وجود

... loading ...

وجود
وجود

دھرنے کی آکاس بیل۔!
(راؤ محمد شاہد اقبال)

جمعرات 07 نومبر 2019 دھرنے کی آکاس بیل۔!  <br>(راؤ محمد شاہد اقبال)

مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں دھرنے کے چوتھے روز ہی آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دورانِ تقریر ہی آب دیدہ ہوگئے ۔گو کہ مولانا کے اردگرد کھڑے ہوئے انس نورانی اور محمود خان اچکزئی نے اِن کا ہاتھ تھام کر حتی المقدور کوشش کی کہ کسی طرح مولانا کی حوصلہ افزائی کر کے اُن کی دل جوئی فرماسکیں لیکن جب مولانا کافی کوشش کے باوجود بھی اپنی پرانی کیفیت کو بحال نہ کرسکے تو خاموشی کے ساتھ جلسہ گاہ سے رخصت ہوگئے ۔ مولانا فضل الرحمن کے قریب ترین ساتھی بتاتے ہیں کہ مولانا کی طویل ترین سیاسی اور مذہبی جدوجہد میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی نے مجمع عام میں اُنہیں اِس قدر دل گرفتہ ، مضطرب اور آنسوؤں سے تر دیکھا ہو ورنہ اِس واقعہ سے قبل مولانا کے متعلق عام تاثر یہ ہی پایا جاتا تھاکہ وہ انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنی شخصیت کو جذباتیت کے صیاد کے زیرِ دام آنے کی اجازت نہیں دیتے ۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اِس بار ایسا نہ ہوسکا اور دھرنے کی مشکلات نے فقط چوتھے روز ہی مولانا فضل الرحمن کو آب دیدہ ہونے پر مجبور کردیا ۔

 

شاید دھرنا بھی آکاس بیل کی طرح ہوتا ہے جو اپنی پرداخت و نشوونما کرنے والے مالک سے خراج لیے بنا اُس کی جان نہیں چھوڑتا ۔ اِس امر کی سب سے بڑی گواہی خود پاکستان کی سیاسی تاریخ دیتی ہے ۔ جس کے مطابق اَب تک جس نے بھی اور جب بھی پاکستان میں دھرنے کی آکاس بیل کو سیاست کی منڈیر پر چڑھانے کی کوشش کی، آخر کار اُس کی اپنی ساری سیاست دھرنا کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ مثال کے طور پر پاکستان کی تاریخ میں دھرنے کی اوّلین موجد جماعت ، جماعت ِ اسلامی تھی اور اِس کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے پہلی بار پاکستان کی سیاست میں دھرنے کی آکاس بیل کو اُگانے کی کوشش کی تھی ۔ بظاہر ابتداء میں دھرنے نے قاضی حسین احمد اور اُن کی جماعت کو فقیدا لمثال شہرت تو ضرور بخش دی تھی لیکن دھرنے کے مضر اثرات نے جماعت اسلامی کاسب سے بنیادی وصف یعنی احتجاج کی طاقت کو جماعت اسلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا اور ایک زمانے تک جائز ،ناجائز بات پر احتجاج کرنے کی شناخت رکھنے والی جماعت اسلامی آج کل کسی جائز مسئلہ پر بھی احتجاج کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوچکی ہے ۔

 

امیرِ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستانی سیاست کے اُفق پر نمودار ہونے والی وہ دوسری سیاسی و مذہبی شخصیت تھی جنہوں نے دھرنے کی آکاس بیل کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پھر سے اُگانے کی دو کامیاب ترین کوششیں کیں ۔ خاص طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا عمران خان کے ساتھ کیا گیا دوسرا دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا جو تین ماہ سے زائد مدت تک جاری رہا ۔گو کہ اِس دھرنے نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو راتوں رات الیکٹرانک میڈیا کا سپر اسٹار تو ضرور بنا دیا لیکن یہ دھرنا خراج کے طور پر نہ صرف ان کی سیاست کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہڑپ کرگیا بلکہ ان کی جماعت کی احتجاجی سیاست کا بھی جنازہ نکال گیا ۔یاد رہے کہ چند ہفتے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستانی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کی جماعت منہاج القرآن جو کہ گزشتہ چالیس برسوں سے مینارِ پاکستان لاہور پر عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کرتی آرہی تھی مگر اِس بار طاہرالقادری کے سیاسی کزن کی حکومت نے اُنہیں مینارِ پاکستان پر عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے ۔

 

جس پر منہاج القرآن کی طرف سے چھوٹے موٹے احتجاج کا اعلان کرنے کے بجائے صرف ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ ’’اگر پنجاب حکومت اُنہیں مینارِ پاکستان پر میلاد کانفرنس کی اجازت نہیں دے گی تو وہ اس کانفرنس کو کسی اور جگہ منعقد کر لیں گے ‘‘۔ سیاسی بے چارگی اور بے مائیگی کی ایسی دگرگوں حالت کا اصل ذمہ دار بھی دھرنے کی آکاس بیل کو ہی قرار دیا جاسکتاہے۔
پاکستانی سیاست میں تیسری بار تحریک لبیک کے سربراہ محترم خادم حسین رضوی نے اسلام آباد کی فضاؤں میں پر تشدد دھرنے کے جملہ حقوق حاصل کر نے کی بھرپور کوشش اور اِس جدوجہد کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا خادم حسین رضوی کو اِن کے دوسرے دھرنے کے دوران انتہائی خاموشی کے ساتھ دھر لیا گیا اور جیل کی آہنی دیواروں کے پیچھے قید کردیا گیا۔ جب کئی ماہ کے بعد جیل سے اُن کی رہائی عمل میں آئی تو پاکستان کے سیاسی اُفق سے اُن کی سیاسی جماعت تحریک لبیک کا نام اور کام کسی حرفِ غلط کی طرح مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی نے حالات کے اِس غیر متوقع سیاسی جبر کو بغیر کسی چوں چراں کے ہنسی خوشی قبول کرلیا ۔دھرنے کی فیض رسانی کے باعث آج کل مولانا خادم حسین رضوی اپنی جماعت تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے محفلِ میلاد اور محفل نعت کے اجتماعات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔

 

دھرنے کی جس آکاس بیل نے پاکستان کی کئی قیمتی مذہبی رہنمااور سیاسی جماعتوں کو چوس کر ایک طرف پھینک دیا تھا ۔آج کل اُسی دھرنے کی سیاست کُش آکاس بیل کے پودے کو مولانا فضل الرحمن نے اپنے چند ناعاقبت اندیش مشیروں کے مشورے سے یکم نومبر سے اسلام آباد میں ایک بار پھر سے اُگا دیا ہے ۔ بظاہر تو مولانا کو بڑی اُمید تھی کہ صرف دو دن میں ہی اُن کے دھرنے کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان استعفا دینے پر مجبور ہوجائیں گے لیکن ماضی میں ہونے والے دھرنوں کی روایت کے عین مطابق یہ دھرنا بھی آہستہ آہستہ اپنے تخلیق کار یعنی مولانا فضل الرحمن کے گر د ہی سیاسی شکنجہ کس چکا ہے ۔یوں اَب مولانا مکمل طور پر دھرنے کی موذی آکاس بیل کے رحم و کرم پر ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس کا اندازہ خود مولانا فضل الرحمن کو بھی بخوبی ہوتا جارہاہے۔ جب ہی تو دھرنے میں وہ دورانِ خطاب اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو بھی روک نہیں پارہے ۔بس ہمیں تو آنے والے ایام میں یہ دیکھنا ہے کہ قاضی حسین احمدمرحوم ،علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور مولانا خام حسین رضوی کے بعد دھرنے کے مابعد السیاسیات اثرات مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو کس عبرتناک انجام سے دوچار کرتے ہیں ۔بقول جمال احسانی

حضورِ صبح بتلاؤ خراجِ شام کیا ہوگا
ہماری تیرہ بختی کا بھلا انجام کیا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر