وجود

... loading ...

وجود
وجود

دھرنا ختم، پیسا ہضم۔۔۔! راؤ محمد شاہد اقبال

جمعرات 21 نومبر 2019 دھرنا ختم، پیسا ہضم۔۔۔! راؤ محمد شاہد اقبال

رہبرکمیٹی کی رہبری اور اپوزیشن کی 9 جماعتوں کو بیچ’’سیاسی منجدھار‘‘ میں ڈوبتاچھوڑ کر جس طرح کی عجلت و خجالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بغیر کچھ’’فیس سیونگ‘‘ حاصل کیے ،فقط 13 دنوں میں ہی اسلام آباد کے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔مولانا کی اِس متوقع’’ سیاسی حرکت‘‘ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ موصوف،علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری تو کجا عمران خان کے دھرنے کے برابر بھی اسلام آباد میں احتجاجی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں بُری طرح سے ناکام رہے ہیں۔بلاشبہ مولانا کی اِس ناکامی سے دنیائے سیاست میں لفظ ’’دھرنے ‘‘ کوبھی بڑی بے توقیری حاصل ہوئی ہے ۔ یعنی لفظ ’’دھرنا ‘‘ جسے کبھی علامہ ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے’’شریف حکمرانوں ‘‘کے لیے خوف و دہشت کی علامت بنا کر بام ِ عروج پر پہنچا دیا تھا ،آج اُسی دھرنے پر مولانا کا ’’سیاسی سایہ‘‘ پڑنے کی وجہ سے طرح طرح کی تہمتیں کسیں جارہی ہیں اورتشنیع آمیز مزاحیہ لطائف گھڑے جارہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے ہاتھوں ہونے والی شرمناک رسوائی کے بعد جس طرح سے لفظ دھرنے نے اپنی عزت و توقیر گنوائی ہے ۔اُسے دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے کہ شاید اَب مستقبل قریب و بعید میں پاکستانی سیاست میں دھرنے کا کوئی نام لینے والا بھی نہیںرہے گا۔بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ لفظ’’ دھرنے ‘‘ کی ’’احتجاجی ناموس‘‘ کودو ٹکے کا کرنے کے بعد بھی مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عزائم کو طمانیت و سکون نہیں مل سکا اور اَب مولانا نے جس طرح سے پاکستان کی اہم ترین شاہراؤں پر دھرنے کا مذاق اُڑوانے کا اعلان کیا ہے ۔اُس کے بعد تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج کے بعد لفظ’’ دھرنے‘‘ کو کسی نصابی، کتابی اور سیاسی ڈکشنری میں بھی جگہ ملنے والی نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ نما دھرنا حکومت ِ وقت کے خلاف جتنا شور شرابا مچاتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے اسلام آباد کے داخلی راستہ کشمیر ہائی وے، پشاور موڑ پر آکر بیٹھا تھا ۔اُس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ ٹھیک 13 دن بعد رات کی تاریکی میں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح ایسے غائب ہوا کہ مجال ہے جو کسی فرد بشر کو دھرنے کے رینگ جانے کی کانوں کان خبر ہوسکی ہو۔ یعنی جس دھرنے کو اسلام آباد تک پہنچتے ،پہنچتے تین دن لگ گئے تھے ،اُسی دھرنے کو تتر بتر ہوتے ہوئے تین گھنٹے بھی نہیں لگے ۔چشمِ فلک نے 15 لاکھ لوگوں کو اتنی سرعت و تیزرفتاری کے ساتھ کسی جگہ سے اپنے اپنے گھروں کی جانب اپنا سامان بغل میں دبا کر بھاگتے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہماری گناہ گار آنکھوں نے خود ملاحظہ کیا ہے کہ دھرنے سے جانے والے سب لوگ اتنے زیادہ خوش و خرم تھے کہ جیسے اُن سب کی جیبوں میںفرداً فرداً، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنا استعفا لکھ کر خود اپنے ہاتھوں سے ڈالا ہو ،اِس تاکید کے ساتھ کہ ’’اَب بس اِسے اپنے گھر جاکر ہی کھول کر تفصیل سے پڑھنا اور استعفے کو منظور کرکے مجھے شرفِ باریابی بخش دینا‘‘ ۔ افسوس صد افسوس! کہ وزیراعظم کا استعفا لینے کے لیے آنے والے ،تسلی کے دو جھوٹے وعدے بھی لیے بغیر ہی خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔

اسلام آباد دھرنے کی یہ ناکامی کم وبیش ایک برس کے مختصر سے عرصہ کے دوران مولانا فضل الرحمن کو حاصل ہونے والی مسلسل چھٹی بڑی سیاسی ناکامی ہے ۔مولانا کو پہلی تاریخ ساز سیاسی ناکامی اُس وقت حاصل ہوئی تھی جب انہیں 2018 کے انتخابات کے دوران اپنے آبائی حلقہ سے ایک نوآموز کھلاڑی اُمیدوار کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔اِس انتخابی شکست کے بعد فوری طور پر جس دوسری سیاسی ناکامی کا شکار مولانا کو اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں پہلی دفعہ ہونا پڑا ،وہ کشمیر کمیٹی سے معزولی یعنی کرسی ِ اقتدار سے کلیتاً بے دخلی کا پروانہ تھا ۔اس کے علاوہ گزشتہ تین دہائیوں سے پارلیمنٹ لاجز میں قائم ایک بڑے سے حکومتی گھرکا قبضہ بھی جس منفرد انداز میں تحریک انصاف کی حکومت نے مولانا سے چھڑوایا،اُس سے حاصل والی ہزیمت مولانا کی تیسری سیاسی ناکامی کا سبب بنی تھی۔جبکہ مولانا فضل الرحمن کی چوتھی سیاسی ناکامی 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن کو قائل نہ کرسکنا تھا۔ مولانا کی پانچویں بڑی ناکامی سینٹ میں اپوزیشن ارکان کی واضح ترین اکثریت ہونے کے باوجود بھی سینٹ کے چیئرمین جناب صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی متفقہ طورپر پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے میں بُری طرح سے ناکام ہوجانا تھا ۔ اگر مولانا فضل الرحمن کی ایک سالہ پے درپے سیاسی شکستوں کا جائزہ لیا جائے تو بغیر کسی شک و شبہ کے اسلام آباد دھرنا کو اُن کی اَب تک کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی قرار دیا جاسکتاہے ۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنی دیگر سیاسی ناکامیوں کی طرح اسلام آباد دھرنے کے ملبہ سے بھی ایک عظیم الشان احمقوں کی جنت برآمد کرنے کے دعویدار ہیں اورآزادی مارچ نما دھرنے کی حالیہ ناکامی کو اپنی سب سے بڑی سیاسی فتح کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔مولانا اپنے دعویٰ کے حق میں دلیل یہ دے رہے ہیں کہ اُن کے دھرنے کے باعث عمران خان کی حکومت کی دیواریں ہل گئی ہیں ۔جبکہ پوری پاکستانی قوم انگشتِ بدنداں ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی وہ کونسی دیوار ہے جسے مولانا کے دھرنے نے ہلا کر رکھ دیا ہے؟ ۔ ہاں !البتہ ،ایک بات تو ضرور سب کو صاف صاف سمجھ آرہی ہے کہ حکومتِ وقت کی ’’ تصادم نہ کرنے کی ‘‘ دوراندیشانہ حکمت عملی نے ضرور دھرنے کے مردہ کو اسلام آباد سے ہلا کر گلی گلی خجل و خوار ہونے کے لیے چھوڑ دیا ۔ آخری خبریں آنے تک مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا یہ مردہ بھی گلی کے ایک تاریک نکڑ پر انتہائی خاموشی سے دفنادیاگیاہے ۔اِس مرگ پر لوگ کچھ بھی کہتے رہیں ۔۔۔ بہر حال ہم دھرنے کے جملہ لواحقین کے ساتھ تعزیت کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ جیسی المناک موت اِس دھرنے کے حصہ میں آئی ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی بُری موت سے پاکستان کی ہر ’’سیاسی تحریک ‘‘ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر