وجود

... loading ...

وجود
وجود

اپنی حد میں آئیے !

بدھ 11 مارچ 2020 اپنی حد میں آئیے !

انسانی شعور کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنی حد کو جان لے۔ خو دکو بے حد وبے حساب سمجھنا انسانی شعور کی سب سے بڑی توہین ہے۔ آزادی کا تصور اس فہم کو خارج کرنے کے بعد تشکیل پائے گا تو ہمیشہ ناقص رہے گا۔آزادی کا وہی تصور درحقیقت انسان کو حقیقی آزادی کی مسرت سے ہمکنار کرسکتا ہے جس میں اس کی اپنی محدودات کا پورا لحاظ رکھا گیا ہو۔ ٹہر جائیے سلیم احمد مرحوم کو یاد کرتے ہیں

وسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعور
اپنی حد میں آئیے اور آگہی بن جائیے

مشرق کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے حدِ آگہی کومغرب کی چکاچوند کے باعث دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ مغرب نے اسے مریض بنا دیا ہے۔ ایسا مریض جسے اپنی بیماریوں سے پیار ہوجائے۔ حقوقِ نسواں کی ناکام تحریک نے جن مزید مسائل سے مغربی عورت کو دوچار کیا، مشرق کی ’’جاہل‘‘ عورتوں نے اُن مسائل کو بھی آگے بڑھ کر گلے لگالیا۔اگر یہ کام مشرقی عورتیں اپنے ناقص فہم سے ہی کرتیں، اور غلط راستے کا انتخاب خود اُن کا اپنا ہوتا تو اسے انسان کے شعوری سفر کے اضطرار ی نمونے کے طور پر قبول کیا جاسکتا تھا کہ انسان ٹھوکریں کھا کر سنبھلتا ہے اور گرتے پڑتے ہی چلنا سیکھتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ یہاں حقوق نسواں کی علمبردار گنی چنی عورتوں کو سرے سے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ دراصل چاہتی کیا ہیں؟ اُنہیں یہ بھی اندازا نہیں کہ اُن کے نعرے فی الواقع کیا ہیں؟ پھر وہ اس فرق سے بھی آگاہ نہیںکہ مختلف تہذیبوں میں خواتین کے مسائل بھی الگ الگ نوعیت کے ہوجاتے ہیں ، خواتین کا اپنے مسائل کوعمومی اور گلوبلائزکرنے سے مسائل کی نوعیت یکساں نہیں ہو جاتیں۔مشرقی عورت کے مسائل مغربی عورت سے الگ ہے۔ مگر مشرقی عورتوں نے نعرے مغرب کے اوڑھ لیے۔ اب وہ یہ بھی نہیں سمجھا پارہیں کہ اُن کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر درج فلاں نعرے کا مطلب کیا ہے؟
چلیں اس حقارت آمیز اور قے آور نعرے ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘سے ہی آغاز کرتے ہیں۔ ابھی اس نعرے کی حقیقی ، فطری اور مذہبی تفہیم کو چھوڑدیں! یہ نعرہ مغرب میں کیا معنی رکھتا ہے، اور مشرق میں اس کی تفہیم کیا ہے؟

مغربی عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں مرد اور عورت کے تعلق کی تقدیس باقی نہیں رہی۔ مگر ایک سے دوسرے کی تکمیل کا فطری مطالبہ اُسی طرح برقرار ہے۔ اب اس بے دستور تعلق کے بدستور’’ نتائج‘‘ کا کیا کریں؟ مغربی عورت کو اس کے نتائج کا بوجھ خود اُٹھا نا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر عورت نے یہ’’ نتائج‘‘ اُٹھانے سے انکار کردیا۔ وہ ایک ایسے بچے کا اکیلی بوجھ کیوں اُٹھائے جو دو کا نتیجہ ہے؟ مغربی عورت نے اپنی پہلی غلطی یعنی مرد سے غیر قانونی تعلق کا اعتراف تو نہیں کیا مگر اس تعلق سے جنمنے والی ’’غلطی‘‘ کو ایک تحریک بنادیا۔ فطرت سے بغاوت یہی ہوتی ہے کہ آدمی اپنی غلطیوں کا شعور بھی کھو دیتا ہے۔ مرد عورت کے غلط تعلقات کی’’ غلطیوں ‘‘سے مغرب میں دو طرح کے ردِ عمل سامنے آئے؟ ایک طبقہ وہ تھا جس نے اسقاط ِ حمل کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے ’’پرو لائف‘‘ یعنی زندگی حمایت تحریک شروع کی ۔ یہ طبقہ اس بات کا حامی تھا کہ زندگی کو روکا نہیں جاسکتا اوراسقاطِ عمل ایک غیرفطری عمل ہے۔ اس کے برعکس دوسری تحریک کا ردِ عمل ’’پرو چوائس‘‘ تھا۔ یہ طبقہ بچوں کی پیدائش کو ایک انتخاب کا مسئلہ قرار دیتا تھا۔

اُسے اِصرار تھا کہ غلطی کرلی تو کیا ہوا، اس کو بھگتنے کا فیصلہ ہمیں اپنی مرضی سے کرنے دیں۔ اس طبقے نے اپنے دلائل کی تجسیم ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ سے کی ۔اس نعرے کا مطلب مغرب میں اسقاطِ حمل کے اس تناظر سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی جاہل اور ناپختہ عورتوں نے اس نعرے کو اوڑھ کر ایک دوسرا تناظر خود کار طریقے سے پیدا کردیا۔ مغربی عورت ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘سے جڑا جو تناظر رکھتی تھی مشرقی عورت کے مسائل کے پس منظر میں ایسا کوئی تناظر سرے سے تھا ہی نہیں۔ مغربی عورت کے ساتھ دو مسائل تھے۔ اولاً :مرد عورت کا ناجائز تعلق ۔ ثانیاً: ناجائز تعلق کے نتائج۔ پاکستان میںایسا کوئی بحران سرے سے نہیں۔ یہاں مرد عورت کے باہمی تعلقات کی غالب تفہیم ایک جائز اور قانونی تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہاں اولاد محض ایک ذمہ داری نہیں ، محبت ، اقدار اور ایثار کا ایک رس بھرا ، سجیلا اور صاف ستھرا عنوان ہے۔یہاں لاولد بچوں کا مسئلہ کوئی بحران نہیں رکھتا۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اولاد کے لیے جیتا ہے اور اپنی ہی نہیں دوسروں کی اولادوں کا بھی بوجھ خوشی خوشی اُٹھانے کو تیار ہے۔ اس تناظر میں جب کچھ مغرب زدہ عورتیں میرا جسم میری مرضی کا آوازہ لگاتی ہیں تو اس کا مطلب اسقاط حمل کا مغربی نعرہ نہیں رہ جاتا۔ بلکہ یہ اباحیت پسندی اور غیر فطری تعلق سے جڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ان عورتوں نے جس طرح یہ پلے کارڈ اُٹھائے، جس ماحول میں یہ نعرے لگائے اور اپنی بدن بولی سے جیسے اس کی تشریح کی، اس نے کوئی رعایتی مفہوم پیدا کرنے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔

دو مختلف تہذیبوں میں کھڑی عورتوں کے فرق کے ساتھ اس نعرے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہ ہونا اپنے آپ میں واضح ہے۔ یہ نعرہ ہمارا ہے، نہ اس سے وابستہ مسائل ہمیں درپیش ہیں اور نہ ہی ہماری عورت ، مغربی عورت ایسی زندگی سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود اس نعرے کاپاکستان میں استعمال انتہائی گھٹیا انداز سے جاری ہے۔حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان میں جو عورتیں مغرب کے نقشِ قدم پر چل کر عورتوں کے نام پر دوائے دل بیچتی ہیں، اُنہیں اس کا اندازا تک نہیں کہ اُن کے نعرے خود مغرب میں ناکام ثابت ہوچکے ۔ وہ اسے ترک کرنے کے راستے ڈھونڈ رہی ہیں۔ مگر پاکستانیوں کو انگریزوں کی نفرت انگیز اُترنوں سے بھی بہت پیار ہیں۔ چنانچہ اُن کے بدبودار نعروں کی اُترنوںسے اُن کے لنڈا بازار سجے پڑے ہیں۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘ایسا ہی ایک نعرہ ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘نعرے کا حال بھی وہی ہوا جو انگریزوں کی اُترنوں کا لنڈا بازار تک پہنچتے پہنچتے ہوتا ہے۔ اس نعرے نے اپنی قینچلی بدل لی۔ مغرب میں اس نعرے کا پس منظر، پیش منظر اور تہہ ِمنظر بالکل مختلف ہے۔ مگر مغرب زدہ بیبیوں نے اس کا رنگ روپ اپنے چہروں پر ملے رنگ و غازے کی طرح تبدیل کرلیا۔
اس نعرے میںموجود اباحیت پسندی کے تعفن کے باوجود انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جہاں سے یہ نعرہ آیا ہے، وہاں کے حالات تو جان لیں کہ وہاں کی عورت پر اس نعرے نے کیا ستم ڈھائے؟

 

مغربی عورت نے یہ نعرہ اپنے تناظر میں بھی اچانک نہیں لگایا۔ اس کے پیچھے عورت کے مسخ تشخص کی ایک تاریخ ہے۔ جسے سرمایہ دارانہ نظام نے تشکیل دیا۔ عورت کو مغرب نے سرمائے کے منتر پر پہلے سحرزدہ کیا اور پھر اس سے وہ دھمال کروائی کہ اس کی تمام سرگرمیاں منافع کے مفہوم میں بدل گئی۔ عورت کے خلاف یہ سارا کھیل اتنا گھناؤنا ہے کہ اب جب مغربی عورت تھک کر اپنی فطرت کی جانب لوٹنے کا مطالبہ کررہی ہے تب بھی اس کی مظلوم حالت کو سرمایہ دارانہ سرگرمی میں ڈھال دیا گیا ہے۔ اب مضحکہ خیز صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ مغرب میں عورت تھک ہار کر وہ مانگ رہی ہے جو مشرق میںعورت کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ اور مشرق میں کچھ نام نہاد عورتیں مغرب کی تھکی ہاری زندگی مانگ کر اس سب کچھ سے دستبردار ہونا چاہتی ہیں جو اصل میں مغربی عورتیں مطالبہ کررہی ہیں۔بیمار ذہنیت کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ مغربی عورت کی اس تھکی ہاری زندگی کی کچھ جھلکیاں آئندہ دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر