنسل منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔

گیلٹن کی 1869 میں شائع ہونے والی کتاب موروثی ذہانت (Hereditary Genius)پڑھ لیجیے!گیلٹن انسانوں کے لیے ایک منتخب نسل کے پروگرام کا زبردست مبلغ تھا۔ اُس کے نزدیک کئی عملی نسلوں کے باہم اختلاط سے مردوں کی ایک اعلیٰ ہنر مند نسل تیار کرنا قابل عمل ہوگا۔ یہ تصور بنیادی طور پر کچھ انسانی نسلوں کے خاتمے سے متعلق تھا۔ جس نے بیسویں صدی میں چارلس ڈیوین پورٹ (Charles Davenport) اور ہیری لافلین (Harry Laughlin) کی سربراہی میں تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اسی عرصے میں امریکی یوجینکس سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی ، یوجینک اُصولوں کی تشہیر کے لیے فلموں اور کتابوں کا سہارا لیا گیا۔ بلیک اسٹارک کے نام سے 1917 ء میں بننے والی ایک فلم دراصل سچی کہانی پر مبنی تھی۔ جس میں ایک سفاک ڈاکٹر کو بہادر کے طور پر دکھا یا گیا جو ایک تولیدی طور پر منتقل ہونے والی کسی بیماری کے شکار ایک شیر خوار بچے کے حوالے سے والدین کو تیار کرتا ہے کہ اُسے باقی دنیا کو بہتر رکھنے کے لیے مرنے دیا جائے۔

امریکا میں یوجینکس تحریک نے انسانوں میں مثبت خصوصیات کی افزائش پر دھیان نہیں دیا، بلکہ اُن کے نزدیک انسانوں میں پائے جانے والی منفی خصوصیات کا خاتمہ اولین ترجیح بن گیا۔ مذکورہ فلم اس تصور کی تعلیم تھی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسانوں میں وہ کون ہیں جو منفی خصوصیات رکھتے ہیں؟ اُن کے نزدیک غریب، ان پڑھ اور اقلیتیں!!ان کے خلاف سب سے پہلے جبری نس بندی کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا۔ اس کا سب سے پہلے آلۂ کار ماہرین ِ معاشیات بنے۔ جنہوں نے انسانی وسائل اور آبادی کے غیر متوازن ہونے کے تصورات گھڑ کر کائنات کا فطری بہاؤ انسانی ہاتھوں سے تھامنے کی کوشش کی۔ انڈیانا پہلی ریاست تھی جس نے 1907 میں نس بندی کا قانون نافذ کردیا۔ پھر1931 میں کیلیفورنیا آگے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی28 دیگر ریاستیں بھی نس بندی کے قانون کو اپنا بیٹھیں۔

معذوروں کی نس بندی سے یہ معاملہ غریبوں کی نس بندی تک جاپہنچا۔ عدالتوں نے ہمیشہ کی طرح اس انسان دشمن عمل کی حمایت کردی۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ا س کے تمام پہلو سیاسی ، نسلی اور انتقامی آگ میں جھلسے ہوئے تھے۔ کیلی فورنیا کا نس بندی کا پروگرام اتنا مضبوط تھا کہ نازیوں نے اس کا مطالعہ کیا۔ یہاں تک کہ ہٹلر نے نہایت فخر کے ساتھ کہا کہ وہ متعدد امریکی ریاستوں میں نافذ قوانین پر عمل کرارہے ہیں۔نازی جرمنی نے اس حوالے سے ایسی ہولناک تاریخ کو جنم دیا کہ یوجینکس تحریک امریکا میں بدنام ہوگئی۔ اور اُنہوں نے تب خاموشی اختیار کرنا شروع کی۔ امریکی تاریخ کا یہ گوشہ بھی اس کی حالیہ تاریخ کے متعدد گوشوں کی طرح انتہائی خوف ناک اور انسان دشمن ہے۔

غریبوں ، اقلیتوں ، بیماروں اوربیکار نسلوں کے بہیمانہ خاتمے کے یوجینکس تحریک کا تصور کبھی ختم نہیں ہوا۔ امریکی مصنف ایف ولیم اینگڈھل کے نزدیگ گلوبل ہیلتھ کے نام پر بیجوں اور فصلوں میں جینیاتی تبدیلیاں اور ویکسی نیشن کے نام پر تیسری دنیا کو نشانا بنانے والے بل گیٹس کے آبادی کو کنٹرول کرنے کے تصورات دراصل یوجینکس تحریک کی ایک نئی شکل ہے جو محض بل گیٹس کی کوششوں تک محدود نہیں۔ یہ دنیا کے مختلف پاگل اپنی اپنی سطح پر الگ الگ اور کسی بڑے کھیل میں مربوط طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ولیم اینگڈھل کی ایک کتاب’’ Seeds of Destruction‘‘ بھی ہے جس میں اس نے مختلف دستاویزات سے ثابت کیا ہے کہ مختلف ادوار میں سیاہ فام اور دیگرناپسندیدہ نسلوں کو ختم کرنے کے لیے کس نوع کے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔ وہ مثال کے طور پر بتاتا ہے کہ 1920 کی دہائی میں مختلف نسلوں کے خاتمے کے اسی تصور پر راک فیلرفاؤنڈیشن نے سب سے زیادہ کام کیا۔ راک فیلر فاونڈیشن نے برلن اور میونخ میں ’’Kaiser-Wilhelm Institutes‘‘کی مالی معاونت کی جو نسل کشی کے تصور کو فروغ دے رہا تھا۔ اس عرصے میں راک فیلر فاونڈیشن نے ہٹلر کے ذریعے جرمنی میں لوگوں کی زبردیسی نس بندی اور خالص نسل کی افزائش کے نازی نظریے کی خوب حمایت اور تعریفیں کیں۔ جان ڈی راک فیلر سوم نے عمر بھر آبادی کو کم کرنے کے تصور کی حمایت کی اور یوجینکس تصورات کی سرگرم حمایت کی۔
یاد رکھیں تیسری دنیا میں خفیہ طور پر انسانی آبادی کو کم کرنے اور نئی پیدائشوں کو روکنے کے لیے ویکسی نیشن کا تصور بھی نیا نہیں۔

یہ بل گیٹس کے ہی بہت اچھے دوست ڈیوڈ راک فیلر اور اُن کی فاونڈیشن عملاً برتتی آرہی ہے۔ جس نے 1972ء کے اوائل میں ایک بڑے منصوبے کے تحت ڈبلیو ایچ او اور دیگر کے ساتھ مل کر ایک نئی ویکسین تیار کی تھی۔اس منصوبے کے تحت ’’ گنی پِگ‘‘کا بڑے پیمانے پر انسانوں پر استعمال کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نکاراگوا ، میکسیکو اور فلپائن میں تشنج کے خلاف ویکسی نیشن کی بڑے پیمانے پر مہمات کی نگرانی کی گئی۔پھرایک رومن کیتھولک تنظیم ’’ Comite Pro Vida de Mexico‘‘کو اس پورے کھیل پر شکوک پیدا ہوئے۔ اور اس نے مختلف نمونوں کی جانچ کرائی تواسے انسانی Chorionic Gonadotrophin ، یا hCG پر مشتمل پایا۔ زنگ آلود کیلوں کے زخموں کے انفیکشن یا مٹی میں پائے جانے والے کچھ بیکٹیریا سے رابطہ کرکے پیدا ہونے والے امراض کی حفاظت کے لئے بنائی گئی ایک ویکسین کا یہ ایک دلچسپ جز تھا۔ تشنج کی بیماری بھی واقعتا، نایاب ہی تھی تو پھر یہ حیرت انگیز ہی تھا، کیونکہ حمل کو برقرار رکھنے کے لئے ایچ سی جی ایک قدرتی ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم ، جب ایک تشنج ٹاکسائڈ کیریئر کے ساتھ مل جائے تو وہ ایچ سی جی کے خلاف اینٹی باڈیز تشکیل دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، جس سے کسی عورت کاحمل برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ اسقاط حمل کی ہی ایک پیچیدہ شکل تھی۔ یہ ویکسین عام طور پر فلپائن، نکارا گوا وغیرہ میں پلائی گئی۔ بعد کے ادوار میں راک فیلر فاونڈیشن کے ساتھ بل گیٹس کی فاونڈیشن نے مشترکہ کام شروع کردیے۔یہاں دو فاونڈیشنز کی تال میل اور بل گیٹس کے اچھے دوست راک فیلر کا استقبال کیجیے۔ بل گیٹس آج جو کچھ کررہا ہے، اس کی بنیادیں اسی کی آرگنائزیشن نے اُسے فراہم کیں۔ جینیاتی جانچ کی جدید ترقی کی تمام کوششوں کے پیچھے یوجینکس کی تحریک اور تصورات ہی راسخ ہیں۔ الفاظ بدل دیے جاتے ہیں۔ مگر وہی کوششیں بھیس بدل بدل کر جاری ہیں۔ پھر ویکسین کیا اور یہ کورونا وائرس کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر