وجود

... loading ...

وجود
وجود

ژوب، قدیم مندر کی حوالگی

بدھ 12 فروری 2020 ژوب، قدیم مندر کی حوالگی

ہندو اور سکھ بلوچستان کے قدیم باسیوں میں سے ہیں ۔خصوصاً ہندووئں کی یہاں کی تجارت و معیشت میں اہم کردار رہا ہے ۔ گویا یہ تعلق و وابستگی صدیوں پر مشتمل ہے ۔ صوبہ اور شہر کوئٹہ کے اندر اب بھی کئی اہم شاہراہوں جیسے گوردت سنگھ روڈ، زونکی رام روڈ،چوہڑ مل روڈ ، رام باغ اسٹریٹ، موتی رام روڈ، نتھا سنگھ اسٹریٹ، پٹیل روڈ ، پٹیل باغ دیال باغ وغیرہ ان کے ناموں سے موسوم ہیں۔ پاک افغان سرحدی شہر چمن کا نام بھی چمن داس نامی ہندو کے نام سے پڑا ہے۔اس تاجر ہی نے چمن شہر کی بنا رکھی ۔اسی طرح ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ کا نام پہلے ہندو باغ تھا۔موضوع کی تفصیل بہت طویل ہے ۔پرانے گوردوارے او رمندر صوبے کے مختلف اضلاع اور علاقوں میں اب بھی قائم ہیں۔ تقسیم بر صغیر کے وقت جہاں بڑی تعداد میں بھارت سے پاکستان مسلمانوں کی ہجرت ہوئی ، وہیں بڑی تعداد میں ہندو اور سکھوں کی بھارت منتقلی بھی ہوئی ۔اس دوران بلوچستان اور کوئٹہ سے بھی بڑی تعداد میں ہندوئوں اور سکھوں کی بھارت نقل مکانی ہوئی ۔جس کی تفصیل ہندوئوں نے اپنی تحریروں میں درج کی ہے۔ اس پس منظر میں ناول بھی لکھے گئے ہیں۔ بلاشبہ اس دوران اکا دکا ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے تھے ۔تاہم یہاں کے مسلمان باسیوں کے لیے یہ امر فخر سر بلندی کا ہے کہ جنہوں نے ان خاندانوں کی جان و مال کی حفاظت کی۔ ان کی بھارت ہجرت میں ہر ممکن ساتھ دیا۔ سکھوں کی آبادی بلوچستان یا صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے اندر نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ ہندو بڑی تعداد میں اب بھی آباد ہیں۔ مختلف پیشوں و ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ تجارت اور کاروبار ان کی پہچان ہے۔

 

سیاست کے اندر فعال ہیں۔ گویا معاشرے سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ یقینا صوبے کے اندر مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ،ادب و احترام کا رشتہ قائم ہے ۔چھ فروری2020ء کو بلوچستان کے شمال میں واقعہ ضلع ژوب کے بابو محلہ کی سو سالہ پرانا مندر ایک پر وقار تقریب کے ذریعے ہندو برادری کے حوالے کیا گیا۔ تاہم وہاں کے ہندو شہری یہ کہتے ہیں کہ مندر دو سو سال قدیم ہے ۔قیام پاکستان کے بعد جب ہندو خاندان بھارت چلے گئے، تو اس مندر کی جگہ بعد ازاں اسکول قائم کیا گیا ۔چناں چہ عدالت عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس، جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے حالیہ دورہ ژوب کے دور ان اس مندر بھی گئے تھے۔ اور مندر ہندو برادری کے حوالے کرنے کی ہدایت بھی کی تھی،کہ اسکول کہیں اور منتقل کیا جائے۔ یوں اس روز اس عملدرآمد یقینی بنایا گیا۔ ژوب کے اندر اس وقت بھی پچاس کے قریب ہندو گھرانے سکونت رکھتے ہیں۔ بقول ژوب کی اقلیتی برادری کی کمیٹی کے کہ ژوب شہر میں 1928ء کے سرکاری دستاویزات میں اس وقت چھ سے زائد مندر موجود تھے۔ جہاں بیک وقت ہندو عبادت کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہونے والی نقل مکانی کے بعد بیشتر قبضہ ہوگئے۔ ژوب کے قندہاری بازار سے متصل ایک مندر میں مدرسہ بن گیا۔ پولیس لائن کے مندر کی جگہ پر تھانہ تعمیر ہو چکا ہے ۔ تھانہ روڈ کے مندر کی جگہ سرکاری بینک کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ آرایہ سماج مندر پر بھی کوئی قبضہ کر چکا ہے ۔ حوالے کیے جانے والی مندر کی عمارت میں تیس سال قبل سرکاری پرائمری اسکول قائم کیا گیا تھا۔ جہاں اس وقت چھ سو کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔شمشان گھاٹ کی جگہ ہائی اسکول تعمیر ہوا۔ ژوب کی ہندو برادری شمشان گھاٹ کی جگہ اسکول قائم رکھنے کے حامی ہیں۔ تاہم چاہتے ہیں کہ کسی اور جگہ شمشان گھاٹ کے لیے زمین فراہم کی جائے۔جہاں تک قبضے کی بات ہے اگر ہندو آبادی موجود ہوتی تو کسی کو مندر کی عمارتیں ہتھیانے کی جرات نہ ہوتی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں مذہبی تعصب یا نفرت کی بنیاد پر یہ عمارتیں قبضہ نہیں ہوئی ہیں۔یہاں تو المیہ یہ ہے کہ لوگوں نے قبرستانوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے ۔سرکاری زمینوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ شہر کوئٹہ کے اندر تیس کے قریب سرکاری لیٹرینیں قبضہ ہو چکی ہیں۔

 

کہنے کا یہ مقصد ہے کہ مندروں کی عمارتیں بے وارث جان کر قبضہ کی گئی ہیں۔ یا سرکار نے اپنے استعمال کے لیے ہتھیائی ہیں۔ اگر ہندو افراد مجاز حکام سے رابطہ کریں گے، اور اگر فی الواقع انہیں ضرورت ہے تو یقینا وہ تمام مندر جن پر مختلف عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں واگزار کرا کے حوالے کر دی جائیں گی۔ژو ب میں سکھوں کے چند گھرانے بھی سکونت پذیر ہیں ۔اس وقت سکھوں کے گردوارے پر بھی اسکول قائم ہے ۔ شنید میں ہے کہ گوردوارہ بھی سکھوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ بلوچستان کے اندر کئی قدیم مندر موجود ہیں۔ کولپور جہاں ایک ہندو خاندان رہائش پذیر ہے ،باقی سب مختلف علاقوں کو چلے گئے ہیں۔ لیکن کولپور کا مندر اپنی جگہ نہ صرف قائم ہے بلکہ مختلف جگہوں سے ہندو جا کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ضلع لسبیلہ کے ہنگول نیشنل پارک میں ہنگلاج ماتا کا قدیم مندر موجود ہے ۔ یہ مندر بر صغیر پاک و ہند کے بڑے آستانوں میں سے ایک ہے ۔ہر سال اپریل میں ہزاروں ہندو یاتری ، مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہنگلاج مندر جاتے ہیں۔یہاں تک کہ بھارت سے بھی یاتری پہنچ جاتے ہیں۔ چند سال قبل 2006 ء اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ بھی ہنگول گئے۔ غرض حکومت بلوچستان نے ژوب کا یہ مندر ہندو شہریوں کے تصرف میں دے کر مثالی اور درخشندہ قدم اُٹھایا ہے ۔مندر حوالگی کی تقریب میں ڈپٹی کمشنر ژہب طحہٰ سلیم اور مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا اللہ داد کاکڑ جو جمعیت علماء اسلام کے رہنما بھی ہیں شرکت کی۔ مولانا اللہ داد نے ہندو شہریوں کے معتبرین کو مندر کی چابیاں حوالے کیں۔ڈپٹی کمشنر نے تقریب میں ہندو شہریوں سے مندر حوالگی میں تاخیر پر معذرت بھی کی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر