وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا وائرس کیا بلا ہے؟

منگل 31 مارچ 2020 کورونا وائرس کیا بلا ہے؟

دنیا پر بدترین لوگ حکومت کرتے ہیں۔ کورونا وائرس نے یہ راز بارِ دگر کھول دیا۔ انسانی ذہن اپنی مستی میں کتنی پستی سے دوچار ہوسکتا ہے، کورونا وائرس اسی سنگینی کا رقص ہے۔ سائنس فطرت کے مشاہدے کا آبرومندانہ ذریعہ ہوسکتی تھی۔ اللہ کی بنائی اس بھید بھری دنیا کے رازوں تک مودبانہ اورعاجزانہ رسائی قدم قدم پر انسان کو اس کے آگے ماتھا ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ مگر شیطان کا بھی توایک راستا ہے۔ انسان کا اپنی عقل پر ناز شیطان کی اللہ سے بغاوت کے مماثل ہے۔ چنانچہ اسی ناز نے سائنس کوانسانی ہاتھ کا ہتھیار بنادیا۔مگریہ دنیا اللہ کی تخلیق ہے۔ سائنس اس کی خالق نہیں، سائنس تو اس کا صرف کھوج لگاتی ہے۔ گاہے بھٹک جاتی ہے، پھر اس کے غلط نتائج کا خمیازہ دنیا بھگتتی ہے۔ دنیا آج بھی بھگت رہی ہے۔

کورونا وائرس دنیا بدلنے کے لیے ایک خاص ذہن کی پیداوار ہے۔ اب حقائق چَھن چَھن کر باہر آرہے ہیں۔ کورونا وائرس کی طرح دنیا میں بے شمار وائرس ہیں۔کچھ انسانوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔جبکہ انسانی نظام نے کچھ کے خلاف مدافعت پیدا کرلی۔ کورونا کے ہی خاندان سے دو اور وائرس اس سے قبل انسان پر حملہ آور رہے، جن میںسارس (SARS) اور میرس (MERS) کا تذکرہ ملتا ہے۔یہ دو وائرس نسلی تھے، سارس نے 2002 میںچین میں بھی صرف ہان نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا اور اس سے منگول اور ترک نسل کے چینی محفوظ رہے تھے۔

بعد ازاں ایک اور وائرس عربوں پر آزمایا گیا، میرس نامی وائرس 2012 میں صرف سعودی باشندوں کو شکار کرتا رہا۔ حیرت انگیز طور پر اس وائرس نے حج اور عمرہ پر آنے والے دیگر نسلوں کے مسلمانوں کو چُھواتک نہیں۔ اس نمونے (pattern) سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں اپنی مرضی کی چھیڑ چھاڑ کررہے ہیں۔ اور وائرس کو ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آزمانے کے لیے مشق کررہے ہیں۔ یہ سوال ابھی برقرار رہے گا کہ چین اس میں شامل ہے یا چین اس کا شکار ہے؟مگر اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ چین اُن ممالک میں شامل ہے جو حیاتیاتی ہتھیاروں پر اپنی معمل گاہوں (لیباریٹریز) میں تجربات کرتا رہتا ہے۔ اب اسی نسل کا تیسرا ہتھیار کسی نسلی امتیاز کے بغیر آزمایا گیاہے ۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد رونما ہونے والا سب سے ڈرامائی ماحول ہے۔ جس میں یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ ریاستیں اپنی قوت کو وسعت دے رہی ہیں یا ایک قطر ( ڈایا میٹر)میں کسی ملی میٹرکے بھی دس ہزارویں کے طور پر نظر آنے والے وائرس نے ان ریاستوں کو بے بس کردیا ہے۔ ابھی یہ کہانی بھی کھلنی ہے کہ اس کھیل نے قومی ریاستوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا ہے؟ مگر ہم اس کھیل کے متعلق اب تک کیا جانتے ہیں؟

کورونا وائرس کے حوالے سے اصل کام برطانیا میںپیر برائٹ انسٹی ٹیوٹ (Pirbright Institute) نے بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اورجان ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی مالی معاونت سے شروع کیا۔ یہ دنیا کے دو امیر ترین لوگوں بلومبرگ اور بل گیٹس کے دو ادارے ہیں۔ یہ دونوں اپنے مخصوص نظریات ، نسلی برتری اورانسانی وسائل کے حوالے سے اپنے اجارہ دارانہ تصورات کے باعث متنازع ترین لوگ ہیں۔ بل گیٹس کے اداروں کو متعدد ممالک میں کام کرنے نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ اپنے فلاحی منصوبوں کی آڑ میں اپنے اسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔

برطانوی انسٹی ٹیوٹ نے کورونا وائرس پر اپنے کام کے بعد امریکا سے اپنا حق ِ ایجاد (پیٹنٹ) حاصل کیا۔ دسمبر میں چین کورونا وائرس کے شکار سامنے آئے اور جنوری میں امریکااس کا شکار ہوا تو امریکا نے یہ پیٹنٹ ختم کر دیا۔ اس سے قبل کورونا کے حوالے سے تمام تحقیقات اور وائرس کے پوری کھیپ کینیڈا کے شہر ’’ونی پیگ ‘‘منتقل کردی گئی تھی۔جہاں سے گزشتہ برس مارچ کے ہی مہینے میں کورونا وائرس کی ایک کھیپ چین کے گیارہویں بڑے شہر ووہان روانہ کی گئی۔ ووہان میںوائرس کی ہی مختلف درجوں کی معمل گاہیں (لیبارٹریز) موجود ہیں۔ چند ماہ کے انتظار کے بعد یہیں سے کورونا وائرس پھیلایا گیا۔ کورونا کے پھیلاؤ کے لیے چین کے شہر ووہان کا انتخاب اور اس کے مابعد اثرات کا درست تجزیہ ابھی ممکن نہیں۔ یہ سب وقت کے پردے سے دھیرے دھیرے منظرعام پر آئے گا۔

مغربی ذرائع ابلاغ کو مگر کھنگالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس کے ایک وبائی شکل اختیار کرنے اور اس سے حفاظت پانے کی تمام مشقیں بلومبرگ اور گیٹس فاونڈیشن کے علاوہ دیگر کچھ ادارے پہلے سے کرتے رہے ہیں۔ آج دنیا جس طرح مقفّل ہے۔ ٹھیک اسی کی مشق ’’ایونٹ201 ‘‘ کے نام سے نیویارک میںکی جاتی رہی ۔ ذرائع ابلاغ سے لے کر حکومتوں کی طرف سے لاک ڈاؤن کے اعلانات تک سب کچھ اس مشق کا حصہ تھے۔ یوں لگتا ہے کہ نیویارک میں ہونے والی ریہرسل اور مشق ہی حقیقت ہے اور آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ اسی کی مشق اور ریہرسل ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے، اور بادی النظر میں ایسا ہی ہے تو پھر دو نتائج کھرل ہو کر سامنے آتے ہیں۔

اولاً :کورونا وائرس کے حوالے سے ابتدا میں گمراہ کن معلومات کی فراوانی ۔ ثانیاً: دنیا کے تمام ممالک میںلاک ڈاؤن۔گمراہ کن معلومات کی فراوانی کے لیے چین کی غذائی عادات موضوع بنائی گئیں۔ چمگاڈر کا سوپ اور پینگولین کا قصہ، درست سمت میں سوچنے سے بھٹکانے کے لیے تھا۔ اس بحث میں دنیا نے اپنے چند بہترین ہفتے ضائع کردیے۔ اور یہی وہ موقع تھا جب کورونا ملکوں ملکوں سیر کو نکلا۔کورونا نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو آہستہ آہستہ شکار کرنا شروع کردیا۔ اگر اس وائرس کے دو پیش رو سارس اور میرس کے تجربات دھیان میں رکھے جائیں تو اندازا ہوتا ہے کہ اس خاندان نے اپنی شدت اور نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں رفتہ رفتہ اضافہ کیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے توجہ انسانی تجربات کی طرف ہی جاتی ہے۔

سارس کا محض ایک نسل کو نشانا بنانا، میرس کا ایک دوسری نسل پر نسبتاً زیادہ مہلک طور پر وار کرنا اور اب کورونا کا بلاامتیازِ نسل بروئے کار آنا ایک مخصوص ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ کھیل یہاںختم نہیں ہوا۔ کورونا وائرس محض لاک ڈاؤن کا مقصد نہیں رکھتا ، یہ اس سے زیادہ گہرے مقاصد رکھتا ہے۔ لاک ڈاؤن اُن مقاصد تک پہنچنے کا ابتدائی ڈراما تھا۔ وائرس مختلف ملکوں میں اپنے اثرات دکھانے کے لیے ایک پیٹرن بنا رہا ہے۔یہ ایک خاص بات ہے۔ سرد اور گرم ممالک کے ساتھ اس کارویہ مختلف ہے۔

بوڑھے اس کے زیادہ شکار ہیں۔ کورونا جن کی زندگی چاٹ رہا ہے، اُن میں سے اکثر دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے بہت سے پہلو ابھی پردۂ غیب میں ہے۔ یہ بات یقینی نہیں کہ کورونا کے سارے شکار ایک ہی وائرس کی زنجیر سے بندھے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ وائرس الگ الگ موقعوںپر الگ الگ ملکوں میں چھوڑا گیا ہو۔ اس حوالے سے ابھی تحقیقات کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر یہ نکتہ واشگاف ہو گیا تو پھر کئی مزید پہلو بھی بے نقاب ہو جائیںگے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ وائرس کب اپنی موت آپ مرے گا؟ سارس اور میرس وائرس ایک مخصوص مدت تک اپنی اُچھل کود کے بعد دفع ہوگئے تھے، مگر اس کا دائرہ محدود تھا۔ کورونا کا دائرہ وسیع ہے۔ اب بل گیٹس کی ہی بات سن لیتے ہیںجس نے کورونا کے دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد 23؍ مارچ کو ایک بیان جاری کیا تھا۔ بل گیٹس کے بیان میںتین باتیں تھیں۔

اولاً :حکومتیں ملک بندکردیں۔ثانیا: عوام سماجی رابطے سے پرہیز کریں۔ثالثاً:حکومتیں بہترین طریقے سے ٹیسٹ کریں۔بل گیٹس پر کورونا وائرس کے حوالے سے تحقیقات میں مددگار ہونے کا الزام ہے۔ اگر وہ یہ تین باتیں کررہا ہے تواسی کے اندر وہ ایجنڈا بھی چھپا ہوا ہے جو ان تین باتوں کی تکمیل کے بعد کا ہے۔ دنیا نئے سرے سے تشکیل دی جارہی ہے۔ یہ خوف زدہ ہونے کا نہیں غور کرنے کا وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر