وجود

... loading ...

وجود
وجود

تمہاری بھی جے جے۔۔ (شعیب واجد)

اتوار 17 نومبر 2019 تمہاری بھی جے جے۔۔ (شعیب واجد)

1967میں پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی،65 کی جنگ کو ختم ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے۔دونوں ملکوں میں سیاسی سطح پر سخت کشیدگی برقرار تھی۔ان ہی دنوں بھارتی فلم دیوانہ ریلیز ہوئی تو اس کے ایک گانے نے برصغیر میں دھوم مچا دی..
گانے کے بول تھے ” تمہاری بھی جے جے ہماری بھی جے جے نہ تم ہارے نہ ہم ہارے ”
اس گانے میں تو ظاہر ہے کسی جنگ کی بات نہیں ہورہی تھی۔لیکن سرحد پار بہرحال جنگ کی سی آگ موجود تھی۔لیکن فن و فنکار اور گیت سنگیت جنگوں سے ماورا ہوتی ہے۔

تہماری بھی جے جے۔۔۔۔

اس نغمے کے بول اور موسیقی ایسی تھی کہ اس دور میں بھی، چاہے ہندوستان ہو یا پاکستانی، جو بھی یہ گیت سنتا اس کے بول گنگنانے لگتا..گانے کے بول حسرت جے پوری نے لکھے اور موسیقی شنکر جے کشن کا شاہکار تھی…
لیکن ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ گانا راج کپور اور سائرہ بانو پر فلمایا گیاتھا ..جن کی معصومانہ اداکاری نے نغمے میں حسین رنگ بھر دیا تھا

.
اس گیت کے مصرعوں پر بھی غور کیا جائے تو اس میں بھی معصومیت, پیار اور درگزر کی بات کی جا رہی ہے.. اس جذبے اور کلام کو دل آویز موسیقی نے یادگار بنادیا ..
اسی دور میں جب یہ رومانوی نغمہ اپنی آب و تاب پر تھا، دونوں ملک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھے، فاصلے بڑھ چکے تھے۔لیکن ایسے میں بھی شاید ثقافتی اور عوامی رشتوں کو اس قدر ٹھیس نہ پہنچی تھی جیسے آج کل دیکھنے میں آرہی ہے۔ایک دوسرے کی جے جے تو دورکی بات توپوں کے دہانے کھل چکے ہیں۔وجہ وہی پرانی ہے، یعنی مسئلہ کشمیر۔
برصغیر میں موسیقی ہمیشہ سرحد کے دونوں پار یکساں گونجتی آئی تھی۔ریڈیو پاکستان ہو یا ا؎ٓل انڈیا ریڈیویا پھر سری لنکا کا ریڈیو سیلون۔۔برصغیر میں لوگوں کی اکثریت انہیں فلمی گانے سننے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ ہوا کے دوش پر سفر کرنے والی ان لہروں پر کوئی پابندی نہ تھی۔

راج کپور کا تعلق پاکستان سے تھا لیکن وہ بھارت کے سب سے بڑے ہیرو تھے۔اس زمانے میں بھی انہیں چند انتہا پسندوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا تھا لیکن وہ بھارت کی اکثریت کے ہیرو تھے،اس زمانے میں انتہا پسند اقلیت اکثریت پر کبھی غالب نہیں آسکی تھی۔ سنیما میں راج کپور کے چاہنے والے امڈ امڈ آتے۔ معصومیت, پیار اور درگزر اس گیت کی طرح راج کپور کی اپنی شخصیت کا حصہ بھی تھا ، وہ گیت برصغیرکی سڑکوں گلیوں ، ہوٹلوں دکانوں میں گونجتا رہتا۔

’’تمہاری بھی جے جے۔ہماری بھی جے جے۔نہ تم ہارے نہ ہم ہارے۔
سفر ساتھ جتنا تھا ہو ہی گیا وہ، نہ تم ہارے نہ ہم ہارے۔‘‘

برصغیر کی سیاست اور جنگوں میں ہار جیت کا موضوع اس زمانے میں بھی نہایت حساس تھا، ہم پاکستانیوں کو یقین تھا کہ آخری جنگ ہم جیتے ہیں، کیونکہ زیادہ بھارتی طیارے ہم نے گرائے، زمینی علاقوں پر قبضہ بھی ہم کیا۔ اسی طرح سرحد کے اس پار بھی اپنی فتوحات کے قصے سنائے جاتے تھے۔

امریکا میں ان دنوں صدرلنڈن جانسن کی حکومت تھی، امریکا سے پاکستان کے تعلقات اس دور میں کشیدہ سے ہوچکے تھے، پاکستان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت جنگ کے دوران امریکا نے خود کو غیر جانبدار ثابت کرکے عملاً بھارت کی مدد کردی تھی۔لنڈن جانسن ایوب خان کے مداح رہے تھے لیکن ان ہی کے دورِ صدارت میں جب پاکستان اور بھارت میں کشمیر پر جنگ ہوئی تو جانسن ، ایوب خان سے دور ہوگئے۔اسی سال امریکا نے پاکستان اور بھارت کی امداد بند کردی۔جس کا دھچکا زیادہ تر پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ ان ہی دنوں جب وہ گیت اپنی آب و تاب بکھیر رہا تھا، صدر جانسن تئیس دسمبر انیس سو سڑسٹھ کو ویتنام سے روم جاتے ہوئے کراچی کی فضاؤں میں داخل ہوگئے۔ جانسن اور صدرایوب خان کی اہم ملاقات ہوئی۔ صدر جانسن کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت جنگ کی ہار جیت کو بھلا دیں اور آگے کی بات کریں۔

جانسن چلے گئے لیکن سیاسی و عسکری محاذ ٹھنڈا نہ ہوسکا، صرف دو سال بعد ہی 1971 آگیا اور پاکستان اور بھارت اس سال ایک دوسرے سے صدیوں کی دوری پر چلے گئے۔بھارت نے پاکستان سے اس کا ایک بازو جدا کردیا۔اور اسے ہزار سالہ دشمنی کا بدلہ قرار دیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب ایک نئی ریاست وجود میں آچکی تھی۔جہاں فتح کے ڈھول پیٹے جارہے تھے، بھارت کے بعض حلقوں میں بھی خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ بنگال بھی موسیقی کے چاہنے والوں کا دیس تھا، وہاں ان دنوں آزادی کے نغموں کا دور آیا ہوا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔اکہتر کے بعد چوراسی آگیا، سیاچن کا محاذ گرم ہوا، اور نیا زخم لگاگیا۔رات کی تاریکی میں سیاچن پر قبضہ کرلیا گیا تھا۔پھرننانوے میں کارگل ہوا۔اور2019 میں پلوامہ پر لڑائی چھڑی۔

بات بڑھ چکی ہے دونوں ممالک اب ایک بار پھر جنگ دہانے پر ہیں۔فاصلے اتنے ہیں کہ فن ، فنکار اور سنگیت بھی اب گھٹن میں ہیں۔۔جنگ کے ماحول کو بریک نہیں لگا ستر سال میں سات سال بھی ایسے نہیں، جو یادگار کہے جاسکیں۔۔وقت گزر رہا ہے۔۔کہنے والے کہتے ہیں وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔۔۔ماضی میں جنگوں کی قیادت کرنے والے کئی رہنما اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔ قیادت اب نئے قائدین کے ہاتھ میں ہے۔
وہ فلم اور گیت بھی اب مدھم سا پڑتا جارہا ہے۔۔اس گیت سے وابستہ زیادہ تر شخصیات بھی اب اس دنیا میں نہیں رہیں .لیکن فلم”دیوانہ” اور اس کا گیت کچھ سانسوں میں آج بھی زندہ ہے۔۔لیکن مدھم سا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر