وجود

... loading ...

وجود
وجود

احمق اور بزدل مودی حکومت

پیر 17 فروری 2020 احمق اور بزدل مودی حکومت

یکم فروری کو بجٹ 2020-21ء پیش کیا گیا۔ اسے دو فروری کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی اور اداریوں کا موضوع بنایا گیا‘ لیکن اگلے روز یہ اخبارات کے صفحات اول اور ٹیلی ویڑن چینلوں سے عملاً غائب ہوگیا۔ یہ کسی فلم کی مانند ہے جو پہلے دن باکس ا?فس پر ب?ری طرح ناکام ہوگئی۔ بی جے پی‘ وزیراعظم اور وزیر فنانس کو اس کی خود ذمہ داری لینی ہوگی۔ وہ چیف اکنامک ایڈوائزر کو موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتے‘ جنہوں نے معاشی سروے میں کچھ معقول مشورے دیے‘ اور نہ ماہرینِ معاشیات اور بزنس لیڈروں پر الزام ڈال سکتے ہیں‘ جنہوں نے وزیراعظم سے ماقبل بجٹ مشاورتوں کے سلسلے میں ملاقات کی۔ تجاویز تو بہت تھیں۔ مارکیٹوں میں اتھل پتھل کی عکاسی کرتے ہوئے میں نے 26 جنوری کے کالم میں 10 چیزیں بیان کی تھیں‘ جو وزیر فنانس اس بجٹ میں کرسکتی تھیں۔ اگر وزیر فنانس نے معاشی مشیر اعلیٰ یا ماہرین معاشیات کے مشورہ پر توجہ نہیں دی یا بزنس پرسنز کے مطالبات پر نرم نہیں پڑے ہیں تو اس کی حسب ذیل وجوہات ہیں: 1۔ حکومت کا انکار کرنا حکومت نے قبول نہیں کیا ہے کہ نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی جیسی تاریخی غلطیاں ہوئیں‘ جن سے ما ئیکرو‘ ا سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز برباد ہوئے اور نوکریاں ختم ہوگئیں۔ حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے کہ معاشی سست روی کے اسباب گھٹتی برآمدات‘ اقتصادی شعبہ میں عدم استحکام‘ نا کافی کریڈٹ سپلائی‘ گھرانوں میں کمتر بچتیں اور انحطاط پذیر کھپت‘ کان کنی اور مینوفیکچرنگ کا ناکام ہوجانا اور سرایت کرگئی غیریقینی کیفیت اور خوف ہیں۔ بدقسمتی سے وزیر فنانس نے معیشت کی ان منفی باتوں کا اپنی تقریر میں کوئی ذکر نہیں کیا۔ 2۔ حکومت کا معیشت کی حالت کا مایوس کن غلط اندازہ حکومت کا ماننا ہے کہ معیشت کی سست روی دَوری عوامل کا سبب ہے اور اگر وہ مزید وہی کچھ کرتے رہیں تو معیشت میں تیزی ا?جائے گی‘ جیسے رقم کی تلاش میں سرگرداں رہنا‘ جاریہ پروگراموں میں مزید رقم جھونکنا اور نئے پروگراموں کا اعلان کرتے رہنا۔ اگر معاشی سست روی کے اسباب دَوری سے کہیں زیادہ ترکیب اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق ہیں‘ جیسا کہ کئی ماہرین معاشیات کا ماننا ہے‘ تو حکومت نے عملاً پہلے ہی ان ممکنہ متبادلات کی راہ بند کردی ہے جو اسے معیشت کو بحال کرنے درکار تھے۔ 3۔ حکومت کا نظریاتی برتائو معاشی بحالی میں رکاوٹ حکومت فرسودہ فلسفوں‘ جیسا کہ تحفظ پسندی‘ درآمد کے متبادل‘ طاقتورروپیہ وغیرہ پر یقین رکھتی ہے۔ اسے بیرونی تجارت کے کئی فوائد پر یقین نہیں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برآمدات کو فروغ دینے کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش ترک کرچکی ہے۔

 

اس نے امپورٹ ٹیرف میں اضافے کے رجعت پسند آئیڈیاز کو اپنا لیا ہے۔ وہ روپیہ کو زیادہ حقیقت پسندانہ سطح ڈھونڈنے کی آزادی دینے میں بھی پس و پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بجٹ سے قبل ہی ایسے موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت نے خود اپنے لیے حل کی کمی کرلی ہے۔ 4۔ حکومت وہ اقدامات واپس لینے پر آمادہ نہیں جن سے حکومت اور بزنس کے درمیان عدم اعتماد گہرا ہوگیا حکومت نے کئی معاشی قوانین کے ساتھ مجرمانہ عنصر جوڑ دیا ہے۔ اس نے ٹیکس وصول کرنے والے محکمہ جات اور تحقیقاتی اداروں کے کمترین سطح کے عہدیداروں تک کو غیرمعمولی اختیارات عطا کردیئے ہیں۔ ٹیکس کلیکشن ٹیکس ٹیررازم بن چکا ہے (وی جی سدھارتھ کو یاد کیجئے)۔ طلب کردہ ٹیکسوں کو چیلنج کرنے یا ادائیگی کا عمل خود حد درجہ ہراسانی بن چکا ہے۔ دی چارٹر آف رائٹس آف ٹیکس پیئرز‘ جس کا وزیر فنانس نے وعدہ کیا‘ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ کیوں حکومت حکام اور ایجنسیوں کو دی گئی غیرمعمولی آزادی سے سیدھے دستبرداری اختیار نہیں کرتی ہے؟ 5۔ حکومت نے خود کو نااہل ناظم ثابت کیا نوٹ بندی سے جی ایس ٹی تک‘ سوچھ بھارت مشن سے گھروں کو بجلی دینے تک‘ آجوالا یوجنا سے آدے تک…ہر پروگرام میں سنگین کوتاہیاں ہیں۔ بدبختی سے حکومت ’’گونج دار چیمبر ‘‘ میں رہتی ہے اور صرف خوشامدانہ باتیں سنتی ہے‘ لہٰذا‘ ان پروگراموں پر خطیر رقومات خرچ کردینے کے باوجود نتائج غیراطمینان بخش ہیں۔ انتظامی مشینری میں اہلیت کا فقدان ہے کہ عمل آوری کو بہتر بنایا جائے یا حقیقی نتائج کو پیش کیا جائے۔ اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ وزیر فنانس نے بے کیف و پھیکے بجٹ‘ معمولی شرح جی ڈی پی اور ٹیکس وصولیات کے تعلق سے غلط پرامیدی پر اکتفا کرلیا۔ برائے نام جی ڈی پی 10 فیصد کی شرح پر بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ مجموعی ٹیکس وصولی 12 فیصد کی شرح پر بڑھنے کا تخمینہ ہے جو ممکنہ نتیجہ نہیں۔ علاوہ ازیں تخمینی وصولیات اچھے اور خراب متعدد پروگراموں میں تقسیم کردیئے گئے ہیں ‘ جس کے نتیجے میں ایسے پروگراموں کے لیے زیادہ فنڈز مختص کرنے کی گنجائش کم ہوگئی‘ جن سے یقینی ہوجاتا کہ غریبوں کے ہاتھوں میں زیادہ رقم تیزی سے پہنچ جاتی۔

 

انکم ٹیکس دہندہ کو نیچے کے زمروں میں دی گئی نام نہاد ٹیکس رعایت نے ٹیکس سٹرکچر میں ہلچل مچا دی اور الجھن پیدا کردی ہے۔ 40,000 کروڑ روپے کا تخمینی فائدہ یقینی نہیں ‘ اور ویسے بھی اتنا معمولی ہے کہ کوئی اثر ڈال سکے۔ نہ ہی کوئی ترغیب ہے جو خانگی سرمایہ کو بڑھاوا دے گی۔ ڈی ڈی ٹی کی برخاستگی نے بس ٹیکس کا بوجھ کمپنی سے ہٹاکر شیئرہولڈرز کو منتقل کردیا ہے۔ علاوہ ازیں‘ جب مینوفیکچرنگ میں استفادہ کی اہلیت تقریباً 70 فیصد ہو (تھرمل پاور جنریشن تنصیب پر مجموعی اہلیت کا تقریباً 55 فیصد ہے) تو نئی سرمایہ کاری کے لیے کم گنجائش رہ جاتی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ وزیر فنانس نے طلب کی کمی اور سرمایہ کی قلت سے دوچار معیشت کی ضرورتوں سے نہیں نمٹا ہے۔ نہ ہی انہوں نے برآمدات کو فروغ دینے کے ہمہ رخی اثر کو تسلیم کیا ہے۔ انہیں بس ایک انجن ’’حکومتی مصارف‘‘ پر انحصار کرنے پر مجبور کیا گیا‘ لیکن اس انجن میں بھی فیول کی کمی ہے اور مالیاتی عدم استحکام کا سایہ حکومت پر منڈلا رہا ہے۔ وزیر فنانس نے دو نہایت اہم مسائل کو بھی نظرانداز کیا ہے…بے روزگاری میں اضافہ اور ایم ایس ایم ایز کا زوال۔ حالیہ برسوں میں معیشت کو درپیش نہایت سخت چیلنجوں سے دوچار حکومت‘ جو طاقتور اور فیصلہ کن حکومت ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے‘ احمق اور بزدل ثابت ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر