وجود

... loading ...

وجود
وجود

نوٹس کا کھیل (شعیب واجد)

جمعرات 05 دسمبر 2019 نوٹس کا کھیل (شعیب واجد)

ہماری زبان کی زرخیزی کی کیا ہی بات ہے، یہاں لفظ بھی صاحب اولاد ہوجاتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ لفظ نوٹس کے ہاں بھی اولاد نرینہ کا جنم ہوا ہے۔ اس کے بیٹے کا نام ’ازخود‘ رکھا گیا ہے۔ یوں برخوردار ازخود بِن نوٹس اب عرف عام میں ازخود نوٹس کے نام سے مشہور ہیں۔باپ انگریز تو بیٹا پاکستانی ہے۔ اردو زبان میں اب انگریزی اور اردو کی کاک ٹیل اب کئی دیگر الفاظ میں بھی عام نظر آنے لگی ہے۔

نوٹس کے معنی یوں تو بڑے سادہ سے ہیں، یعنی ڈکشنری میں اس کے مطلب کا جائزہ لیا جائے تو ’آگاہی‘ کا مفہوم سامنے آتا ہے ، یا کسی جگہ پر اس کے معنی ’توجہ دلانا ‘ کے بھی بتائے گئے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے لیے اس لفظ کے مفہوم و معنی اور اہمیت شاید، دوسری قوموں کے مقابلے میں ذرا ہٹ کر ہے۔ یہاں ذرا کا لفظ ہم نے کسر نفسی میں استعمال کیا ہے، باقی حقیقت کیا ہے یہ آپ خود بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

لفظ نوٹس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ لفظ زمانہ قدیم میں لاطینی زبان سے ہوتا ہوا فرانسیسی زبان کا حصہ بنا، جب اسے ‘نوٹیشیا’ کہا جاتا تھا، سن 1400 عیسوی کے لگ بھگ کے دور میں یہ لفظ انگریزی زبان میں ان کودا ، انگریزوں نے اس لفظ کو اتنی ہی فراخ دلی سے قبول کیا، جتنی فراخ دلی سے ہم آج انگریزی کے الفاظ کو اردو میں قبول کررہے ہیں۔بلکہ انگریزی کا کوئی لفظ اگر آنے کو تیار نہ بھی ہو تو بھی ہم اسے زبردستی اپنا بنا کر اردو میں شمولیت کے لیے لے آتے ہیں جیسے پکے یار اپنے کسی دوست کو گلے میں ہاتھ ڈال کر کہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جب ان الفاظ کو کبھی اردو ڈکشنری کا حصہ بنانے کی بات ہو تو ہماری غیرت جاگ جاتی ہے اور ہمارے کئی اردو دان، سلطان راہی کی طرح گنڈاسہ اٹھا لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایسا تو ان کی لاش پر سے گزر کر ہی ہوسکتا ہے۔یعنی اس روئیے پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ الفاظ، کسی کی کوئی آزاد طبیعت گرل فرینڈ کی طرح ہوں، جسے ہم ساتھ رکھنا اور گھمانا تو تو پسند کرتے ہیں لیکن اس سے شادی نہیں کرتے۔
خیر تو بات ہورہی تھی کہ لفظ نوٹس لاطینی زبان سے فرانسیسی اورپھر فرانسیسی سے ہوتا ہوا انگریزی میں شامل ہوگیا۔انگریزی تک آتے آتے یہ لفظ نوٹیشیا سے نوٹس بن چکا تھا۔تاہم قرون وسطی سے لیکر اب زمانہ جدید تک انگریزی زبان میں اس لفظ میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اور یہ آج بھی نوٹس ہی کہلاتا ہے۔

شروع میں ہم نے اس لفظ کی پاکستانیوں کے لیے خاص اہمیت کا ذکر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لفظ نوٹس کا مفہوم اب آگاہی ، اور توجہ دلانا، سے زیادہ جواب طلبی کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے، نوٹس کا مطلب کچھ لوگ دھمکی بھی سمجھ لیتے ہیں، اس کی وجہ انہیں ملنے والے نوٹس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی کو نوٹس ملنے کا سنتے ہی دوست احباب اسے فون کرتے ہیں، ہمدری کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ تو اس سے ملنے تک پہنچ جاتے ہیں کہ جیسے اس مشکل گھڑی میں اس سے اظہار یکجہتی نہ کیا تو آگے اس کے ساتھ جو بھی ہو اس پر ملال نہ رہ جائے۔
لفظ نوٹس کا اپنا ایک خاص تصوراتی خاکہ بھی ہے ایسا لگتا ہے اس کا اجرا کرنے والے کی شکل سپاٹ اور کرخت سی ہوگی، بھنویں تنی ہوئی ہوں گی، آنکھوں میں کھا جانے والی کاٹ ہوگی، اسکا چشمہ آنکھوں کے بجائے اس کی ناک کی نوک پر رکھا ہوتا ہوگا۔ اور اس سے دوسری کوئی بات کرنا اسے پھٹ پڑنے پر اکسانے کے مترادف ہوتاہوگا۔
خیر اس منظر کسی پر تو آپ یقیناً ہم سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن یہ ضرور مانیں گے کہ اس لفظ میں ہمارے معاشرے میں ہلچل مچانے کی صلاحیت ضرور ہے۔
ازخود نوٹس کوئی بھی لے سکتا ہے ، لیکن اگر اس پر عمل نہ کراسکے تو اپنی رٹ کھو بیٹھتا ہے۔ایسا اکثر گھروں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، شوہرحضرات بات بات ازخود نوٹس لے رہے ہوتے ہیں لیکن خواتین ان کے نوٹسوں کو یوں ہوا میں اڑا رہی ہوتی ہیں کہ ارے دفع کرو ان کو توعادت ہے ہر بات میں نقص نکالنے کی ، بس سنتے رہو، بڑبڑا کر یہ خود ہی خاموش ہوجائیں گے۔۔۔ اورپھر اس کے برعکس ہوتا بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں ازخود نوٹسز زیادہ ترسپریم کورٹ سے منسوب کیے جاتے ہیں۔افتخار چوہدری جب چیف جسٹس بنے تو دیس میں ازخود نوٹسز کی بہار آگئی، ہر طرف نوٹسوں کے پھول کھلنے لگے، ہر طرف ایک عجیب سی خوشبو بکھر گئی، چرچے ہونے لگے۔ جسے بھی دیکھو ہاتھ میں کوئی نوٹس پکڑے گھوم رہا ہوتا تھا۔ وکیلوں کا پتا پوچھ رہا ہوتا تھا، سنا ہے اس دور میں وکیلوں کے بھاؤ بڑھ گئے اور وکلا برادری اپنی تاریخ کے سنہرے دور میں داخل ہوگئی تھی۔

موجودہ چیف جسٹس نے ازخود نوٹسز کے معاملے میں خاصی کسر نفسی سے کام لیا ہے۔انہوں نے اب تک صرف دو ازخود نوٹس لیے ہیں، لیکن کہتے والے کہتے ہیں کہ ان کے یہ دو نوٹس ماضی کے دوسو نوٹسز پر بھاری ہیں۔ہم اس سے آگے کچھ نہیں کہتے۔
دوستو ،یہ تو خاص لوگوں کی باتیں تھیں،آخر میں اب ذکر عام لوگوں کا ہوجائے، کیونکہ عام لوگوں کا نمبر ہمارے ہاں ہر معاملے میں سب سے آخر میں ہی آتا ہے۔ تو عام لوگوں کے لیے بھی اس ملک میں نوٹسوں کے ٹڈی دل نے حملہ کیا ہوا ہے۔بجلی کا بل بھرنے میں تاخیر ہو تو نوٹس ، گیس کا بل دیکھ کر اگر ہارٹ اٹیک ہوجائے اور آپ بل کا پیسہ اپنے علاج پر خرچ کر بیٹھیں تو بھی نوٹس ، پانی ملے نہ ملے ، بل نہیں بھرا تو نوٹس ، ہر بات پر نوٹس ، ہر کام پر نوٹس، غرض یہ کہ نوٹس ہی نوٹس، دھمکیاں ہی دھمکیاں۔۔اس ٹڈی دل سے عوام کو کون بچائے گا۔۔ہے کوئی اللہ کا بندہ۔ جو کوئی اس بات کا بھی نوٹس لے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر