وجود

... loading ...

وجود
وجود

آٹا، میڈیا اور عمران خان

بدھ 22 جنوری 2020 آٹا، میڈیا اور عمران خان

دسمبر کا مہینہ لوگوں پر شاعری کی آمد بن کر آتا ہے۔جسے دیکھو شعر کہہ رہا ہوتا ہے جو لوگ شعر نہیں کہتے وہ دسمبر کو موج مستی یا پھر لحاف میں گھس کر انجوائے کرتے ہیں۔۔ یہ مہینہ گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کے لیے بھی بہت مشہور ہے۔شاید اسی لیے جناب شیخ رشید صاحب آٹے کی قلت وہ تاریخی جملہ کہہ گئے جو پورے ملک میں فلو کی طرح وائرل ہوگیا۔ جملہ تھا کہ نومبر دسمبر میں لوگ روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں۔اس جملے پر بڑا طوفان مچا۔۔لوگوں نے شیخ صاحب کو صلواتیں سنائیں۔پڑھنے کی حد تک یہ بڑا ہی واہیات جملہ تھا۔ میں نے بھی پڑھا تو مجھے عجیب سا لگا، کسی نے اس جملے کو غریبوں کا مزاق اڑانے کے مترادف قراردیا۔ تو کسی نے اسے آٹا بحران پر بے حسی سے تعبیر کیا۔لیکن یہ جملہ جب میں نے ویڈیو میں سنا تو اس کا پیرایا مختلف نظر آیا، یعنی اس جملے میں بظاہر کسی کی تحقیر نہ تھی ، بلکہ ازراہ مذاق روانی میں کہا گیا تھا جسے صحافیوں سمیت حاضرین نے انجوائے بھی کیا۔تاہم جب اس جملے کو لکھ کر رپورٹ کیا گیا تو یہ کچھ کا کچھ بن گیا۔ یہاں ہمارا مقصد شیخ رشید کی ترجمانی نہیں، بلکہ یہ بھی بتانا ہے کہ میڈیا کس طرح الفاظ کا اصل ماخذ بتانے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔لیکن میڈیا کے کرتا دھرتا اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

12 سال قبل ہم نے اپنے باسز کو تجویز دی کہ ٹکرز میں اسمائیلی ، سیڈ اور اینگری آئکن وغیرہ بھی ایڈ کردیئے جائیں تو جملے کی اصل کیفیت ناظرین پر ویڈیو کے بنا بھی آشکار ہوجائے۔ (کیونکہ ہر خبر کی ویڈیو دستیاب نہیں ہوتی)۔ مثال کے طور پر شیخ رشید کے ٹکر اور خبر کوسنجیدہ بیان کی صورت میں چلایا گیا، جس سے لوگوں کو تعجب ہوا۔ اگراس واقعے کی ویڈیو دستیاب نہ ہوتی تو لوگ یہی سوچتے رہ جاتے کہ کس قدر افسوسناک بیان تھا۔ایسے ٹکرز کے آگے لگا آئکن اس جملے کی کیفیت کی وضاحت کرسکتا ہے۔(یہ بات تو جملے کی کیفیت کی وضاحت سے متعلق میڈیا کی ذمہ داری کے حوالے سے تھی، رہی بات آٹا بحران کی، تو اس میں ایک فیصد بھی شک نہیں کہ یہ سراسر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

خیر۔۔آئکنز والی اس تجویز کو ابھی ایک طرف رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ٹی وی تو اصل میں ویڈیو اور آڈیو کا نام ہے۔اس ویڈیو میں ایسی ایسی باتیں اور حرکتیں محفوظ ہوجاتی ہیں جو دنیا کی کسی ربڑ سے مٹائی نہیں جاسکتیں۔اور کسی ٹیکنالوجی سے اسے لوگوں کے دماغ یا میموری کارڈ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی ہی ایک حرکت وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے بھی ہوگئی۔۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو کے دوران جوتا پیش کردیا۔ جوتا بھی ایک خاص ادارے کا تھا۔واوڈا کا خیال تھا کہ ان کی اس حرکت پر انہیں بہت ثواب ملے گا اور سیاست اوردنیا سدھر جائے گی، لیکن ان کا یہ دماغی فتورفوراً ہی رفع ہوگیا۔اپوزیشن نے تو واوڈا کو لفظوں کے جوتے لگائے ہی ، حکومت نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے واوڈا کے ٹی وی شوز میں 15 دن تک جانے پر پابندی لگادی۔ جبکہ پیمرا نے وہ ٹی وی شو 60 دن کے لیے بند کرکے اینکر کو بھی گھر بیٹھنے کا کہہ دیا۔ فیصل واوڈا جیسے لوگوں کو دیکھ وہ تاریخی جملہ کبھی کبھی سچ لگنے لگتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

موجودہ پارلیمانی جمہوریت کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں دولت مند طبقہ ہی الیکشن لڑنے کا سوچ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے صنعتکار، سابق بیورو کریٹس ، اور جاگیردار ہی میدان سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے صنعتکار اور سابق بیورو کریٹس وہ طبقہ ہیں جن میں سے بیشتر جب میدان سیاست میں آتے ہیں تو اپنے فائدے اور کاروبار کو ترقی دینے کے حوالے سے اقدامات کرتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ نیک لوگ ملک کی ترقی کے لیے بے چین ہیں۔ ان لوگوں کے دور میں وائٹ کالر کرائنمز کو فروغ ملتا ہے۔ جبکہ الیکشن لڑنے والے تیسرے اور سب سے بڑے طبقے یعنی جاگیرداروں میں ہر چیز کو اپنی جاگیر سمجھنے کی خطرناک عادت اور شہریوں کو اپنا غلام سمجھنے کا ذہنی مرض بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔لہذا جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو اختیارات کا اندھا دھند استعمال دیکھنے میں آتا ہے اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کو فروغ ملتا ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ جاگیر داری سے سیاست میں کوچ کرنے والوں کی اکثریت کے ذہنوں کو تعلیم بھی بدل نہیں پاتی اور وہ سیاست کو صرف اپنا پیشہ یا کئی کاروباروں میں سے ایک اور کاروبارسمجھتے ہیں۔اول الذکر دو طبقات کے لیے ہم نون لیگ اور پی ٹی آئی کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔جبکہ آخرالذکر طبقے کے لیے پیپلز پارٹی کی مثال موجود ہے۔

شاید اسی لیے اب بہت سے لوگ موجودہ پارلیمانی نطام جمہوریت کو سرے سے مٹا کر ملک میں صدارتی نظام اور متناسب راہے دہی سے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی بات کررہے ہیں۔ان تجاویز کو ہمیشہ پڑھے لکھے طبقے میں مقبولیت ملتی ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے اس حوالے سے ا?ج تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کو ملک کا نظام بدلنے سے نہیں بلکہ سیاست میں کسی بھی طرح اِن رہنے سے دلچسپی ہے۔

خیر بات آٹے کی مہنگائی سے شروع ہوئی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سراسر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے۔کہ ملک میں آٹے کی قیمت میں لگ بھگ دس سے گیارہ روپے کا اضافہ ہوگیا۔میڈیا نے اس پر بہت شور مچایا۔ یہ ہمیں اچھا لگا، کیونکہ اس سے حکومت کو بھی ہوش آیا، لیکن بات پھر صحافتی اقدار کی آتی ہے۔میڈیا شاید یہ بتانے میں ناکام رہا کہ ملک میں آٹے کی قلت کا مسئلہ اتنا نہیں دیکھا گیا، آٹا بدستور دستیاب رہا، البتہ اس کے دام بڑھتے گئے۔دستیابی اس قدر تھی کہ آپ اگر ایک کی جگہ دس تھیلے بھی خریدنا چاہیں تو دکاندارکو کوئی عار نہ تھا۔ مسئلہ سارا بدانتظامی اور نااہلی کا بھی تھا،ایسے میں افواہوں کا بازار بھی مارکیٹ پر کسی چیز کی قلت سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے،میڈیا کو اس طرف بھی سوچنا ہوگا۔لیکن یہ سوچے گا کون؟ میڈیا تو اس وقت روزانہ کی بنیادوں پر اشوز کو نبٹانے کا نام رہ گیا ہے۔یہاں کام کرنے والے لوگ اڈیٹوریل کلرکی سے ذیادہ کچھ نہیں کررہے۔۔

آٹے کی مہنگائی کے مارے عوام کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اس سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصداضافہ ہوگا۔۔یہ اضافہ اس پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یکسانیت لانا مقصود ہے۔ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنا وہی مسئلہ بیان کردیا جو ہر عام آدمی کا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ تنخواہ میں ان کا گھر نہیں چل پاتا۔ تاجروں سے خطاب میں ان کا کہنا تھا انہوں نے اقتدار میں آکر فیکڑیاں نہیں بنائیں ،انہوں نے گھر کی سڑک اپنے پیسے سے بنائی، وزیر اعظم ہاؤس کے بجائیوہ اپنے گھر میں رہتے ہیں، اور جو تنخواہ انہیں ملتی ہے اس سے ان کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔خیر اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں تنخواہ میں کسی کے گھر کا خرچہ نہیں چل سکتا۔ عمران خان نے کوئی فیکٹری نہیں لگائی۔۔یہ بات بھی ٹھیک ہی ہوگی۔لیکن ان کے دور حکومت میں ان کے ساتھیوں نے کیا بنایا، یہ ضرور سامنے آرہا ہے۔ساتھ ہی عمران خان ایماندار ہونے کے باوجود عوام کے لیے کیا ثابت ہوئے ہیں۔یہ بھی عوامی رائے عامہ میں واضح نظر آنے لگا ہے۔کپتان صاحب۔۔کچھ سوچنا تو پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر