وجود

... loading ...

وجود
وجود

زبانِ پاکستان مَن تُرکی۔۔۔!

جمعرات 20 فروری 2020 زبانِ پاکستان مَن تُرکی۔۔۔!

ازرہِ مذاق ہی سہی بہرکیف ،جب کبھی کوئی ہمیں یہ کہتا ہے کہ پاکستانیوں کے منہ میں ترکی زبان ہے تو یہ جملہ عین قرین قیاس سا لگتا ہے اور ہم مسکرا کر اِس جملہ کی معنی خیز حقیقت کی تصدیق کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری قومی زبان اُردو ہے اور بلاشبہ سب ہی جانتے ہیں کہ اُردو ترکی زبان کا ہی لفظ ہے ۔ لیکن ترکی کے صدر طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان میں ایک نئی بات یہ منکشف ہوئی ہے کہ اگر ہم پاکستانیوں کے منہ میں ترکی زبان ہے تو ہزارشکر کہ ترکیوں کا لہجہ بھی پاکستانی ہے ۔ اگر کسی کو ہماری اِس بات میں ذرہ برابر بھی شک محسوس ہو تو وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی اُس تقریر کو ایک بار پھر سے سُن لے جو انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے ۔ یقینا ترکی کے صدر طیب اردوان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریر تو دنیا کی سرکاری زبان انگریزی میں کر رہے تھے لیکن اُن کا لہجہ بالکل پاکستانی تھا۔ بقول شاعر

میں زمانے کو بناتا تو زمانے بھر کو
تیری آنکھیں ،تراچہرہ ،ترا لہجہ دیتا

ایک لمحہ کو تو ایسا لگا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں طیب اردوان نہیں بول رہے بلکہ پاکستانیوں کا کوئی مسیحا گفتگو فرما رہاہے ۔ اِس تقریر میں مسئلہ کشمیر بھی تھا، مظلوم کشمیریوں کا نوحہ بھی ،عالمِ اسلام کی حالتِ زار بھی اور اِس حالت کو مستقبل میں گل وگلزار بنانے کا ایک مکمل راستہ بھی ۔جبکہ بین ال تقریر پاکستانیوں سے متعلق پایا جانے والا والہانہ جذبہ محبت کا اظہار بھی تھا اور عالمِ اسلام کو اتحاد کے لیے صلائے عام بھی تھی نکتہ دانوں کے لیے ۔اس کے علاوہ طیب اردوان کے زورِ خطابت میں دشمنان اسلام اور پاکستان کو ایک کھلا چیلنج بھی تھا اور کوئی سمجھ سکا ہو تو ایک للکار بھی تھی ۔ یقینا طیب اردوان کی یہ گفتگو ہمارے دشمنوں نے بھی خوب کان لگا کر سُنی ہو گی اور کچھ بعید نہیں اُنہیں طیب اردوان اور عمران خان کی تقریر یںسُن کر یہ خوف بھی لاحق ہوا ہو کہ کہیں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا سویا ہوا شیر انگڑائی لے کر جاگ جانے کی تیاری تو نہیں کررہا۔

سچی با ت تو یہ ہے کہ آج کی اسلامی دنیا میں فقط تین ہی ایسے رہنما ہیں جن کے کہے گئے ایک ایک لفظ کو پوری توجہ ،انہماک اور سنجیدگی سے سُنا جاتا ہے ۔یعنی عالمِ اسلام میں مقبولیت کے لحاظ سے محمد طیب اردوان پہلے ، ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد دوسرے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان تیسرے نمبر پر شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ جہاں تک رہی بات اسلامی دنیا کے باقی رہنما ؤں کی نام نہاد ساکھ اور مقبولیت کی تو بدقسمتی سے مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے دیگر باقی تمام رہنما الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو اپنا بھرپور اثرونفوذ رکھتے ہیں لیکن کسی مسلمان نوجوان کے قلب میں اُن کے متعلق کوئی خاص اچھے تاثرات نہیں پائے جاتے۔ گیلپ انٹرنیشنل سروے کے مطابق بھی اگر اسلامی سربراہانِ مملکت میں ترکی کے صدر طیب اردوان عالمِ اسلام میں بلحاظِ مقبولیت سرِ فہرست ہیں تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ طیب اردوان بہرحال اپنے قول اور فعل سے ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا رہنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں ۔ جبکہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی دو ایسے مسلمان رہنما ضرور ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ میں عالمی سیاست کے نقارخانے میں مظلوموں کے لیے ایک توانا آواز بن کر سامنے آئے ہیں ۔

ترکی کے صدر طیب اردوان کا حالیہ دورہ پاکستان اِس لحاظ سے بھی کافی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ یہ دورہ اُن مشکل ترین سفارتی حالات میں وقوع پذیر ہو ا، جب کہ ہمارے وزیراعظم پاکستان عمران خان ملائیشیا میں ہونے والی کوالالمپور کانفرنس میں چند برادر اسلامی ممالک کی سیاسی دلجوئی کے لیے شرکت کرنے سے قاصر رہے تھے ۔ طیب اردوان کے حالیہ دورے سے اِس منفی تاثر کی بھی بھرپور انداز میں نفی ہوتی ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی عدم شرکت کے باعث پاکستان ترکی اور ملائشیا کے خارجہ تعلقات میں کوئی فاصلاتی لکیر پیدا ہوئی تھی۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اسلامی سربراہی کانفرنس المعروف او آئی سی کے مکمل طورپر غیر فعال ہونے کے بعد ترکی ،پاکستان اور ملائیشیا کی قیادت باہم مل مسلم ممالک پر مشتمل ایک ایسا نیا کثیر المقاصد اتحاد بنانے کے لیے پھر سے کوشاں ہوگئی ہے کہ جس کے پلیٹ فارم سے کشمیر ،روہنگیا، عراق ،شام اور فلسطین کے مظلوم عوام پر عالمی استعماری طاقتوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف نہ صرف بھرپور آواز بلند کی جائے بلکہ دامے ،ورمے سخنے اِن علاقوں میں رہائش پذیر مسلم آبادی کو قرار واقعی مدد و استعانت فراہم کرنے کا بندوبست بھی کیا جاسکے۔

دوسری جانب رجب طیب اردوان کے حالیہ دورہ میں پاکستان اور ترکی کے درمیان کئی مفید تجارتی معاہدوں اورمفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں ۔جن کے تحت عسکری تربیت، ریلوے کی ترقی ، سیاحت کے فروغ ،خوراک میں خود کفالت ،پوسٹل سروس میں بہتری سمیت دیگر بارہ اہم ترین شعبوں میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کرکام کرنے پر کامل اتفاق ہواہے۔جبکہ ترکی اور پاکستان کے درمیان جاری تجارتی حجم کو بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک کرنے جیسا اہم ترین فیصلہ بھی کیا گیا ہے ۔جبکہ خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ اسلام آباد اور انقرہ کی حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے دہری شہریت فراہم کرنے کے ایک معاہدے پر بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں،یعنی دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں پاکستان اور ترکی کے شہریوں کے لیے ایک دوسرے ملک کی شہریت لینا آسان ہوجائے گا۔شنید یہ ہی ہے کہ یہ تمام اقدامات اور فیصلے مستقبل میں ترکی اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات، معاشی ،سماجی ،سیاسی او ر علاقاجاتی ترقی میں اہم ترین سنگِ میل ثابت ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر