وجود

... loading ...

وجود
وجود

وباء کے دنوں میں سیاست

جمعرات 26 مارچ 2020 وباء کے دنوں میں سیاست

جنگی معرکوں میں غازی اور شہید کے منصبِ جلیلہ پر فقط وہی لوگ فائز ہوتے ہیں جو اگلے مورچوں پر اپنی جان ہتھیلی پرر کھ کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہوں ۔ صوبائی وزیر تعلیم اور محنت سعید غنی بھی حالیہ دور میں انسانیت کے سب سے بڑے دشمن کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے پاکستان کے ایک ایسے ہی سیاسی مردِ مجاہد ہیں ۔ جنہوں نے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کی ذرہ برابر بھی پرواہ کیے بغیر سندھ حکومت کے ایک اہم ترین سپاہی کی حیثیت سے روزِ اوّل سے ہی اِس مہلک وائر س کا صوبہ سندھ میں پھیلاؤ روکنے کے لیے اپنا بھرپور انتظامی اور سیاسی کردار ادا کیا ۔ سعید غنی کی انتظامی و سیاسی کاوشیں تو کسی حد رنگ لا رہی ہیں اور سندھ میں مکمل لاک ڈاؤن ہوجانے کے بعد کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تسلی بخش حد تک روک بھی لگادی گئی ہے ۔ لیکن اِسی دوران سعید غنی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ’’اُن کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور انہوں نے خود کو چودوہ ایام کے لیے مکمل طور پر قرنطینہ کرلیا ہے‘‘۔کورونا کے خلاف ہماری قومی جنگ میں سعید غنی کو پاکستان میں اوّلین’’ سیاسی غازی ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یقینا جس طرح سے سندھ کابینہ نے کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیے بھرپور انداز میں کام کیا ہے ،اُسے دیکھتے ہوئے مزید کابینہ ارکان کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ نتائج مثبت آنے کے اِمکان کو کسی بھی صورت رد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اُمید یہ ہی کی جارہی ہے کہ جس طرح سعید غنی نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد بھی اِس جان لیوا وائرس کے خلاف اپنی جنگ ابھی تک ترک نہیںکی بالکل ویسے ہی کورونا وائرس کی شکست کے آخری لمحات تک پوری سندھ کابینہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی قیادت میں یونہی نبرد آزما رہے گی ۔

جتنا کورونا وائرس پیچیدہ اور پراسرارہے بالکل ایسے ہی اِس کے خلاف لڑنے والے بھی پشاور سے لے کر کراچی تک متحد اور یکجان ہوچکے ہیں ۔ خاص طور سندھ میں سیاسی منظرنامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے اور کل کے سیاسی مخالف آج ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کورونا وائرس کے خلاف باہم مل کر سیاسی و انتظامی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ۔ سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی نے انتظامی محاذ بھرپور انداز میں سنبھالا ہواہے اور لاک ڈاؤن کا بروقت فیصلہ کر کے صوبہ بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جہاں ہے جیسے ہی کی بنیاد پر روک دیا ہے ۔ جبکہ جماعت اسلامی اور اِس کا ذیلی فلاحی ادارہ خدمت خلق فاؤنڈیشن صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کو مالی و طبی امداد اُن کے گھروں تک پہنچانے میں پیش پیش ہے ۔ تقریباً صوبہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں خدمت خلق فاؤنڈیشن کے سینکڑوں رضاکار پوری تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہیں ۔ دوسری جانب سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل کراچی، حیدرآباد اور اِس کے گردو نواح میں ہزاروں کی تعداد میں دیہاڑی دار مزدوروں کودو درجن سے زائد مختلف مقامات پر تین وقت کا کھانا مفت میں میں فراہم کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن اپنی ایمبولینس سروس کی صورت میں کسی بھی طبی ہنگامی صورت حال میں لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کو بروقت ابتدائی طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال تک لے جانے کے لیے 24 گھنٹے بلا کسی تعطل ایک فون کال پر مفت میں دستیاب ہے ۔ صرف یہ ہی نہیں صوبہ سندھ کے کم و بیش ہر چھوٹے ،بڑے قصبے اور شہر میں دردِ دل رکھنے والے مخیر اور اہلِ ثروت حضرات کی طرف سے بے شمار رضاکارانہ کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں جو نہ صرف سفید پوش غریب طبقہ کی نگہہ داری کررہی ہیں بلکہ اُنہیں روز مرہ ضرورت کی ہر شئے فراہم کرنے کی اپنی سی سعی بھی کر رہی ہیں ۔

اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات کی جائے تو بلاشبہ اُن کا کردار مشکل کی اِس گھڑی میں لائقِ تحسین ہے اور یہ ہی وہ طبقہ ہے جو اِس وقت سب سے زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار ہے ۔ کیونکہ عام لوگ تو پھر بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ ہو گئے ہیں لیکن یہ لوگ سرکاری فرائض کی بجاآوری میں کھلی فضا میں سڑکوں پر پوری طرح سے چوکس کھڑے ہیں اور مختلف مقامات پر انہیں چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عام لوگوں سے قریبی روابط قائم کرنے پڑ جاتے ہیں ، جس کی وجہ اِن کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے ممکنہ خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔ ویسے تو صوبہ سندھ کی نوے فیصد عوام سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے بھرپور انداز میں تعاون کررہی ہے لیکن دس فیصد ناعاقبت اندیش افراد ابھی بھی ایسے ضرور موجود ہیں جو صوبہ بھر میں قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ایک صبر آزما امتحان بنے ہوئے ہیں اور بلاوجہ ہی ایڈونچر ازم کے شوق میں بار بار لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔اچھی با ت یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کی بلاکسی ضرورت کے خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی پیار اور شفقت سے سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کررہے ہیں اور چھوٹی موٹی سزایا پھر تنبیہ کر کے اُنہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔لیکن آخر کار اِن غیر سنجیدہ افراد کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اُن کی ایک غلط حرکت یا ایڈونچر ازم کا خمیازہ بعدازاں اُن کے پورے گھرانے کو کورونا وائرس کا شکار ہوکر بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔یاد رہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے دنیا بھر میں ابھی تک صرف ایک ہی ہتھیار کارگر ثابت ہوسکاہے اور اُس کا نام مکمل سماجی تنہائی ہے۔لہٰذا من چلے اور غیر سنجیدہ حضرات سے التماس ہے کہ وہ سندھ حکومت کی لاک ڈاؤن اپیل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کریں کیونکہ صرف آج کی گئی ذرا سی احتیاط ہی آپ اور آپ کے خاندان کو کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر