وجود

... loading ...

وجود

نون لیگی سیاست کا فریب اور صحافت کا بھرم
( ماجرا۔۔محمد طاہر)

منگل 10 دسمبر 2019 نون لیگی سیاست کا فریب اور صحافت کا بھرم <br>( ماجرا۔۔محمد طاہر)

اہلِ صحافت کے آزادیٔ اظہار اور تصورات کا بھرم دراصل سورج مکھی کا وہ پھول ہے جو شریف خاندان کی خواہشات و ضرریات کے سورج کے گرد گھومتا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری فریب کا یہ کھیل اب دھیرے دھیرے ختم ہورہا ہے تو اہلِ صحافت اپنے کپڑے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ آخر شریف خاندان لندن میں کیوں براجمان ہے؟ نوازشریف نہیں تو شہبازشریف ہی کم ازکم
اسلام آباد کو’’رونق‘‘ بخشیں، کوئی’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘کی حسرت آمیز التجائیں کر رہا ہے، کوئی چپ سادھے بیٹھا ہے تو کوئی شریف خاندان میں چپ کی لگی بیماری کی تشخیص کر رہا ہے۔ نکتہ گھوم پھر کر وہی ہے کہ یہ ’’گروہ‘‘ بنیادی طور پر چار دہائیوں سے شریف خاندان سے کسی نہ کسی طور وابستہ رہا ۔ اور اب اُنہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جن طلسمی تصورات کی ست رنگی شریف خاندان کے ساتھ مختلف اوقات میں وہ بُنتے رہے، اس کا کیا کریں؟تاریخ کا یہی تاریک بہاؤ ایک متوازی دھارے کے ساتھ کہیں اور بھی بہتا ہے!
یہ آرتھر کوسٹلر ہیں، ہنگری نژاد برطانوی ، مصنف اور صحافی۔آسٹریا میں تعلیم پائی اور جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگیا۔ یہاں کے صحافیوں، تجزیہ کاروں، کالم نویسوں اور اینکر پرسنزکی طرح یقینا حیلہ جو نہ تھا۔ آدمی باضمیر رہا ہوگا، اسی لیے اسٹالن ازم کا فریب ٹوٹنے پر فوری مستعفی ہوگیا۔پھر ’’ Darkness at Noon‘‘ نامی مشہور ناول لکھا۔ وہی لکھ سکتا تھا ،اُسی نے کہا:

’’Nothing is more sad than the death of an illusion.‘‘
(ایک فریب کی موت سے زیادہ غمزدہ کرنے والی بات کوئی اور نہیں)

نرے کاروباریوں اور سیاسی حیوانوں کے گرد نظریاتی عقیدت اور سیاسی عصبیت کا ہیولیٰ پیدا کرنے والے فریب خوردہ دانشوروں نے ابھی بھی اس نشے سے نکلنے کا فیصلہ پوری طرح نہیں کیا۔ سوائے اُن اہلِ صحافت کے جو شریفوں کی طرح ہی کاروباری انداز میں صحافت کرتے رہے۔ اور شریفوں کی سیاست کی ماننداپنی صحافت کو کاروباری مفادات کے تابع رکھا۔ اُنہیں اپنے بدن کی عریانی چھپانے کی کبھی ضرورت نہ رہی۔ وہ اپنے نظریے ، سوچ کے دھارے اور فکرونظر کے سرچشمے بدلتے دور کے ساتھ بدلتے رہے۔ آنے والوں کی مدحت اور جانے والوں کی مذمت اُن کی پیشانیوں پر لکھا رہا۔’’ کیسا خدا ، کیسا نبی ، پیسہ خدا ، پیسہ نبی ‘‘اُن کا کلمہ صحافت رہا۔ اس مکروہ کردار سے اُٹھنے والے تعفن کے بھبکوں نے قومی وجود کے کن کن حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اُس کا تفصیلی جائزہ کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں ، ابھی تو دلچسپی سے شریف خاندان کے اُس کردار کا جائزہ لیتے ہیں جس نے اُن سے وابستہ اہلِ صحافت کو عجیب وغریب الجھن میں ڈالے رکھا ہے۔

شریف خاندان نے چپ کا روزہ بغیر نیت کے نہیں رکھا ہوا۔ اس کے پیچھے ٹھوس واقعات کی ایک پوری کہانی ہے۔ نواز شریف سے ملاقات کرنے والے ایک وردی پوش اپنے منصب سے اِدھر اُدھر ہوچکے۔ شریف خاندان نے اداروں میں’’ اپنے بندے رکھنے ‘‘اور ’’ڈھونڈنے‘‘ کی جو قدیم پالیسی جناب ’’ابا جی‘‘ کے دور سے اختیار کررکھی تھی، اُس نے اداروں کو مسموم اور کچھ عناصر کے عزائم کو مذموم بنائے رکھا۔ حرص کا حملہ کسی بھی ادارے کے کسی بھی فرد پر ہوسکتا ہے۔ اُصول کے لیے حیات کرنا اور اُس کی قیمت دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات کوئی اور سمجھتا ہو یا نہ ہو، مگر شریف خاندان نے خوب سمجھی۔ اُنہوں نے تمام قومی اداروں کے اندر اس بشری کمزوری کے رجحان سے داخل ہونے کی کوشش کی۔جنرل آصف نواز کا قصہ اب کتابوں میں بھی لکھا ملتا ہے۔ جب اُنہیں ایک بیش قیمت گاڑی کی چابی تھمائی گئی۔ اور اُنہوں نے اُسے بغیر کسی شکریہ کے واپس لوٹا دی تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب نوازشریف پیپلزپارٹی کی نفرت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سیاسی صف بندی میں ایک خاص طرح کی متعفن عصبیت پیدا کرکے ملک کے بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے لوگوں کو’’اپنا آدمی‘‘ بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔ تب جنرل آصف نواز کا فقرہ سینہ بہ سینہ لوگوں کے پاس امانت رہا کہ جس آدمی کے ایک اشارے پر پانچ لاکھ بندوقیں حرکت میں آجائیں، وہ کسی کا نہیں خود اپنا آدمی ہوتا ہے‘‘۔

 

اس میں شک نہیں کہ نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کو دو نیم کیا۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ دونیم اسٹیبلشمنٹ خود اپنے تضادات اور مناصب سے چمٹے رہنے کی حریصانہ طبیعت کے باعث اداروں میں موجود بے چینی کو ایک قوت محرکہ کے طور پر نوازشریف اور اس نوع کی قبیل کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع دیتی رہی۔ دھرنا سیاست بھی اسی نوع کی اندرونی کشاکش سے پیدا ہوئی۔ اور اب اس نے ایک صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جب آپ کوئی حکمت عملی اختیار کریں تو اُس کے حقوق بھی ہمیشہ آپ کے پاس رہیں۔یہ چائنا اسٹائل ہے،جو چیز بھی منڈی میں آئی ،اس کی نقل تیار۔مگر اس کھیل کو سمجھنے کی سب سے زیادہ صلاحیت خود شریف خاندان کے علاوہ کسی اور میں نہیں، کیونکہ وہ اس کھیل کا حصہ بھی رہے اور اس کے شکاربھی۔چنانچہ جب مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کی سیاست شروع کی تو شریف برادران نے اس سے ایک فاصلہ بنائے رکھا۔ مگر شریف خاندان سے وابستہ اہلِ صحافت اِسے شریف خاندان کے لیے کھل کھیلنے کا ایک موقع سمجھ کر خود اپنے آقاؤں کو ’’شیر بن شیربن‘‘کی التجائیں کرتے رہے۔

 

بیچارے اہلِ صحافت اپنی اندھی جرأت کی حقیقت کا اندازا بھی لگانے کے اہل نہ تھے۔ اب وہ نوازشریف کو لندن کی سڑکوں پر میڈیکل چیک اپ کے لیے گھومتے پھرتے دیکھتے ہیں تواُنہیں اس قابل تو سمجھتے ہی ہیں کہ لاہور میں وہ مولانا فضل الرحمان سے ایک ملاقات کی ہمت تو کرتے۔مگر نوازشریف اپنی نام نہاد ’’عقابی سیاست ‘‘کے باوجودکرگسی طریقے پر اس سے باز ہی رہے۔ آخر کیوں؟کم لوگ جانتے ہیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف کا اُن دنوں اسپتال میں ایک مکالمہ ہوا۔ شہبازشریف نے پوچھا کہ کیا کسی نے اُن سے کسی بھی تبدیلی کے لیے کوئی رابطہ کیا ہے؟ کیا کسی نے مریم سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی نون لیگ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔میں قائد حزب اختلاف ہوں ، اور کسی نے مجھ سے بھی رابطہ نہیں کیا، تو پھر یہ دھرنا کیا ہے؟ کس کی ایماء پر ہے؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس سے ہم کس طرح وابستہ ہوسکتے ہیں؟شہبازشریف ہی نہیں نوازشریف بھی کسی ایسے ہی کھیل کا حصہ بننے کو تیار تھے جس کے مقاصد واضح طور پر اُن کے علم میں اور جس کا سیاسی حصہ واضح طور پر اُن کی جیب میں جاتا ہو۔ مگر اہلِ صحافت اِسے کسی انقلاب کی بازگشت سمجھ کر شریف خاندان سے امیدیں باندھے چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتا رہا۔وہ اس معمولی بات کوبھی سمجھ نہیں سکے کہ نوازشریف کی راہ میں تو چلیں کچھ مجبوریاں حائل رہی ہونگیں، چلیں اُن کی صحت کے مسائل بھی وہی ہوںگے جو شریف خاندان ابھی تک باور کرانے پر تلا ہوا ہے۔

 

مگر شہبازشریف کو کون سی مجبوریاں درپیش ہیں۔ اگر اسلام آباد کا افق بدلنے کو تھا تو کیا شہبازشریف دارالحکومت سے ذرا بھی دور رہتے۔ وہ لندن سے آتش کو جوان رکھنے کے بجائے لاہور میں میلہ سجاتے اور اپنی طبیعت کی جولانیاں ، مزاج کی رنگینیاں اور انگلی کی نشانے بازیاں دکھاتے۔ مگر اُنہوں نے عدالت میں نوازشریف کی واپسی کا عہد نامہ جمع کرایا اور خود بھی لندن جاپہنچے۔ اب شریف خاندان سے امیدیں وابستہ رکھنے والے دسترخوانی قبیلہ کامسئلہ یہ ہے کہ وہ شہبازشریف کی واپسی کی امید تو کیا پالتے، اُنہیں مریم نواز کی لندن روانگی کی بے چینی بھی بیکل کیے ہوئے ہیں۔ تو کیا شریف خاندان مستقبل قریب میں کسی تبدیلی کی کوئی امیدنہیں رکھتا؟ اس کا جواب شریف خاندان سے وابستہ دستر خوانی قبیلے کی مایوس تحریروں اور اُن کی سجائی جگمگاتی اسکرینوں پر جلتے بجھتے چہروںسے نہیںملے گا۔ کیونکہ یہ اُن کا محتاج ہے مگر وہ ان کے محتاج نہیں ۔ اُن کی سیاسی حکمت عملی ان کو دیکھ کر نہیں بنے گی بلکہ یہ اپنے قلم اور زبانیں اُن کے تیور اور اشارے دیکھ کر تبدیل کریں گے۔ ذرا غور سے دیکھیں یہ بدل رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم وجود - جمعه 02 مئی 2025

  صدراور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال، بھارت کے جارحانہ رویہ اور اشتعال انگیز بیانات پر گہری تشویش کا اظہار بھارتی رویے سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ ہے ، پاکستان اپنی علاقائ...

عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف وجود - جمعه 02 مئی 2025

  پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے ، کوئی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے، بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ، پاکستان علاقائی امن کا عزم کیے ہوئے ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے منگلا اسٹرائیک کور کی جنگی مشقوں کا معائنہ اور یمر اسٹر...

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب وجود - جمعه 02 مئی 2025

دستاویز پہلگام حملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ، رپورٹ دستاویز ثابت کرتی ہے پہلگام بھی پچھلے حملوں کی طرح فالس فلیگ آپریشن تھا، ماہرین پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کا کردار بے نقاب ہوگیا، اہم دستاویز سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹی...

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار وجود - جمعه 02 مئی 2025

نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق زیرِ التوا کیسز کو نمٹایا جائے گا اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گی، اس کے بعد اپیل اپنے نمبر پر لگائی جائے گی ، رپورٹ رجسٹرار آفس نے 190ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق تحریری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔تحریری رپورٹ...

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل وجود - جمعه 02 مئی 2025

تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو ا...

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

مضامین
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر