وجود

... loading ...

وجود
وجود

جب اسکائی لیب گری..

هفته 04 اپریل 2020 جب اسکائی لیب گری..

جون 1979 کا ذکر ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا تھا، لوگوں نے گھروں کے دروازے تو کیا ، کھڑکیوں کے پٹ تک بند کردیئے تھے۔گھروں میں دادیاں اور مائیں بچوں کو کمروں میں چھپا رہی تھیں۔والد کا حکم تھا کہ کوئی شخص صحن میں بھی قدم نہیں رکھے گا۔ہر طرف سناٹے کا عالم تھا اور ٹریفک بھی مکمل غائب ہوچکا تھا۔حکومت نے بھی لوگوں کو سختی سے حکم دیا تھا کہ اس روز کوئی شخص گھروں سے نہ نکلے۔ اور اپنی حفاظت کا بہت خیال رکھے۔ کیونکہ ’’ اسکائی لیب ‘‘ گرنے والی ہے۔ اور اس کا ملبہ دنیا کے جن علاقوں میں گر سکتا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اسکائی لیب ایک دیویکل امریکی خلائی اسٹیشن کا نام تھا جو سات سال سے خلا میں زیر گردش تھا۔اس میں اچانک کوئی خرابی پیدا ہوئی اور وہ اسٹیشن امریکی خلائی ادارے ناسا کے کنٹرول سے باہر ہوگیا۔ گو کہ خلائی اسٹیشن اسکائی لیب کے گرنے سے ایٹم بم کی طرح تباہی نہیں ہونی تھی ، تاہم خدشہ یہ تھا کہ اس ٹکڑے سات ہزار آٹھ سو مربع میل کے علاقے میں کہیں بھی برس سکتے ہیں اور تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ ناسا کے ماہرین کے بقول ایشیا، یورپ اور آسٹریلیا اس سے زیادہ خطرے میں تھے۔

اسکائی لیب اپنے مدار سے ہٹتا جارہا تھا۔ناسا کی پوری کوشش تھی کہ اسے کنٹرول کیا جائے، لیکن اس میں تکنیکی خرابی پیدا ہوچکی تھی،جو ناقابل مرمت تھی، ناسا کی کوشش تھی کہ اسکائی لیب جیسے ہی اپنے مدارسے نکل کر، مکمل بے قابو ہوکر زمین کی طرف تیزی سے آنے لگے، تو اسے کسی غیرآباد خطے میں گرا دیا جائے، لیکن ایسا کرنا بھی سو فیصد ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔

میں ان دنوں تیسری جماعت میں تھا اور الفاظ کے ہجے کرکے اخبارات ضرور پڑھتا تھا۔اسکائی لیب کے زمین پر گرنے کے خدشے کی خبر نے مجھ میں ایسا خوف پیدا کیا ، جو بیان سے باہر تھا۔ رہی سہی کسر ، عوام نے پوری کردی۔ مجھے وہ گھر کے باہر کی شام یاد ہے جب میں نے محلے کے تمام لوگوں کو ایک ہی بات کرتے سنا کہ ’ اسکائی لیب گرنے والی ہے ‘۔ کل سب لوگ گھروں میں رہیں۔۔ماہرین کے بقول بھی امکان تھا کہ اگلی صبح سے دوپہر تک اسکائی لیب زمین پر آسکتی ہے۔وہ رات کاٹنا قیامت بن چکی تھی،کیونکہ صبح ہم پر اسکائی لیب گرنا تھی۔(یہ خوف طاری تھا) نیند مشکل سے آئی اور صبح آنکھ کھلی تو جیسے بس یہی لگ رہا تھا کہ اسکائی لیب بس سر پر آنے والی ہے۔
وہ دن شدید خوف کے عالم میں گزرا۔ حادثے کے انتظار میں شام ہوگئی۔ تاہم خیر رہی۔ پھر اطلاع ملی کہ اسکائی لیب کو آسٹریلیا کے بیابان میں کامیابی سے گرا دیا گیا ہے۔ویران اور غیر آباد علاقے میں اسکا ملبہ میلوں پھیلا ہوا ہے۔ یہ خبر سن کر پوری دنیا کی جیسے جان میں جان آئی۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ اب ہماری زندگی نئے سرے سے شروع ہونے جارہی ہے۔

اسکائی لیب کے گرنے کے دنوں میں جو خوف و ہراس پھیلا تھا، وہ بھلائے نہیں بھولتا، آج خاص طور پر وہ خوف اس لیے بھی یاد آیا کہ آج ویسا ہی ایک خوف ہم دنیا میں پھیلا دیکھ رہے ہیں۔ جو ایک روز پر نہیں بلکہ شاید کئی مہینوں پر محیط ہے۔ایسے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خوف سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔گو کہ میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی بہتات کا شدید مخالف ہوں ،تاہم خوف کی اس توجیح پر مجھے اسکائی لیب کے گرنے کا وہ وقت یاد آگیا ، جب خوف تو بہت زیادہ تھا لیکن نیوزچینلز اور سوشل میڈیا نہ تھے۔خوف تو خوف ہے جب ایک بار پھیل جائے تو پھر وہ اپنی حقیقت اور بل بوتے پر آگے بڑھتا جاتا ہے۔

اسکائی لیب والا معاملہ تو 1979 کی بات تھی، مزید پیچھے چلیں تو 1918 میں اسپینش فلو نے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو نشانہ بنایا ہوا تھا۔ تو کیا اس وقت دنیا میں اس بھیانک وبا سے آگاہی اور اس کا خوف نہ پھیلا ہوگا ؟ حالانکہ اس وقت نہ تو ٹی وی ایجاد ہوا تھا اور نہ ہی ریڈیو عام تھا۔ اس وقت اسپینش فلو کی وبا جنگ عظیم سے بھی ذیادہ لوگوں کی جان لے چکی تھی۔ کیا اْس وبا کا خوف موجودہ وقت کی وبا کورونا سے کم ہوگا؟یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے دور کو پچھلے دور سے جدید سمجھتا ہے۔لیکن احساسات تو ہر دور میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔خبریں آج سیکنڈوں میں پہنچتی ہیں، اس وقت وقت گھنٹوں یا دنوں لیتی تھیں۔لیکن انسان کو دہلا کر اسی طرح رکھتی تھیں۔ اسپینش فلو میں بھی لوگ ہول گئے تھے، گھروں کے دروازے بھی بند کرلیے جاتے تھے۔بچوں کو چھپا دیا جاتا تھا،کھانے پینے اور رہن سہن کے طور طریقے بدل گئے تھے۔یہ جنگ عظیم اول کے اواخر کا زمانہ تھا۔

گو کہ اس بیماری کا آغاز اسپین سے نہیں ہوا ، تاہم اس کا نام اسپینش فلو پڑ گیا۔خیال ہے اس کی ابتدا اسپین،فرانس،بیلجیئم یا اس کے آس پاس کے ممالک میں ہوئی۔۔ایشیا اور یورپ اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا۔اس وبا سے جنگ کے خاتمے کی خوشیاں منانے والوں کی خوشیاں ماند پڑچکی تھیں۔وبا اس قدر تیزی سے پھیلی کہ 50 کروڑ لوگوں نے اس بیماری کی تکلیف سہی جس میں سے اندازہ ہے کہ 2 سے 5 کروڑ افراد کی موت ہوگئی۔اسپینش فلو کی وبا بھی ایک سال سے زائد جاری رہی۔سوچیں وہ وقت کیسا ہوگا؟ کیا وہ وقت ہمارے آج کے وقت سے مختلف رہا ہوگا؟خوف تو خوف ہوتا ہے چاہے دور کوئی بھی ہو، زرائع ابلاغ کی نوعیت کچھ بھی ہو۔لیکن خوف کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔چاہے ماضی کی مثالیں ہوں۔یا کورونا سے جاری موجودہ جنگ۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر