وجود

... loading ...

وجود
وجود

عمران خان کا انیل مُسرت (انوار حُسین حقی)

اتوار 17 نومبر 2019 عمران خان  کا  انیل مُسرت (انوار حُسین حقی)

جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے آخری ہفتہ میں عمران خان اپنے آبائی حلقہ این اے95 کے علاقہ داؤد خیل میں نگارِ وطن پر قربان ہونے والے میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی شہید کے گھر تشریف لانے والے تھے ۔ جہاں پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام تھا ۔ کپتان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر جنرل شہید کے چھوٹے بھائی امین اللہ خان اُمیدوار تھے ۔ اسٹیج پر مہمانِ خصوصی کی آمد سے قبل برطانیا سے آئے ہوئے عمران خان کے دوستوں کی آمد کا اعلان ہوا تو حاضرین کیا دیکھتے ہیں کہ صاحبزادہ جہانگیر چیکو اور انیل مسرت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ میانوالی میں مہمان نوازی کی اپنی ہی روایات ہیں جو قبائلی طرزِ معاشرت کے اثرات کی وجہ سے یہاں کی سماجی روایات کا حصہ ہیں ۔ عوامی جمِ غفیر نے مہمانوں کو اس انداز کے ساتھ خوش آمدید کہا کہ زبان پر بے اختیار یہ محاورہ آگیا کہ ’’ یہ میانوالی۔۔۔ یہ کچھی۔۔۔۔۔ واقعی پھُلاں دی پچھی ہے ‘‘ کچھی اس خطے کا پرانا نام ہے یعنی یہ واقعی پھولوں کی ٹوکری ہے۔۔ اس ٹوکری میں ہر رنگ اور خوشبو کے پھول ہیں ۔۔ اس سرزمین کا ایک اورخوشبو دار پھول عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی بھی اس جلسے میں موجود تھا ۔۔۔۔
ایک عظیم الشان عوامی اجتماع کو دیکھ کر انیل مُسرت اور ان کے ساتھی صاحبزادہ جہانگیر چیکو کی آنکھیں خوشی سے مسرور دکھائی دے رہی تھیں۔ انہیں بتایا گیاکہ یہ وہ تمام جمع ہیںجوعمران خان کی جدوجہد کے وہ ساتھی ہیں جو اپنے بڑوں اور روایتی سیاسی سماج کی مدد کے بغیر تنہادم اُس کے اُس سیاسی سفر پر روانہ ہوئے تھے جس کی کامیابی کے امکانات کو ناممکنات کے حصار سے نکالنا انتہائی مُشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا تھا ۔ یہی وہ علاقہ جہاں کے لوگوں نے سب سے پہلے عمران خان کی آواز کے ساتھ اپنی للکار ملاتے ہوئے بار بار حکومتی باریاں لینے والی دونوں بڑی جماعتوں کو کہا تھا

’’ شب کو اُجالنے کا ہُنر ہم پہ چھوڑ دو
تُم تھک چُکے ہو یہ سفر ہم پہ چھوڑ دو
گُلزار ہم چراغ نہیں آفتاب ہیں
ہنگامہ طلوعِ سحر ہم پہ چھوڑ دو ۔۔

اگرچہ انیل مُسرت کپتان کی سیاسی جدوجہد کی کامیابی کے امکان کو خوشگوار حیرت سے دیکھنے والوں میںشامل تھا۔ لیکن ایک کاروباری شخصیت ہونے کی وجہ سے بخوبی جانتا تھا کہ زندگی کے شدید موسم ہزار درجہ ناگوار ہونے کے باوجود یہ احسان کر جاتے ہیں کہ انسان موسموں کی شدت کی وجہ سے نخلستانوں کے کھوج کی جدوجہد شرو ع کر دیتا ہے۔ عمران خان نے انیل مُسرت کو نخلستان اور نخلاب کی تلاش کے ثمرات کے رُخ کوانسانیت کی خدمت کی جانب موڑنے پر آمادہ کیا ۔ انیل مُسرت اور عمران خان کے تمام دوست شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر میں بروئے کار آئے اور آج تک یہ ادارے بے مثال کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں ۔۔ انیل ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے دامنِ وقت کو تھاما اور عمر بھر بیگار کاٹنے سے محفوظ رہے ۔ ورنہ زندگی کی جستجو کا رُخ اپنی ذات کی جانب موڑنے اور ثمرات اپنے خاندان تک محدود رکھنے والوں کی صورتحال آپ کے سامنے ہے ۔ حکومتوں کی تین تین باریاں لینے والے آج اپنے ملک میں اپنے ہی علاج کی سہولتوں سے مطمئن نہیں ۔

 

’’ نمل نالج سٹی ‘‘ خطہ پوٹھوہار کو چومتی، چہچہاتے پرندوں کا مسکن اور دور دیس سے آنے والی غافل کونجوں کی ڈاروں کی سرمائی پناہ گاہ ’’ نمل جھیل ‘‘ کے مغربی کنارے اور سالٹ رینج ( کوہستان نمک ) کے سب سے اونچے پہاڑ کی ڈھلوان پر عمران خان کا آباد کیا ہوا علم کا وہ شہر ہے جس کی ضیاء پاشیاں دُور دُور تک پھیل رہی ہیں ۔ اس شہر کی تعمیر میں انیل مُسرت اور عمران خان کے دیگر متمول دوستوں کا بہت اہم کردار ہے۔ دو ماہ قبل انیل مُسرت نے اپنے بیٹے کے نام پر قائم ’’ رافع مُسرت فاؤنڈیشن ‘‘ کے تعاون سے اس نالج سٹی میں دو سو بستروں کے جدید ہسپتال کے لیے بارہ ارب روپئے کی خطیر رقم مختص کرکے انسانیت کی عظیم خدمت سر انجام دی تھی ۔ اور یہیں انہوں نے بتایا تھا کہ میری عمران خان سے 2004 ء میںمُلاقات ہوئی اس عظیم لیجنڈ کی انسانیت کے لیے خدمات کا میں نہ صرف معترف ہوا بلکہ مجھے اس جانب متوجہ ہونے کی ترغیب بھی ملی ۔

 

انیل مُسرت نے میانوالی کا ہسپتال دو سال کے اندر مکمل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے پنجاب میں اسی نوعیت کے نو بڑے ہسپتال بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ ہسپتال پنجاب کے ہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں قائم کیے جائیں گے ۔ معلوم ہوا ہے کہ نمل نالج سٹی میں قائم کیے جانے والے ہسپتال کے نقشے انیل مسرت نے اپنے موجودہ دورہ پاکستان کے دوران طلب بھی کیے ہیں ۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں عمران خان کے بعد بُنیادی کردار علیمہ خانم کاہوگا۔ بلاشُبہ یہ عظیم خاتون بھی میانوالی کے اکرام اللہ خان نیازی مرحوم کے خانوادے کا وہ نصیبہ ہے جو اپنے خاندان کی سماجی روایات کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔ میانوالی میں اس ہسپتال کی سنگِ بنیاد کی تقریب میں تین ایسے معروف صحافی بھی موجود تھے جو ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہیں ۔ جس کے اور عمران خان کے درمیان گذشتہ سات آٹھ سالوں سے اختلافات چلے آ رہے ہیں ۔ یہ سب انیل مُسرت کے مہمان تھے ۔یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں جب نمل کالج کا افتتاح ہوا تو اُس کے وقت کے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ان کے مُسلم لیگی وزیر تعلیم احسن اقبال بھی مہمانوں میں شامل تھے جب کہ اس تقریب کی نظامت کے فرائض حامد میر نے انجام دیئے تھے ۔

 

لیکن اس مرتبہ یہاں انیل مُسرت کی جانب سے پاکستان کے سماجی شعبے میں سرمایہ کاری کے اعلان کے بعد ان کے خلاف مختلف محاذ سرگرم ہو گئے تھے ۔ یہ انیل مُسرت کی دشمنی سے زیادہ بُغضِ عمران تھا ۔ سوشل میڈیا اور اخبارات کی بعض تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا تھا جیسے الفاظ سے اُن کے مفہوم بدگماں ہو گئے ہیں ۔۔ بے اعتباریوں کے مبروص موسموں نے سرمدی آنکھوں کے دائروں سے سارے منظر اُچک لیے ہیں ۔۔اور سورج کو سورج کہنے سے ڈرا جانے لگا ۔ اس میں کمال اُس ادبی اور صحافتی مافیا کا بھی تھا جسے گذشتہ دو عشروں کی حکومتوں کی جانب سے بے حساب نوازا جا تا رہا اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی نااہل ٹیم کی وجہ سے ان میں سے اکثریت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اور تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں ۔

 

کرتار پور راہدری کے ثمرات میں سے کیڑے تلاشنے کے کٹھن بیگار پر متعین ’’ ہجونامہ نویسوں‘‘ نے ایک مرتبہ پھر انیل مُسرت کو اپنے بُغضِ عمران کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی لیکن اس کی سماجی خدمات کے سامنے ٹہر نہ پائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے یہ تمام پروپیگنڈہ انسانیت کی خدمت کے ان کے جذبے کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس پر عمران خان کے دوستوں کو دیکھتے ہوئے اس انداز سے کپکپی طاری ہوجاتی ہے، جیسے ان کا ہاتھ برقی تاروں پر پڑ گیا ہو ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ’’ اشرافیہ ‘‘ کو زرداری اور شریف خاندان کے ذاتی دوستوں سے کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوا چاہے وہ انڈین صنعتکار ہوں یا قطری شہزادے ۔۔۔ ان کے قلم خاموش اور زبانیں گُنگ ہی رہتی ہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر