وجود

... loading ...

وجود
وجود

مولانا فضل الرحمن اور مسئلہ کشمیر
(حدِ ادب...انوار حسین حقی)

پیر 04 نومبر 2019 مولانا فضل الرحمن  اور مسئلہ کشمیر  <BR>(حدِ ادب...انوار حسین حقی)

پچھلے دنوں اسلام آباد جانا ہوا تو معلوم ہواکہ پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر اپوزیشن سیخ پا ہے اور اجلاس میںحکومت کو ٹف ٹائم دینے کے ارادے ہیں ۔حکمران جماعت نے مقابلے کے لیے اسد قیصر کی جگہ قاسم خان سوری کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ قاسم خان سوری اپنی قبائلی اور خاندانی روایات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں سے بہت مختلف ہیں ۔ پی ٹی آئی کے بہت سے وزراء اور رہنماء اپنی خواہشات اور سوچ کے مطابق عمران کے طرزِ عمل کے متقاضی رہتے ہیں جبکہ ان سب کے برعکس قاسم خان سوری کا یہ امتیاز یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کے قائد کا وژن اور سوچ کیاہے پھر اُس کے مطابق اپنی ترجیحات کا تعین کرتا ہے ۔

 

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو دل تھام کر ہم بھی گیلری میں جا بیٹھے ۔ قاسم خان سوری کرسی صدارت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اپوزیشن ارکان رسمی احتجاج کے بعدچلتے بنے ۔ پسِ یوارِ زنداں خورشید شاہ اس اجلاس سے کیا اُمیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے یہ تووہ ہی جانیں ۔ ہمیں تو اُس روز یہ سبق ملا کہ جس کے اُوپر مصیبت آتی ہے اُسے ہی بھگتنا پڑتی ہے۔ خورشید شاہ کا غم غلط کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے بیٹے اسد الرحمن کو بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے والدِبزرگوار کی تسکینِ قلب و جاں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے الزام عائد کر دیا کہ ’’ کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے ‘‘۔ پی ٹی آئی کی خاتون ممبر اسماء عزیز نے تقریر میں مداخلت کی کوشش کی تو جے یو آئی کے ایک معزز رکنِ قومی اسمبلی جس انداز میں برہم ہوئے اُسے ہماری روایات میں کسی بھی طور پر مناسب نہیں کہا جا سکتا البتہ پارلیمانی روایات کے بارے میں میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ۔

 

موجودہ حکومت پرکشمیرکی سودے بازی کا الزام مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایک تسلسل کے ساتھ عائد کیا جا رہا ہے با الکل اُسی طرح سے جس طرح سے وہ وزیر اعظم عمران خان کو یہودی لابی کا نمائندہ قرار دینے پر بضد ہیں حالانکہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا طرزِ عمل ان کی ذاتی پسند اور ناپسند کے تابع رہا ہے ۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کار تو یہی ہے کہ ایمان اور عقائد کے حوالے سے دوسرے کی زبان سے کیے گئے اقرار کو تسلیم کیا جا نا چاہیے ۔ ہمارے ہاں علمائے کرام کو پرکھنے کا معیار بھی یہی ہے کہ ہم ان کی تقاریر اور درس وغیرہ سُن کر ہی انہیںاُس درجے پر فائز تسلیم کرتے ہیں جو علمائے حق کا ہوتا ہے ورنہ عمل کی میزان پر کسی کو بھی تولنا اور پرکھنا بہت مُشکل کام ہے ۔

 

اسلام آباد میں اپوزیشن کی’’ بنجمن سسٹرز ‘‘ کے ترجمان مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کے موجودہ حالات کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان کو ٹہرایا تو ذہن ماضی کی طرف لوٹ گیا ۔ اس مسئلہ کی بھیدوں بھری کائنات کے مختلف ابواب سامنے آ گئے ۔

جموں و کشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے کالے قانون آرمڈ فورسسز سپیشل پاور ایکٹ کے نفاذ کے خلاف مہم عروج پر تھی اور 1990 ء کے شہدائے گاؤکدل، شہدائے ہندواڑہ اور شہدائے کپوارہ کی برسیوں کے مواقع پر تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری تھا، حُریت کانفرنس جموں کشمیر سمیت دیگر کشمیری جماعتوں کے قائدین یہ کہتے سُنے جا رہے تھے کہ مظلوم کشمیریوں کو اللہ کی مدد اور نصرت کے بعد پاکستان سے اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ اس موقع پر زمانہ شناش مردِ حریت سید علی گیلانی نے پاکستانی حکومت سے قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی قیادت کشمیر کاز سے آگاہ نہیں ہے ‘‘۔

 

سیدعلی گیلانی کشمیر کے دبستانِ حُریت کا وقار ہیں ۔جنت نظیر کشمیر اُن کا ستارہ ہے اور وہ اس بہشت برُوئے زمین کے بیٹے اور تحریک آزادی کشمیر کی رینگتی خون کی شریان ہیں ۔ان کے یہ حروفِ صدق سُن کر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پھولوں کا موضوعِِ سُخن شعلوں کی پہچان بن گیا ہے ۔ حریت رہنماء کا یہ بیان ہماری قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کے لیے کافی تھا۔ اُس وقت مُلک میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی ۔ اس حکومت کی اپنی ترجیحات اور مقاصد تھے ۔ اس لیے میاں نواز شریف کی حکومت نے سید علی گیلانی کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ با لآخر سید علی گیلانی کو اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے پاکستان میں جولائی2018 ء کے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سے برطرفی کے لیے سید علی گیلانی کا یہ مطالبہ اس کمیٹی کی کارکردگی پر حُریت لیڈروں کے عدم اعتماد سے بڑھ کر مایوسی کا اظہار تھا ۔ ان دنوں کشمیریوں کے غم سے نڈھال ہونے والے مولانا نے جتنا عرصہ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سنبھالے رکھی کشمیر کاز سے وابستہ طبقات کی مرتعش سانسیں سکوت میں رہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی پس منظر کشمیر سے وابستگی کا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔

 

ماضی کے حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کشمیر کمیٹی کی سربراہی خراج کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو’’ ادا‘‘ کیے رکھی۔ ایک مرتبہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں حکومت کی حمایت کے عوض وہ اس منصب پر فائزکیے گئے۔ دوسری مرتبہ میاں محمد نواز شریف نے بھی انہیں اسی اعزاز کا مستحق سمجھا ۔ دونوں مرتبہ مولانا فضل الرحمن کی اس تعیناتی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً آوازیں بُلند ہوتی رہی ہیں لیکن حکمرانوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔ صورتحال شاید کچھ ایسی رہی کہ

وہ پریشاں تھا کہیں زندہ نہ ہو کوئی ضمیر
تخت پر قابض ہوا تحقیق کر لینے کے بعد

مولانا فضل الرحمن ہمیشہ ایک فعال سیاستدان کے طور پر سیاست میں سرگرم رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ قائد حزب اختلاف رہے ۔ ایک طویل عرصہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ مرکز کے اقتدار میں بھی شریک یا معاون رہے اب بھی وہ سیاست میں بہت زیادہ موثر ہیں ۔ پاک چائنا راہداری منصوبے کے روٹ کو اپنی مرضی سے موڑنے کا معرکہ سر انجام دے چُکے ہیں ۔ لیکن جس منصب کے سبب وہ قومی خزانے سے مراعات سمیٹتے رہے اور پرٹوکول کے مزے لوٹتے رہے اس کی جانب توجہ دینے کی فرصت انہیں کم ہی ملی ۔ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے کے بیانات کو ہی اُٹھا کر دیکھ لیجیے مولانا کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں دیے گئے بیانات اُن کادسواں حصہ بھی نہیں ہیں ۔

 

سید علی گیلانی جیسی اوالعزم شخصیت کی جانب سے پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی تبدیلی کے مطالبے پر ہماری حکومت کان دھرتی اور کمیٹی کا احتساب کرتی تو آج مولا نا کو اس قومی مسئلے کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا موقع نہ ملتا ۔ جب بھی مولانا کی اس کارکردگی کا خیال آتا ہے تو مجھے ر سید نصیر شاہ کے یہ اشعار شدت کے ساتھ یاد آجاتے ہیں

۔
سسک کے مر گئی خوشبو گلاب قتل ہوئے
تمہارے عہد میں لوگوں کے خواب قتل ہوئے
دہکتے رہ گئے ہونٹوں پہ پیاس کے دوزخ
کئی حسین سرِِ سیل آب قتل ہوئے
فضا کی حشر زا دہشت دلوں پہ مہر ہوئی
دماغ و دل میں سوال و جواب قتل ہوئے
کہاں سے آئے کرن کوئی دستگیری کو
کہ حرف و لفظ کے سب ماہتاب قتل ہوئے
قلم کے قتل کا کیسے قصاص مانگیں گے
جلیسِ علم انیسِ کتاب قتل ہوئے
کباب سیخ سمندر کی موج ہوئی
ہوا ہلاک ہوئی حباب قتل ہوئے
جہانِ علم میں بھی دانشوروں کا قتل ہوا
خرد نواز جو تھے خانہ خراب قتل ہوئے
ّّّّّّّّّّّ_________


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر