وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا نے قاسم سلیمانی کو کیوں قتل کیا؟

پیر 13 جنوری 2020 امریکا نے قاسم سلیمانی کو کیوں قتل کیا؟

عراق میں ایرانی القدس بریگیڈ کے کمانڈرجنرل قاسم سلیمانی کی امریکیوں کے ہاتھوں ہلاکت نے نہ صرف پورے خطے بلکہ خطے سے باہر تک کے علاقے میںایک مرتبہ تو بڑی جنگ کا طبل بجا دیا۔ بظاہر امریکیوں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شمالی عراق میں قاسم سلیمانی کی تربیت یافتہ شیعہ ملیشیا نے امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے جس کے جواب میں جب امریکانے کارروائی کی تو اس میں بہت سے ملیشیاکے ارکان مارے گئے تھے جس کے ردعمل کے طور پر بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر عوام کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں ایک ’’امریکی ٹھکیدار‘‘ مارا گیا۔ امریکیوں کے دعویٰ کے مطابق بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کی منصوبہ بندی بھی قاسم سلیمانی نے کی تھی اس لیے امریکانے انتقام لینے کے لیے انہیں میزائل کا نشانا بنایا۔ امریکیوں نے بغداد میں اپنے ٹھیکیدار کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے لیکن یہ ٹھیکیدار تھا کون؟کیونکہ جنگ زدہ علاقوں میں جتنے بھی امریکی ٹھیکیدار ہوتے ہیں وہ زیادہ تر سی آئی اے کے افسران اور ایجنٹ ہوتے ہیں جو ٹھیکیداری کے کور میں اپنی تخریبانہ کارروائیاں کرتے ہیں جیسے پاکستان میں ریونڈ ڈیوس تھا جس کے پیچھے تمام سی آئی اے آکر کھڑی ہوگئی تھی۔

 

دوسری حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا نے اس قاسم سلیمانی کو قتل کیوںکیا ؟ جو ماضی میں خودامریکیوں کے ساتھ مل کرکام کرتا رہا تھا، عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے دوران بھی امریکا کو اس کی معاونت ایران کی جانب سے حاصل رہی تھی۔ قاسم سلیمانی کا شمار ایران کی روحانی شخصیت آیت اللہ خامنائی کے بعد طاقتور ترین شخصیات میں ہوتا تھا ۔وہ ایران میں کبھی نہیں روکے بلکہ انہوں نے ایرانی کی جنگیں ایران سے باہر جاکر لڑیں عراق، شام اور لبنان تک انہیں مکمل رسائی حاصل تھی لیکن بہت کم حلقے ایسے ہوں گے جنہیں یہ معلوم ہوگا کہ قاسم سلیمانی کی افغانستان میں بھی نقل وحرکت تھی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کے شمالی اتحاد کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے ۔۔۔۔ جس وقت امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس وقت ایران کے دونوں جانب یعنی ایک طرف افغانستان میں ایران مخالف طالبان حکومت تھی جبکہ دوسری جانب ایک اور ایران مخالف صدام حکومت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے ایران کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دونوں خطوں میں ایران سے مدد مانگی جو اسے مہیا کی گئی لیکن جب افغانستان کے بعد عراق بھی امریکا کے ہاتھوں سے پھسلنے لگا تو امریکا نے جان بوجھ کر عراق میں ایران کو رسائی مہیا کی ۔

 

عراق کا جنوبی علاقہ چونکہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے اس لیے وہاں سے ایران مزید آگے تک اپنا رسوخ بڑھاتا چلا گیا۔ یہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے فرقہ واریت پر مبنی خطے میںایک بڑے خوفناک کھیل کی ابتدا تھی جو جیسا کہ ہم نے بعد میں دیکھا کہ بات صرف عراق تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ سلسلہ شام تک دراز ہوا کیونکہ داعش کی شکل میں ایک سنی تحریک کھڑی کی گئی تھی جس نے پہلے شمال سے طوفانی پیش قدمی کی اور بغداد کے دروازوں تک آن پہنچی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی وقت بھی اس تحریک کا بغداد پر قبضہ ہوجائے گا لیکن اس کے بعد عراق میں موجود شیعہ ملیشیاوں نے امریکی جنگی طیاروں کی چھائوں میںشمال کی جانب پیش قدمی کی اور موصول تک پہنچ گئیں، دوسری جانب شمالی شام میں داعش کا قبضہ ہوگیا تو بشار حکومت کا دمشق میں اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگا جسے سہارا دینے کے لیے لبنان اور عراق کی حزب اللہ نے کارروائیاں شروع کیں یوں ایک طرح سے اس جنگ نے فرقہ ورانہ شکل اختیار کرلی اور شیعہ سنی جنگ کی شکل اختیار کرگئی یہی وہ نتائج تھے جو عالمی دجالی صہیونیت چاہتی تھی۔ اس جنگ میں روس بھی کودا تو دوسری جانب سے ترکی نے بھی اپنے فوجی دستے داخل کردیے، امریکا پہلے سے موجود تھا یوں شام سے لیکر یمن تک مشرق وسطیٰ آگ اگلتا آتش فشاں بن گیا۔ لاکھوں مسلمان مار دیے گئے لاکھوں جلا وطن ہوکر ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

 

اس ساری صورتحال میں مشرق وسطیٰ تک تو نتائج امریکا اور اسرائیل کے مطابق نکل رہے تھے لیکن دوسری جانب افغانستان میں معاملہ الٹ تھا یہاں ہر گزرتا ہوا دن امریکا کے لیے عسکری رسوائیوں کا نیا پیغام لا رہا تھا۔ امریکا نے اپنے صہیونی دجالی اتحاد نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تھا مقصد یہ تھا کہ یہاں طالبان کو مکمل شکست فاش دینے کے بعد کابل میں اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں مستقل امریکی فوج رہے گی جس کے لیے یہاں بہت سے فوجی اڈے بنائے گئے تھے ۔اس کے بعد پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا صفایا گیا جائے گا چین کے سامنے بھارت کو بھی کھڑا کرکے اس کی اقتصادی اور عسکری پیش قدمی کو لگام دی جائے گی یوں مشرق وسطیٰ سے لیکر وسطی اور جنوبی ایشیا تک امریکی اقتدار کا پرچم لہرائے گا لیکن یہ سارا معاملہ اس وقت الٹا پڑ گیا جب افغان طالبان نے امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے دانت کھٹے کردیے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ امریکا افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔اس دوران ایران کو بھی احساس ہوچکا تھا کہ افغانستان کا کھیل امریکا کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور افغانستان میں مستقبل کی حکومت صرف افغان طالبان ہی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینی بات تھی کہ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے ایران کو بھی دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے افغان طالبان سے راہ رسم بڑھانے تھے۔

 

بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ قاسم سلیمانی نے 2012ء سے ہی افغانستان میںطالبان کے ساتھ مراسم پیدا کرنا شروع کردیے تھے گزشتہ دنوں افغان طالبان اور ایران کے درمیان جو کامیاب مذاکرات ہوئے ہیں ان مذاکرات کو منعقد کرانے میں بھی قاسم سلیمانی کا کلیدی کردار تھا یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجی دستوں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے انہیں کہا گیا ہے کہ وہ نقل وحرکت کے دوران احتیاط سے کام لیں اس کے ساتھ ساتھ شمالی افغانستان میں تو بہت ہی زیادہ احتیاط کی جائے ۔ قاسم سلیمانی نے سابق طالبان لیڈر ملا اختر منصور کو ایرانی لیڈروں سے ملانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد سے افغان طالبان اور ایرانی انتظامیہ کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں دور ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ملا عبدالغنی کی سربراہی میں ایک طالبان وفد نے تہران کا دورہ کیا تھا جس کے دوران طالبان وفد اور قاسم سلیمانی کے درمیان طویل مذاکرات بھی ہوئے تھے ، یاد رہے شمالی اتحاد اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں بھی قاسم سلیمانی مرکزی کردار ادا کرتے رہے یوں طالبان جنگجوئوں کی رسائی شمالی افغانستان تک مزید آسان ہوگئی تھی۔اس کے علاوہ ایسی خبریں بھی سننے کو ملیں کہ افغان طالبان اپنی ضرورت کا اسلحہ شمالی افغانستان کے علاوہ ہرات میں ایرانی سرحدکے قریب لگنے والی اسلحہ مارکیٹوں سے بھی خریدتے ہیں لیکن اب چونکہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں دور ہوچکی تھی اور فاصلے تیزی کے ساتھ سمٹ رہے تھے تو یقینی بات ہے کہ افغانستان طالبان کو اسلحے کے حصول کے لئے مزید آسانی میسر آجانی تھی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر