وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا وائرس، بل گیٹس کا ’’کچھ نیا ‘‘ تو نہیں؟

جمعرات 02 اپریل 2020 کورونا وائرس، بل گیٹس کا ’’کچھ نیا ‘‘ تو نہیں؟

دنیا کورونا وائر س کے مریضوں کی تعداد اور اس کی ہلاکت خیزی کی گنتی کر رہی ہے، مگر دنیا کے کچھ سفاک لوگ اسے اپنے خاکے کے مطابق دنیا کی نئی تشکیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہی پہلو کورونا کے وبائی تصور کو انسانی خناس کی پیداوار بنانے کے موقف کو تقویت دیتا ہے۔ درحقیقت دنیا کو کورونا سے اتنا زیادہ تباہ نہیں کیا گیا جتنا اس کے خوف سے تباہ کیا جارہا ہے۔ خوف ایک ایجنڈے کو بتدریج آگے بڑھا رہا ہے۔ کورونا کے مریضوں کی تعداد اور اُس کے شکار ہونے والے ملکوں کی تعداد گنتے ہوئے دراصل اس ایجنڈے کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے جو عالمی اسٹیج پر بتدریج اپنی چھب دکھا نے لگا ہے۔

جب امریکی صدر یہ کہتا ہے کہ اگلے کچھ ہفتے زیادہ درد ناک ہوں گے، تو دھیان خود بخود بل گیٹس پہ چلا جاتا ہے،جو دنیا کو یہ باور کرارہا ہے کہ ابھی کورونا وائرس کی تباہ کاریاں زیادہ شدت سے ظاہر ہونے والی ہیں۔ کورونا وائرس کیا کرنے والا ہے؟ یہ سب کچھ ایک ایسے ایجنڈے سے جڑا ہے جو اپنی مختلف جہات و اطراف سے الگ الگ پیش رفت کرکے درحقیقت دنیا کی تشکیلِ نو کے بڑے منصوبے سے پیوست ہوجاتا ہے۔ کورونا وائرس کے ساتھ یہ منصوبہ بھی حرکت میں آچکا ہے۔ آئیے اس کے کچھ خدوخال دیکھتے ہیں۔

دنیا میں کچھ عجیب وغریب لوگ ہیں، جو الگ الگ طریقوں سے اپنے ایجنڈے آگے بڑھاتے ہیں۔ بل گیٹس، مائیکل بلومبرگ اور جارس سوروس ان میں شامل ہیں۔ بل گیٹس سے آغاز کرتے ہیں۔ دنیا کے لیے مسیحائی روپ دھارنے والے اس درندے نے13؍مارچ 2020ء کو مائیکروسوفٹ نامی اپنی کمپنی کے بورڈ سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی۔ بل گیٹس نے اپنی کمپنی سے علیحدگی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ اب عالمی صحت(گلوبل صحت)، ترقی (ڈیولپمنٹ)، ایجوکیشن اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ ذہن میں رہے کہ مائیکروسوفٹ کمپنی کے ساتھ اس نے دنیا میں جو اجارہ داری قائم کی تھی، وہ امریکا سمیت دنیا بھر میں چیلنج ہو گئی تھی۔

وہ ایک طویل عرصے سے مختلف میدانوں میں متحرک تھا۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے مختلف متنازع منصوبوں سمیت، آبادیوں کو گھٹانے اور گلوبل ہیلتھ کے نام پر ویکسین پروگرام سے اُس کی وابستگی کو ایک عرصہ بیت چکا تھا۔ بل گیٹس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ’’بِل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘2000ء میں قائم کی تھی۔ اس وقت اس کے اثاثوں کی کل مالیت 46.8 بلین ڈالر ز سے زائد ہے۔ بل گیٹس خود کو انسان دوست (philanthropist)کہلانا پسند کرتا ہے۔ مگر اس انسان دوست چہرے کے پیچھے ایک عیار ، حریص اور انسانیت دشمن کی ناقابلِ یقین پرچھائیاں حرکت کرتی ہیں، کچھ مثالیں پیش ہیں۔ بل گیٹس اپنے ایجنڈے کا ایک نکتہ ’’ماحولیاتی تبدیلیوں‘‘ کو قرارد یتا ہے۔ مگر اس سے کہیں یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ وہ ایک انسان دوست کے طور پر ماحول دوست موسمیاتی حرکتوں پر توجہ دیتا ہے، ہر گز نہیں۔

بل گیٹس نے 69 ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے جو امریکا اور کینیڈا میں سب سے زیادہ آلودگی بڑھانے کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ یہ ایک انسان اور ماحول دوست کی کارستانیاں ہیں۔ مگر یہاں تک بات محدود ہو تو کوئی بات نہیں۔ ایسا تو دنیا کے معمولی کاروباری لوگ بھی اپنی ناعاقبت اندیشی سے کرتے ہیں۔ درحقیقت بل گیٹس شیطان کے طور پر تب ایک ’’ برانڈ‘‘بنتا ہے جب ہم یہ جانتے ہیںکہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے سے مراد اس کی یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے موسموں پر کیسے کنٹرول قائم کیا جائے؟ وہ اپنی تمام تگ وتاز کو موسمیاتی نظام میں مداخلت کے لیے وقف کرتا ہے۔

دھیان رکھیں کہ یہ عناصر ایک مدت سے سورج کی روشنی پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے ایک منصوبے کا بھی حصہ ہیں جس کے تحت وہ سورج کی روشنی کو کسی غبارے سے ڈھانپنے میں منہمک ہیں ۔ اس میں مہارت پیدا کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ کس ملک میں سورج کی روشنی پہنچانی چاہئے اور کس ملک میں نہیں۔ یہ تو صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ان کے تصورات کی ایک جھلک ہے۔
گلوبل ہیلتھ کے تصور کی طرف آئیے۔ یہ بہت معمولی بات ہوگی کہ ہم بل گیٹس کی ڈاؤ کیمیکل (Dow Chemical) میں موجود سرمایہ کاری کا سراغ لگائیں۔ اور اس کی انسان دوستی کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ پہلو اجاگرکریں کہ یہ کمپنی ایڈز کی انتہائی مہنگی ادویات بنانے والی ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کی حصہ دار ہے، جو اصلاً اس علاج کو غریبوں کی پہنچ سے دور کردیتی ہے۔ اس نوع کا کاروبار تو پاکستان کے ادویہ ساز ادارے اور یہاں کے مقامی سیٹھ بھی کرگزرتے ہیں ۔ درحقیقت بل گیٹس کو ایک شیطان کے طور پر ’’برانڈ‘‘ بنانے والے پہلو اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہیں۔ہمیں بل گیٹس کا اصل سراغ یہیں سے لگانا پڑے گا، کیونکہ بل گیٹس ہمارے آج کے مسئلے کورونا وائرس سے کہاں آکر جڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت 1992ء میں ایک کانفرنس ہوئی جس کا عنوان’’ ایجنڈا 21 ‘‘تھا۔64سالہ بل گیٹس نے اس کانفرنس سے تب خطاب کیا جب اس کی عمر 36برس تھی۔ اس کانفرنس میںدنیا کی آبادی کو انسانی وسائل کے لیے ایک بوجھ سمجھنے کے تصور کی پرورش کی گئی تھی ۔ درحقیقت یہاں بل گیٹس نے جو خطاب کیا، اس سے آبادی اور انسانی وسائل میں ایک جبری تناسب پیدا کرنے کی سازش کی بو آتی تھی۔ بل گیٹس نے بعد کے تمام برسوں میں اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مختلف منصوبوں کی بنیاد رکھی، جسے دنیا بڑے خوش نما سمجھتے ہوئے اس کی انسان دوستی کے گیت گاتی رہی۔ اس ایجنڈے کو خود امریکا میں کئی باضمیر سینیٹرز نے انسانوں کو مارنے کا منصوبہ قراردیا۔

اس پرلاکھوں صفحات برقی محفوظات میں موجود ہیں۔انسانوں کومارنے کے اس منصوبے کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانوں کی نسلی شناخت کی بنیاد پر اُن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بل گیٹس کے منصوبوں میں بھی اس کی جھلک ہے جو افریقا کے بعض حصوں کے سیاہ فاموں میں ایسے تجربات کرنے میں ملوث ہے جو اُن کی نسلی معدومی کا اشارہ کرتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو عمر رسیدہ افراد میں بیماریوں کے باعث اُنہیں مغرب کے ہیلتھ کیئر سسٹم کے لیے بوجھ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کوروناوائرس کے حوالے سے مغرب میں زیرعلاج مریضوں کے علاج میں اس امتیاز کی بے شمار مثالیں سامنے آئیں۔ مثلاً وینٹی لیٹر کے لیے عمر رسیدہ اشخاص سے زیادہ جوان آدمی مستحق سمجھے گئے۔

یہ خدائی اسکیم کے سامنے انسانی اسکیم کی بالادستی کی ناپاک کوشش ہے۔ مگر اس رویے کی اعلیٰ ترین دلائل سے گوٹا کناری کرکے تائید کی جاتی ہے۔ اب یہاں یہ بھی ایک اہم بات ہوجاتی ہے کہ کورونا وائرس عمر رسیدہ لوگوں کو زیادہ جلدی شکار کرتا ہے اور اُن کو ہلاک کرنے میں زیادہ معاون ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ تحریروں میں واضح کرچکے ہیںکہ کوروناوائرس کی تحقیقات میں بل گیٹس نے مالی معاونت کی ۔ بل گیٹس کے خیالات کے حوالے سے یہ تصور بھی واضح رہنا چاہئے کہ وہ انسانی آبادی کو کم کرنے کے مختلف طریقوں پر سب سے زیادہ کام کرنے میں مصروف ہے۔امریکی میڈیا تنظیم ٹی ای ڈی (ٹیکنالوجی، انٹرٹینمنٹ، ڈیزائن) کے تحت 2010 میں کیلیفورنیا میں ایک کانفرنس ہوئی، جس میں بل گیٹس کا اپنا آپ پوری طرح بے نقاب ہوگیا تھا۔

بل گیٹس نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے ، جو تقریباً 9 بلین ہونے کی طرف گامزن ہے ۔ اگر ہم نئی ویکسین، حفظان صحت اور تولیدی صحت کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم آبادی کو شاید 10سے 15 فی صد تک گھٹا سکتے ہیں‘‘۔ کورونا وائرس بل گیٹس کے الفاظ میں کچھ نیا تو نہیں جس سے انسانی آبادی کو گھٹایا جاسکے۔ یہ اس بحث کا محض ایک پہلو ہے۔ کورونا وائرس کی سازش اس سے بھی بہت بڑی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر