وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان تحریک اور حکومت
(جلال نُورزئی) قسط نمبر(7)

هفته 02 نومبر 2019 طالبان تحریک اور حکومت <br> (جلال نُورزئی) قسط نمبر(7)

طالبان کی تحریک اور حکومت نے بلاشبہ کارہائے نمایاں انجام د یے ۔مگر ان کی تشہیر اور دنیا کو دکھانے کی ان کے باس کوئی ذریعہ و وسیلہ نہ تھا۔ گو یا انہیں ذرائع ابلاغ کہ جن کے ذریعے جنگیں جیتی جاتی ہیں کی اہمیت و ضرورت کا ادراک نہ تھا۔ حال یہ کہ ناقدین، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، سیاسی حلقے اور کئی ممالک ذرائع ابلاغ کے ذریعے طالبان کے خلاف متعصبانہ ، غیر حقیقی ،یکطرفہ و لغو باتیں عام کرتے و پھیلاتے۔ اور دنیا اسے سچ و حقیقت تسلیم کر تی ۔ انہیں وحشی ، تعلیم و تہذیب سے نا آشنا متعارف کراتے۔ قتل طالبان ہوتے جبکہ دنیا کو بتایا جاتاکہ طالبان مخالفین کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ طالبان میڈیا کا استعمال کرتے اور ابلاغی توسط سے اپنا مؤثربیانیہ دنیا کے سامنے رکھتے تو یقینی طور پر ان کے خلاف منفی و گمراہ کن پروپیگنڈہ بے اثر ہوتا ۔ افغان جہاد کے معروف کردار طورن اسماعیل سال1997ء میں طالبان کے قیدی بنے ۔ تین سال بعد بڑی آسانی سے فرار ہوکر ایران پہنچ گئے۔ طورن اسماعیل فرار میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ کندھار میں قیدی کی بجائے ایک نظر بند کی حیثیت سے رکھے گئے تھے۔ حکمت طالبان کی یہ تھی کہ جب پورے ملک میں امن قائم ہوگا تو انہیںرہا کردیا جائے گا ۔وہ سمجھتے تھے کہ مخالف بڑی شخصیات جنگ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندہ رحیم اللہ یوسفزئی کو اپنے انٹرویو میں طورن اسماعیل نے تسلیم کیا کہ طالبان نے ان پر کسی قسم کی سختی کی اور نہ ہی زندان میں ڈالے گئے تھے ۔ طورن نے یہ تک کہا کہ’’ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم طالبان کی مدد کرتے، مگر افسوس کہ ہم ان کے مد مقابل کھڑے ہوگئے‘‘۔ حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کے قتل کے واقعہ کو بھی حقیقت کے برعکس پیش کیا گیا۔ ہلاکت کے اس واقعہ کے باب میں طرح طرح کی من گھڑت کہا نیاں بیان کی گئیں ۔اس کی آڑ لے کر تعصبات پھیلائے گئے ۔

طالبان کے کئی سرکردہ رہنماء اس بارے اصل تفصیل پیش کرچکے ہیں ۔ جن کے مطابق مارچ1995ء میں طالبان کابل کی حدود میں داخل ہوئے ۔ حزب وحدت، احمد شاہ مسعود اور دوسرے جنگجئوں نے فرار کی راہ اختیار کرلی ۔ عبدالعلی مزاری برقعہ میں اپنے چند کمانڈروں کے ہمراہ کابل سے نکلنے کوشش کے دوران گرفتار کر لیے گئے ۔ فوراً ملا عمر کو اطلاع دی گئی ۔جنہوں نے مزاری کو ہیلی کاپٹر میں قندھار منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ مقصد انہیں قیام امن تک اپنی حفاظت میں ر کھنے کا تھا۔ ہیلی کاپٹر غزنی کی فضاء عبور کررہا تھا کہ اس دوران عبدالعلی مزاری کے ایک کمانڈر ابو ذر نے طالب سے کلا شنکوف چھین لیا جس کی اس وقت آنکھ لگ گئی تھی اور پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اتارنے کا کہا ۔اور متذبذب پائلٹ پر گولی چلائی جو اس کے بازو میں لگی ۔ چناں چہ ہیلی کاپٹر اتارا گیا ۔ عبدالعلی مزاری اور اس کے کمانڈر اتر کر بھاگ نکلے ۔اتفاقاً اس وقت طالبان عساکر گاڑیوں میں غزنی شہر کی طرف جار ہے تھے ۔ انہوںنے ہچکولے کھاتے ہیلی کاپٹر کو دیکھ لیا تھا۔ اور بھاگنے والے افراد پر فائرنگ کی ۔

ملا عمر نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعہ غیر ارادی تھا ،انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ افراد کون تھے ۔ملا عمر نے عبدالعلی مزاری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ۔ چوں کہ طالبان کے پاس ابلاغ کا مؤثر و جدید ذریعہ نہ تھا۔ اور یہ قتل دنیا کو یوں باور کرایا گیا کہ مزاری فضاء سے زندہ پھینکے گئے ۔ عبدالعلی مزاری نے دوستم ، احمد شاہ مسعود اور جنرل عبدالمالک سے ملکر ہزاروں طالبان کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملا عمر انہیں قیدی رکھنا چاہتے تھے۔ ملا عمر نے احمد شاہ مسعود کے قتل پر بھی نا خوشی کا اظہار کیا ۔اور واضح کیا کہ وہ نہ قاتلوں کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ طالبان املاک فصل و باغات تباہ کر نا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ کابل کے شمال میں پنج شیر کی جانب پیشرفت کے دوران باغات سے مسلسل فائرنگ کے پیش نظر ملا عمر سے رہنمائی مانگی گئی کہ آیا باغات کو نشانہ بنایا جائے۔تو اس پر علماء نے فتویٰ دیا کہ محض اس باغ کو نشانہ بنایا جائے جہاں سے زیادہ حملے ہوتے ہوں۔ تاکہ باقی باغات کو نقصان نہ پہنچے۔ یہاں تک کہ طالبان کو کسی کے باغ سے میوہ کھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ ننگرہار کے گورنر مولوی عبدالکبیر نے ایک بار اپنے سپاہیوں کے لیے باغ خرید لیاتاکہ وہ اس سے انگور کھائیں ۔ یقینا طالبان سے ارادی و غیر ارادی غلطیاں بھی سر زد ہوئیں۔ جن کا بعد میں ان کی جانب سے اظہار بھی ہوا۔ البتہ ڈاکٹر نجیب کی پھانسی کو جائز سمجھا۔یقینا ڈاکٹر نجیب بڑی زیادتیو ں کے مرتکب تھے ۔ روس کے پروردہ تھے ۔اور دورصدارت میں بھی ان کا کردار مجرمانہ تھا۔ بہر حال ان تمام زیادتیوں و جرائم کے باوجود ڈاکٹر نجیب کے ساتھ عفو و در گزر کا معاملہ ہونا چاہیے تھا ۔ وہ طالبان کے قیدی نہ تھے۔ ا پنوں کی دغا نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا ۔ ان کو افغانستان میں رہنے یا باہر جانے کا اختیار دے دینا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر نجیب اپنے لوگوں کا ڈسا ہوا تھاان سے پاکستان کے دوستوں نے بھی وفا نہ کی۔ زندہ رہتے تو یقینا بہت سارے تلخ حقائق کہتے اور لکھتے اور بہت سارے لوگ منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔

طالبان کے بعض سرکردہ رہنماء بامیان کے بدھا کے مجسموں کو ٹینک کے گولوں سے نشانہ بنانے کے اقدام کو درست سمجھتے ہیں ۔ یہ لکھتے ہیں کہ ملا عمر نے علماء سے رائے لی، جنہوں نے مجمسے توڑنے کا فتویٰ دیا ۔یعنی یہ مسئلہ شرعی سمجھا گیا۔ پاکستان کی حکومت نے طالبان حکومت سے اس اقدام سے گریز کی درخواست کی تھی۔ یہاں تک کہ یونیسکو کی درخواست پر قطر کی حکومت کے وزیر خارجہ شیخ احمد عبداللہ زیدال محمود کی قیادت میں نامور علماء قندھار گئے ۔ ملا عمر اور حکومتی مناصب پر موجود افغان علماء سے ملاقات کی۔ جن میں عالم اسلام کے مشہور و جید عالم دین علامہ یوسف ا لقرضا وی ، مصر کے مفتی اعظم فرید واصل، قطر کے شیخ عبدالقادر العماری ، قطر کے شیخ محمد الراوی، محمد ھیشم الخیاط، عرب کے فہمی ہو یدی اورقطر کے وزارت خارجہ کے چند علماء شامل تھے۔ یہ وفد 11مارچ2001ء کو گیا تھا ۔ ان علماء کے جانے کے بعد طا لبان حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے تھا ۔ خود طالبان کہتے تھے کہ بدھا کے مجسموں کی عبادت نہیں ہو تی ہے۔البتہ بعض طالبان رہنماوں نے اسے احتجاج کا جواز فراہم کیا ۔طالبان حکومت کے ایک گشتی سفیر رحمت اللہ باہمی نے 10 مارچ 2011 ء کو امریکا کے جنوبی کیلی فورنیا کی یونیورسٹی لاس انجیلس میں اپنے خطاب میں توجہی پیش کی تھی کہ’’ ان کے ملک افغانستان پر سیاسی و معاشی پابندیاں عائد ہیں۔دنیا قحط زدہ افغانستان میںخوراک کی قلت، خوراک ادویات کی عد م دستیابی سے بچوں کی اموات ، خواتین کی زچگی کے دوران اموات کی روک تھام میں مدد دینے کی بجائے ان مجسموں کو محفوظ بنانے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی فکر میں ہے ۔ان کے مطابق یونیسکو اور سویڈن کی ایک این جی او اس مقصد کے لیے پروجیکٹ لے آئے تھے ۔ حکومت نے ان کے سامنے درپیش سنگین صورتحال رکھی۔اور اپنی مشکلات و ضرویات کو مشروط کیا ۔طا لبان نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اپنی عوام اوربچوں کی زندگیاں عزیز ہیں اورا نہیں ان مجسموں کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘ ۔بہر حال حقائق خواہ کچھ بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بدھا کے مجسموں کو نقصان پہنچانا طالبان کے لیے بدنامی کا باعث بنا۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر