وجود

... loading ...

وجود
وجود

این آر او کے لطیفے (شعیب واجد)

جمعرات 02 جنوری 2020 این آر او کے لطیفے (شعیب واجد)

کوئی ازراہ مذاق کہہ رہا تھا کہ انچاس کروڑ کی کرپشن کرلو کیونکہ نیب اب پچاس کروڑ والوں کوہی پکڑے گا۔۔بات مزاق کی تھی لیکن مزاق تو بنے گا،معاملے کی گہرائی کسی کو پتا ہو یا نہیں ،یہ سوشل میڈیا کا دور ہے،اور اس دور میں جو لطیفہ پہلے ہٹ ہوجائے وہی حقیقت سمجھا جانے لگتا ہے۔تو بات ہورہی ہے ، حکومت کے پیش کردہ نئے ترمیمی نیب آرڈیننس کی۔ اس معاملے سے جڑے تمام معاملات لطیفوں سے کم نہیں ہیں، چاہے وہ حکومت کے ہوں یا اپوزیشن گے۔۔ بقول شاعر

میرے لفظوں کا مزاق اڑایا تم نے اس قدر
اب میں اشعار نہیں صرف لطیفے سناتا ہوں

ایک اور لطیفہ سامنے یہ آیا کہ آرڈیننس کا اعلان ہوتے ہی نون لیگ کی ترجمان کا بیان آگیا، مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ تو غضب ہوگیا، نیا این آر او ہوگیا ، لوگوں کو چھوڑا جائے گا، کرپٹ لوگوں کو نوازا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ پتا نہیں لطیفہ تھا یا فلیتہ۔ لیکن قسم سے کئی لوگوں کو ہنسی آنے لگی، نون لیگ کا نیب سے متعلق وہ موقف یاد آنے لگا، کہ نیب حد سے تجاوز کررہا ہے، نیب کو حدود میں رکھا جائے، اس کے پر کاٹے جائیں ، فلاں معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، فلاں کیس میں نیب نے ذیادتی کی۔ فلاں کیس محض سیاسی انتقام کے لیے بنایا گیا، ورنہ وہ نیب کا تودائرہ اختیار ہی نہیں تھا، اس طرح کی دل سوز صدائیں نون لیگی کیمپس سے بلند ہوتی رہتی تھیں۔اور اگر دیکھا جائے تو یہ موجودہ آرڈیننس دراصل نون لیگ کے بیشتر مطالبات کی ہی منطوری نظر آتاہے، لیکن کیا کیجئے۔ کہ وہ بے چاریاپوزیشن میں ہیں نا اور ہمارے سیاسی بچوں کو پڑھایا اور سکھایا یہ جاتا ہے کہ اپوزیشن کا کام صرف رونا اور گانا ہی ہوتا ہے۔اپوزیشن میں آکر سلام کا جواب بھی ہجے کی غلطی نکال کردیا جاتا ہے۔

 

خیر اس معاملے سے جڑے لطائف جاری ہیں۔ ہوا یہ کہ جیسے ہی نون لیگ نے اسے این آر او قرار دیا تو پہلے تو چوہان صاحب کا طنزیہ بیان آگیا کہ بی بی جی، آرڈیننس انگریزی میں تھا، اس کا اردو ترجمہ توپڑھ لیا ہوتا۔ اور پھر رہی سہی کسر اپنے آزاد میڈیا نے نکال دی،فوراً ہی ایک لسٹ آن ایئر کردی جس میں بتایا گیا کہ نئے آرڈیننس سے نواز، شہبازاور حمزہ شریف، ساتھ ہی شاہد خاقان، سعد رفیق، احسن اقبال اور کئی دیگر لیگیوں اور لیگی حمایت یافتہ زیر عتاب بیورو کریٹس کو فائدہ ہوگا۔ اب اللہ جانے اس فائدے کو سوئم کی بریانی سمجھ کر قبول کرلیں گے یا پھر اسے بدعت قرار دے کر کھانے سے انکار کردیں گے۔ اور جیل میں رہ کر اعلان کریں گے کہ ہمیں این آر او کا داغ قبول نہییں۔ہم جیل سے نہیں نکلیں گے۔۔خیراس بارے میں نون لیگ کا آگے جاکر جو موقف ترتیب پانے والا ہے اصل میں تو پبلک کو اس کا انتظار ہے۔
لطیفے ابھی ختم نہیں ہوئے ، پیپلز پارٹی نے بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پر پہلے روز تو بھرپور غم و غصے کا اظہار کیا، کہا کہ نیازی نے اپنی دوستوں کو بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے، مزید کہا کہ سینیٹ میں اس قانون کا راستہ روکیں گے۔ لیکن اگلے روزبلاول نے تنقید کے انداز میں اس پر شاید خوشی کا اظہار کردیا، کہا لگتا ہے پی ٹی آئی نے ان کے والد کی بات سمجھ لی ہے جو کہتے تھے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ان کی خوشی کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی،خبروں میں اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے جن افراد کے نام شامل ہیں ان میں ان کے والد حضوربھی شامل ہیں۔ بلکہ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیسز سے منسلک کئی دیگر افراد بھی نیب کے دائرے سے نکلنے والے ہیں۔ پی پی کے یوسف گیلانی،راجہ پرویز سمیت کئی دیگر رہنما بھی اس مستفید ہونے والوں کی مبینہ ممکنہ فہرست کا حصہ بتائے جارہے ہیں۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود بلاول جنہیں جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کو کئی سوالات پر مطمئن کرنا ہے دیکھتے ہیں وہ اس بریانی کو کو کیسے قبول کرتے ہیں۔لیکن اس پر لطیفہ یہ کہ ان کی جماعت کے اہم رہنما قمر زمان کائرہ نے اس قانون کو مدر آف این آر او قرار دیدیا ہے۔۔اب کوئی ان سے پوچھے اگر یہ مدر ہے تو مشرف کا این او شاید فادر ہوگا جسے ان کی رہنما بے نظیر بھٹو نے باقاعدہ ڈیل کے تحت قبول کیا تھا۔۔

خیر۔ تو بات لطیفوں کی ہورہی ہے تو فواد چوہدری کو کیسے بھولا جائے۔ یہ سائنس کا کمال ہے کہ ہمارے ملک میں فواد چوہدری وزیر سائنس ہیں۔کہتے ہیں نیب اور ایف آئی اے کو ملا کر ایک نیا ادارہ بنادینا چاہیئے۔۔اس موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ہے کہ امریکا میں بھی ان کاموں کے لیے ایک ہی ادارہ ہے یعنی ایف بی آئی۔ اور بھارت میں بھی ایک ہی ادارہ ہے یعنی سی بی آئی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نیا ترمیمی آرڈیننس کوئی این آر او نہیں ہے، فردوس عاشق اعوان کے مطابق اگر یہ این آر او ہوتا تو اپوزیشن چیخیں نہ مار رہی ہوتی۔ یعنی اس کا مطلب یہ نکالا جائے کہ اگر اپوزیشن کی چیخیں نکل رہی ہوں تو وہ کام ٹھیک ہوا ہے۔لیکن کوئی انہیں یہ بھی بتائے کہ پتا تو کرلیں کہ کہیں یہ خوشی کی چیخیں نہ ہوں۔

لیکن معاون خصوصی نے خود ہی آگے مزید شبہ طاہر کردیا کہ یہ خوشی کی چیخیں بھی ہوسکتی ہے، یعنی اس معاملے کی تازہ اپ ڈیٹ یہ ہے کہ سال کے آخری روز یعنی پیر 31 جنوری کو کابینہ کا اجلاس ہوا۔ جس کی بریفنگ دینے کی ذمہ داری کے دوران ان کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس پر اپوزیشن کیلوگ اندر سیخوش ہیں اور بینفشری باہر باہر سے شورمچا رہے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ نیب آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش ہونیجارہاہے ، اورپارلیمنٹ کی مہرکے بعد ہی یہ قانون بنیگا۔

چلیں یہ اچھی بات ہے کہ معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گا تو سب چہرے سامنے آجائیں گے، کہ کون اس کے حق میں ہے اور کون خلاف۔۔ اپوزیشن کے ووٹ بتائیں گے کہ جو نکل رہے تھے وہ غم کے آنسو تھے یا خوشی کے۔۔ بس تھوڑا سا انتظار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر