وجود

... loading ...

وجود
وجود

بی جے پی اِقتدار زوال کی جانب (غضنفر علی خاں)

پیر 06 جنوری 2020 بی جے پی اِقتدار زوال کی جانب   (غضنفر علی خاں)

جھارکھنڈ الیکشن کے بعد اب یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے عروج کے دن ختم ہورہے ہیں اور جب کسی پارٹی کے عروج کے دن ختم ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی زوال کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ بی جے پی کا گراف گرتے جارہا ہے لیکن دستوری ترمیمی بل اور بی جے پی کے ووٹ بینک میں کمی اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خود اس پارٹی کو اپنی غلط پالیسیوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے ، پارٹی کو اقتدار پر آئے ہوئے چھ سال کا عرصہ ہوچکا لیکن غلط وقت پر غلط فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کررہا ہے کہ اس نے بی جے پی کو اقتدار دے کر بڑی زیادتی کی ہے ۔ یہ پارٹی کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنی بے راہرو پالیسیوں کیلئے ذمہ دار ٹھہرائی جائے گی، اس کا تازہ فیصلہ جو عوام پر راست طور پر اثرانداز ہوا ہے ، وہ شہریت قانون کے لاگو کرنے کا فیصلہ ہے ۔ اس فیصلے کے خلاف ملک کے عوام بلالحاظ مذہب و علاقہ احتجاج کررہے ہیں۔ اس احتجاج میں حکومت کو زبردست مالی خسارہ ہورہا ہے ۔ جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں، اگر یوں ہی یہ سلسلہ جاری رہا تو صورتحال اتنی ابتر و بھیانک ہوجائے گی کہ بی جے پی حکومت کو سخت اقدامات کرنے پڑیں گے ۔ اس بار بھی وہی غلطی کا اعادہ کیا جارہا ہے جو اس سے پہلے کے فیصلوں کے وقت کیا گیا تھا۔ نوٹ بندی نے اتنا اثر کیا کہ پارٹی کے ووٹ بینک میں خاصی کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس حکومت کا یہ دوسرا دور ہے ۔2019ء کے اواخر میں جو عام انتخابات ہوئے ، اس سے پارٹی کو یہ اندازہ ہوجانا چاہئے تھا کہ عوام اب اس کے بے وقت اور غلط فیصلوں سے تنگ آچکے ہیں۔ وزراء کے انتخاب میں بھی وزیراعظم مودی نے عوام کے موڈ کو نہیں سمجھا۔ وزارت داخلہ جیسی اہم قلمدان ایسے شخص کو سونپ دی جو اپنے اقتدار کے غلط استعمال کے لئے شہرت رکھتا ہے ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے ذمہ دار امیت شاہ اس وقت ملک کی داخلی صیانت کے ذمہ دار ہیں۔ دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں چیف منسٹر کا عہدہ ایسے شخص کو دیا گیا جو انتقامی سیاست پر یقین رکھتا ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے آج اترپردیش کو عملاً پولیس ریاست میں تبدیل کردیا ہے ، جہاں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دے جاسکتی، کابینہ کے وزراء کچھ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں اور ان تمام کی کوشش مسلم اقلیت کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی ایک مخصوص ذہن و فکر رکھنے والی پارٹی ہے جس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے ۔ آر ایس ایس اپنی مسلم دشمنی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس خرابی کے باوجود اس کا ڈھانچہ کافی مضبوط ہے اور بی جے پی کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے اسی پارٹی کا ہاتھ ہے ۔ صرف مسلمانوں سے دشمنی کی بات تک محدود نہیں ہے ۔ آج ملک کی تمام اقلیتیں و کمزور طبقات یہ محسوس کررہے ہیں کہ سکیولر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تحفظ ختم ہوگیا ہے چونکہ مسلمان ہندو آبادی کے بعد سب سے بڑی اقلیت ہے ، اس لئے آر ایس ایس اور بی جے پی انہیں (مسلمانوں کو) سبق سکھانا چاہتی ہے ، یہ وہ مسلمان جنہوں نے اپنی پسند سے ہندوستان میں 1947ء میں ملک کی تقسیم کے سانحہ کے بعد اپنے وطن یعنی بھارت کو چھوڑنے سے انکار کردیا تھا اور وہ مسلمان جو تقسیم کے قائل تھے اور دو قومی نظریات کے حامل تھے ، وہ ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے ۔ وہ (مسلمان) جو ہندوستان میں رہے ان کی اس ملک کیلئے بے شمار خدمات ہیں۔ صرف تقسیم کی بات نہیں بلکہ جب سے مسلمان ہندوستان میں آئے تب ہی سے ان کی خدمات، قربانیاں، جانثاریاں ہوتی رہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ملک کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے کوئی خدمات انجام نہیں دیں بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ خلافت کی تحریک سے لے کر آزادی کے حصول تک مسلسل مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات رہیں، ان خدمات میں ہمارے علمائے کرام، دینی مدرسہ و دیگر کی شمولیت رہی۔ دوسری طرف میدان جنگ میں بھی مسلمانوں نے اپنی گردنیں کٹوائی۔ کیپٹن عبدالحمید نے جان دے کر سرحد کی حفاظت کی تو محمد حنیف نے اپنی چوکی کو دشمن کے حملوں سے بچانے کیلئے سخت جدوجہد کی اور بالآخر اپنی جان کی بازی لگادی ۔ مسلمان کبھی وفاداری کا دامن نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ وطن سے محبت ان کے خمیر میں شامل ہے ۔ دفاعی اُمور کو خفیہ انداز میں دشمنوں تک پہنچانے کا کام ہم نے انجام نہیں دیا۔ ہم نے کبھی کوئی شادی رام پیدا نہیں کیا، آج بھی جدید دور میں جتنے بھی اسکینڈلس ہورہے ہیں، ان میں کوئی مسلمان نہیں پکڑا گیا۔ اس لئے اٹوٹ وفاداریوں کے بعد اگر بی جے پی کے چند لوگ یا ساری کی ساری بی جے پی نیت پر شبہ کرتی ہے تو وہ گمراہ کن ہے ۔ ہمیں اپنی وطن دوستی کا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمان وفادار تھے ، ہیں اور رہیں گے ۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود بی جے پی حکومت مسلمانوں سے مسلسل نفرت کی پالیسی پر عمل کررہی ہے ۔ جبکہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اس لعنت میں گرفتار نہیں ہے ۔ مسلم ووٹ بی جے پی کو کبھی نہیں گیا اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے حالانکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ نظریہ ہے کہ صرف وہی ملک دوست ہے جو ان پارٹیوں کو اپنا ووٹ دیتا ہے ۔ یہ نظریہ عوام میں گزشتہ 70 سال سے مسترد کردیا ہے اور یہ دونوں پارٹیاں اسی ناقابل عمل نظریہ کو سارے ملک پر نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ ہندوتوا یا ہندو راشٹر اس ملک میں کبھی نہیں پنپ سکتا کیونکہ ہندوستانی قوم کے خمیر میں ہے کہ وہ وسیع النظری، وسیع القلبی کے ساتھ ملک کی ترقی میں حصہ لینا چاہتے ہیں ، وہ نظریہ جس کو قوم کی اکثریت تسلیم نہیں کرسکتی، اس کا نفاذ بھی اتنا ہی مشکل ہوتا ہے ، ایسی چند نہیں بلکہ سینکڑوں غلطیوں کی وجہ سے بی جے پی کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت بی جے پی کے لیڈرس اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں، اس مقبولیت کے حامل ہیں جبکہ دوسری کسی پارٹی میں ایسی عوامی مقبولیت رکھنے والی کوئی شخصیت موجود نہیں ہے ، اب تک بھی بی جے پی نے جو اقتدار حاصل کیا، اس میں سب سے زیادہ عمل دخل مودی کی شخصیت کا رہا ہے ، لیکن خود مودی نے اس مقبولیت کا صحیح اندازہ نہیں کیا، اب چھ سال بعد عوامی شعور جاگا ہے اور اتفاق سے بکھری ہوئی اپوزیشن نے بھی شعور کا دامن تھاما ہے ۔ اپوزیشن کا اتحاد اور ان کا یکجا ہونا ایک فال نیک ہے لیکن جب تک کہ اس اتحاد کو دائمیت نہیں دی جاتی، اس کا وہ اثر ہندوستانی سیاست پر نہیں پڑے گا جس کی توقع کی جارہی ہے ۔ جھارکھنڈ، مہاراشٹرا کی مثالیں سامنے ہیں، جہاں مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں نے متحد ہوکر بی جے پی کو شکست دی حالانکہ ان پارٹیوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ کسی حد تک وہ مختلف بھی ہیں کہ ان کا یکجا ہونا ایک کرشمہ سے کم نہیں۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا اور کوئی علاج نہیں، اپوزیشن پارٹیاں اگر اس نکتہ کو سمجھ جائیں اور اپنی صفوں میں اسی طرح کا اتفاق برقرار رکھیں تو آئندہ بھی انہیں کامیابی مل سکتی ہے ۔ بی جے پی اپنے اقتدار کے نشہ میں اسی طرح غلط فیصلے کرتی رہے گی تو اس کا ووٹ بینک سکڑتا جائے گا۔ اپوزیشن کو اس بات پر زور دینے کے بجائے خود اپنے کام سے عوام کو اپنی جانب راغب کروائیں بلکہ بی جے پی کی خامیوں و خرابیوں کا دن رات ذکر کرنے کے بجائے اگر اپوزیشن عوام کے سامنے کوئی مفید مشترکہ پروگرام پیش کرے جس کو سیاسی اصطلاح میں اقل ترین مشترکہ پروگرام کہا جائے گا تو آئندہ چند برسوں میں بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے کیونکہ بی جے پی سے بیزارگی کے آثار نمودار ہوچکے ہیں۔ 2020ء کی فضاء بھی حوصلہ افزاء نہیں ہے اور بی جے پی ایسے سیاسی مرحلہ میں ہے جس میں وہ نہ تو ہندوتوا کے قیام کے نعرے سے دستبردار ہوسکتی ہے اور نہ اپنی امیج کو بہتر بناسکتی ہے اور بی جے پی کو ان مسائل کے علاوہ اور کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ وہ اپنے محدود پروگرام اور مخصوص پالیسیوں کے حصار میں گھری ہوئی ہے جن سے اس کی آزادی ممکن نہیں ہوپارہی ہے ، یہی چیز بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر