وجود

... loading ...

وجود
وجود

کرپشن کا تسلسل

منگل 28 جنوری 2020 کرپشن کا تسلسل

ملک میں تبدیلی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن کہاں کھڑی ہے اس سوال کے جواب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کی جانب سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ رپورٹ پیش کی جارہی ہے حالانکہ یہ رپورٹ بھی ابہام رکھنے کے باعث متنازعہ ہوچکی ہے ۔بہر کیف حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اپوزیشن یہ موقف رکھتی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔معاملہ کچھ یوں یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کرپشن کی شرح اور معیار کوجانچنے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی مثالی میکنزم تو رکھتی نہیںہے ،لہذا ایسے اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر کسی قسم کی حتمی رائے قائم کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتاہے ۔ایسے میں کرپشن کی صورتحال جانچنے کے لیے ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر انحصار کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک رپورٹر کسی بھی خبر کی تیاری میں جن مرحلوںسے گذرتا ہے اس سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے کسی صورت نہیں گزر سکتے اور نہ ہی وہ ایک خبر یا ایشو کو کھنگالنے میں اتنا وقت سرف کرسکتے ہیں جو کہ ایک رپورٹر کرتا ہے ۔

بہر کیف سرکاری اداروں میں کرپشن کم ہوئی ہے یا نہیں اس حوالے سے بہت سے اداروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ملک کے دو اہم ترین اداروں میں ہونے والی کرپشن کی صورتحال پیش کی جارہی ہے جن میں سے ایک وفاقی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کا ذیلی ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) ہے جبکہ دوسرا وفاقی وزارت برائے کامرس کا ذیلی ادارہ انٹیلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او ) ہے ۔ بلا شبہ یہ دونوں ادارے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیںکیونکہ ڈریپ وہ ادارہ ہے جو ادویات کے معیار کی جانچ کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوںکے تعین کی ذمہ دار ہے جبکہ آئی پی او وہ ادارہ ہے جو ٹریڈ مارکس اور کاپی رائٹس کے قوانین کے ذریعے کاروبار ی تحفظ کو یقینی بنانے کاپابند ہے ۔اس وقت دونوں اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ انھیں ایڈ ہاک ازم پر چلایا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کرپشن کا تسلسل برقرار ہے جیسا کہ ڈریپ کی جانب سے 2019میں تین مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جبکہ عوام دشمن اضافے پروزیر اعظم عمران خان اور نیب کے چیئر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے نوٹس بھی لیا گیا لیکن یہ معاملہ نوٹس سے آگے نہیں بڑھ سکا یہی وجہ ہے کہ غریب مریض آج بھی ادویات 200فیصد اضافے والی قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں ۔بہر کیف ڈریپ اور ڈرگ مافیا کا گٹھ جوڑآج بھی سلامت ہے ۔

اسی طرح آئی پی او کی صورتحال ہے جہاں کرپشن منظم انداز میں ہورہی ہے جس میں ٹریٖڈ مارکس اور کاپی رائٹس سرٹیفیکیٹس کی حامل کمپنیوں کے برانڈز کو متنازعہ بنانے کا عمل سر فہرست ہے۔ آئی پی او میں جاری اس سنگین کرپشن کی نشاندہی ہونے کے باوجود آئی پی او کے اعلیٰ حکام کرپٹ افسران کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔آئی پی او کی ٹریڈ مارکس رجسٹری اور کاپی رائٹس رجسٹری میں کرپشن اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ اب کرپٹ افسران کرپشن سے تائب ہونے کے باوجود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ آئی پی او کی ان دونوں رجسٹریوں میں موجود ایجنٹس مافیا اس قدرطاقتور ہوچکی ہے کہ وہ افسران کو بلیک میل بھی کرنے لگی ہے ۔یہاں صرف دو اداروں کی صورتحال بیان کی گئی ہے جہاں کرپشن تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس کے خاتمے کے لیے حکومت اور متعلقہ ادارے کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومتی ترجیحات کیا ہوسکتی ہیں جبکہ وہ غریب مریض کو سستا علاج معالجہ اور تاجر کو کاروباری تحفظ دینے میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ تو بہت دور کی بات معلوم ہوتی ہے ۔

بہرکیف یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست ایک بار پھر قیاس آرئیوں اور چہ میگوئیوں کے مدار کے گرد گھومنے لگ پڑی ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں۔۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے کی بات ہے تو اس حوالے سے یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے کے لیے از خود کوئی کوشش نہیں کررہی ہیں اس کے لیے وہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مخصوص حالات کو ہی حکومت کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی یا نہیں اس حوالے سے اب تک کی صورتحال انتہائی مایوس کن منظر پیش کررہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تبدیلی سرکار ایک ایسی مخلوط حکومت بن کر رہ گئی ہے جس سے اس کے اتحادی ہی نہیں بلکہ اس کی اپنی جماعت کے لوگ بھی ناراض ہوتے جارہے ہیں ۔ بہر کیف تبدیلی سرکار اندرونی طور پر بہت سے بحرانوں کا شکار ہے جس میں حکومت کی بقاء سر فہرست ہے ایسے میں یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہاہے کہ ایک ایسی حکومت جو صحیح معنوں میں اب تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے تو پھر ایسی حکومت سے عوام کو ریلیف ملنے اور کرپشن کے خاتمے کی توقع کیونکر کی جارہی ہے۔رہی بات حکومت کے قبل از وقت گھر جانے کی تو یہ کسی کے بھی بس میں نہیں ہے اس کا فیصلہ تو ہر صورت عوام نے ہی کرنا ہے جبکہ عوام تو اس وقت بھی ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے کہ تبدیلی سرکار اس کے ہاتھوں میں خوشحالی کا پیغام کب تک تھماتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر