وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان وحدت و استقلال کے امین (قسط2)

جمعرات 02 اپریل 2020 افغان وحدت و استقلال کے امین (قسط2)

افغانستان میں خاندانی حکمرانی، سوویت روس کی مداخلت، اشتراکیت کی ترویج و ابلاغ کے خلاف اسلام پسندوں نے شاہ کے دور ہی میں عوامی بیداری کی تحریک شروع کردی۔ سردار محمد دائود خان نے مارکسسٹوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو دبانا شروع کر دیا۔ انہیں قتل کیا جاتا، جیلوں میں ڈالا جاتا۔ ان حالات سے مجبور ہو کر کئی رہنما ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ سردار دائود کے خلاف مسلح کاروائیاں بھی ہوئیں۔ ظاہر شاہ کے دور میں ماسکو نواز حکومتی حلقوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ جس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ افغان حکومت نے پشتونستان تحریک ابھاری۔ کابل میں جلا وطن حکومت قائم کی گئی تھی۔ یوم پشتونستان کا جشن حکومتی سطح پر منایا جاتا۔ سردار دائود ان تقاریب میں خود شریک ہوتے۔ ریڈیو کابل یا ٹیلی ویڑن پر اس تحریک کے حوالے سے خصوصی نشریات پیش کی جاتیں۔ پاکستان کے اندر 70ء کی دہائی میں پشتون علیحدگی کی مسلح تحریک کی چنگاری اْٹھی۔ جسے ذوالفقار علی بھٹو نے بھڑکنے نہ دیا۔ پاکستان کے اندر کمیونزم اور نیشنلزم کی بنیاد پر ملک توڑنے کی سیاست ہوئی۔ راولپنڈی اور حیدرآباد سازش کیسوں میں اس کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ اپریل 1977ء میں سردار دائود اور روسی صدر لیوند برڑنیف کے درمیان ملاقات کے دوران لفظی جنگ ہوئی۔ وجہ معاملات میں مداخلت اور افغانستان کے شمالی علاقوں کے حوالے سے برڑنیف کا نقطہ نظر تھا۔برژنیف سردائود سے چاہتا تھا کہ افغانستان کے اندر ماسکو کی رضا سے ہٹ کر کسی منصوبے پر کام نہ کیا جائے، خاص کر شمال کے صوبوں میں ناٹو ممالک کے ماہرین پر اعتراض کیا۔ سردار دائود آخری وقتوں میں روسی حصار سے نکلنے کی پالیسی اپنا چکے تھے۔ وہ غیر کمیونسٹ ممالک، اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ خارجہ پالیسی کی تجدید کرنے لگے۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھی سردار دائود کو مشورہ دے چکے تھے۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی نے بھی انہیں پاکستان بارے میں خیالات بدلنے کی گزارش کی تھی۔ 1976ء میں بھٹو اور سردار دائود کے درمیان راہ و رسم ہوئی۔ اقتدار پر جنرل ضیاء الحق کے قبضے کے بعد بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری دیکھنے کو ملی۔ جنرل ضیاء نے اقتدار حاصل کرنے کے فوراً بعد کابل کا دورہ کیا۔ جس کے بعد مارچ 1978ئ￿ کو سردار دائود نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ دسمبر 1977ء میں نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں وفد نے ماسکو میں روسی صدر برژنیف سے ملاقات کی۔ برڑنیف نے وفد کے ساتھ بالادست کا بر تائو کیا۔ بعد ازاں نور محمد ترہ کئی اپنے ہمرائیوں سے گویا ہوئے کہ اگر یہی برتائو رہا تو دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن سے مدد لی جاسکتی ہے۔ 27اپریل 1978ء کو کمیونسٹوں نے فوجی کشی کرکے سردار دائود سے اقتدار چھین لیا۔ انہیں خاندان سمیت قتل کر دیا۔ گویا افغانستان کے اندر ماسکو کے اشتراک سے فساد کی بنیاد رکھ دی گئی۔ نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں فسطائی حکومت بنی۔ خلق اور پرچم، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ گروہی اقتدار ان کا نصب العین تھا۔ چونکہ اس ذریعے وسیع تر مقاصد تک پہنچا جا سکتا تھا۔ انہیں افغان عوام کی حمایت قطعی حاصل نہ تھی۔ عوام ان سے نفرت کرتے تھے۔ یہ کمیونسٹ اپنے ان پڑھ شریک جماعت افراد کو غیر جماعتی اعلیٰ تعلیم یافتہ افغانوں پر ترجیح دیتے تھے۔ اقتدار کے اس دور میں پشتونوں اور فارسی بولنے والوںکے درمیان تفریق بھی پیدا کی گئی۔ پرچمی گروہ میں فارسی زبان افغان کمیونسٹ غالب تھے۔ جبکہ خلقیوں پر پشتون اکثریت کی چھاپ تھی۔ اقتدار پرقبضہ خلقی گروہ نے حاصل کیا تھا۔ جنہوں نے پرچمیوں کو نظر انداز کر دیا۔ کابل میں تعینات روسی سفیر ’’ الیگزینڈر پوزا نوف‘‘ نے خلقیوں پر واضح کیا کہ جب تک پرچمی گروہ کے رہنمائوں کو حکومت میں شامل نہیں کیا جاتا، ان کی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ یہ سفیر 1972ء سے نومبر 1979ء تک کابل میں تعینات رہا۔ اس طرح ببرک کارمل اور دوسرے پرچمیوں کو حکومت میں جگہ دی گئی۔ یوںماسکو نے تین دن بعد حکومت تسلیم کر لی۔واضح ہو کہ نور محمد ترکئی 1951ء میں ’’نور‘‘ کے جبکہ ببرک کارمل نے 1957 ء میں ’’مارید‘‘ کے مستعار نام کے ساتھ ماسکو اور کے جی بی کے لیے کام شروع کیا تھا۔ وہ خود کو افغانستان سے زیادہ ماسکو کے قریب و وفادار باور کراتے۔ غرض خلقی اور پرچمی آپس میں دست و گریبان تھے۔ یہ مختصر دور ان کی عیش و عشرت کا زمانہ بھی تھا۔ رقص و سرود، مے خواری کی محفلیں جمتیں۔ بالغ مرد وعورت کو تعلیم دینے کی پالیسی کے تحت آنے والی خواتین کے ساتھ کمیونسٹوں نے شادیاں رچانا شروع کر دیں۔

اس ضمن میں دھونس اور زبردستی کا سہارا بھی لیا جاتا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو رات دیر تک دفاتر میں بٹھائے رکھا جاتا۔ کابل میں اقتدار پر کمیونسٹوں کے قبضے کے بعد کیوبا کے آنجہانی صدر ’’فیدرل کاسترو‘‘ کے بھائی ’’راول کاسترو‘‘ انقلاب کی مبارکباد دینے کابل کے دورے پر گئے ’’رائول کاسترو‘‘ نے وہاں نور محمد ترہ کئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور دوسرے کمیونسٹوں کی عیش نشاط ٹھاٹ باٹ دیکھے تو انہیں طنزاً مخاطب کیا کہ اس طرح کی زندگی میرے بھائی فیدرل کاسترو کو کیوبا میں میسر نہیں۔خلقی اور پرچمی سوویت یونین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک کے دنیا کی سیاست سے واقفیت نہ تھے۔ ان کے دماغوں میں اسلام اور دینی شعائر بالخصوص پاکستان سے نفرت اور دشمنی ٹھونسی گئی تھی۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ظاہر شاہ اور اس کے بعد سردار دائود کو مغربی یورپی ممالک، امریکا، اسلامی ممالک اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات استوار نہ کرنے دیں۔ ہزاروں روسی مشیر اور جاسوس فوج، بیورو کریسی اور دیگر شعبوں میں داخل ہوچکے تھے۔ اقتدار پر قبضے کے بعد تو وزارتوں میں ذمے داریوں پر یہ مشیر اور جاسوس مامور تھے۔ ریڈیو کابل اور سرکاری ٹیلی ویڑن تک میں روسی معاونین ڈیوٹیاں انجام دیتے تھے۔ ایران کی کمیونسٹ ’’تودہ پارٹی‘‘ کے لوگوںکو ویزے جاری کیے گئے۔ جو کابل کی کمیونسٹ رجیم کے ساتھ کام کرنے لگے۔ ’’تودہ پارٹی‘‘ کے وابستگان کو افغان وزارت خارجہ اور چند کو ریڈیو کابل اور ٹیلی ویڑن میں ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ کمیونسٹ دور میں واحد افغان ملت کے بجائے افغان ملتوں کا کلمہ عام کیا گیا۔ جس سے قومی و علاقائی تفریق کی بو آتی تھی۔ سرکاری دفاتر میں لینن کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ وزارت خارجہ کی عمارت میں لینن کا مجسمہ کھڑا کیا گیا۔ افغان قومی پرچم سرخ رنگ میں تبدیل کیا گیا۔ چناں چہ بہت جلد حفیظ اللہ امین اور نور محمد ترہ کئی ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوئے۔ حفیظ اللہ امین، نور محمد ترہ کئی اور ’’کے جی بی‘‘ کی جانب سے ہونے والے تین حملوں سے محفوظ رہیں۔ آخر کار امین کو ترہ کئی پر سبقت حاصل ہوئی۔ اْسے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ امین بھی مارکسسٹ تھے امریکا سے پڑھ کر آئے تھے۔ پرچمی اور خلقیوں میں نور محمد ترہ کئی کے ہم خیال لوگ انہیں امریکی ایجنٹ کہتے۔ حفیظ اللہ امین کو افغانستان میں پانچ ہزار سے زائد روسی جاسوسوں، مشیروں، کے جی بی کے غلبے سے تشویش لاحق تھی۔ ایک بار امین نے اپنے دفتر میں روسی سفیر پوزا نوف کو تھپڑ بھی رسید کیا۔ دراصل حفیظ اللہ امین، ظاہر شاہ کے وزیر اعظم موسیٰ شفیق اور سردار دائود کی مانند امریکا، پاکستان اور غیر کمیونسٹ ممالک سے تعلقات کی استواری کی پالیسی اپنا چکے تھے۔ جس نے امریکا سے اپنا سفیر کابل میں تعینات کرنے کا بھی کہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مخالف دینی جماعتوں سے روبط قائم ہوں۔ بالخصوص امین کا پاکستان کی طرف رجوع ماسکو کو ایک آنکھ نہ بھایا۔(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر