وجود

... loading ...

وجود
وجود

سفارت کاری کا ورلڈکپ۔۔۔!َََ
(راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 30 ستمبر 2019 سفارت کاری کا ورلڈکپ۔۔۔!َََ <br> (راؤ محمد شاہد اقبال)

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مجھ ناچیز کی رائے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو آپ سفارت کاری کا ایک عالمی مقابلہ بھی قرار دے سکتے ہیں کیونکہ سفارت کاری کے اِس عالمی مقابلہ میں سفارت کاری کے تمام کھیل بالکل اُسی طریق پر کھیلے جاتے ہیں۔ جن اُصولوں کے عین مطابق دنیا کے کسی بھی کھیل یعنی فٹبال کا عالمی مقابلہ ،کرکٹ کا عالمی کپ یا پھر ہاکی کا ورلڈ کپ منعقد ہوتاہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں اوراقوامِ متحدہ کے تحت کھیلے جانے والے سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بے شمار قدرِ مشترک انتہائی آسانی سے تلاش کی جاسکتیں ہیں۔ مثلاًجیسے کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں دورانِ میچ حریف کھلاڑیوں کے درمیان جنگ کی سی کیفیت صاف محسوس کی جاسکتی ہے بالکل اِسی طرح سفارت کاری کے عالمی کھیل میں بھی سفارتی کھلاڑیوں کے مابین جنگجویانہ قسم کے’’سفارتی حالات‘‘ کا پیدا ہوجانا بالکل عام سی بات ہے ۔

دوسری مماثلت یہ ہے کہ جہاں کھیلوں کے عالمی مقابلے دنیا بھر میں براہِ راست دکھانے کے لیے اسپورٹس چینل خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔وہیں نیوز چینل بھی سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کی براہِ راست نشریات دنیا کے ایک ایک فرد تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھتے ۔ اس کے علاوہ جس طرح کھیل کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے والے ٹیموں کو عالمی درجہ بندی یا اُن کی رینکنگ کے مطابق آسان اور مشکل حریف دے دیئے جاتے ہیں۔ کچھ اِسی طرح سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی شریک ممالک کے درمیان جاری سفارتی میچوں کے وقت اور مقام کا حتمی فیصلہ بھی اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ عالمی سیاسی درجہ بندی کے فارمولے پر ہی کردیاجاتاہے۔حد تو یہ ہے کہ جس طرح کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں امپائرنگ کے ناقص اور متازعہ فیصلے ’’فیورٹ ٹیمیں ‘‘ اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں بالکل ایسے ہی سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی پانچ طاقتور ’’فیورٹ ‘‘ ممالک اقوامِ متحدہ کے جانبدار امپائروں سے اپنی مرضی کے فیصلے باآسانی کروالینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔

حسنِ اتفاق تو یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت فقط کھیل کے عالمی مقابلوں میں ہی ایک دوسرے کے روایتی حریف نہیں ہیں بلکہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی اِن دونوں ممالک کی حریفانہ سفارتی کشمکش دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اورجس طرح کرکٹ کے عالمی مقابلہ میں سب سے سنسنی خیز مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا کہلاتا ہے ۔عین اُسی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں جاری سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی نظریں فقط پاکستان اور بھارت کے سفارتی میچ پر ٹکی ہوتی ہیں ۔مگر شومئی قسمت کہ بھارت کی سفارتی ٹیم گزشتہ کئی برسوں سے سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں زبردست سفارتی کامیابیاں سمیٹتی آرہی ہے اور گزشتہ 10 برسوں سے پاکستان کی سفارتی ٹیم اِس عالمی مقابلہ میں ایک بار بھی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہی ہے ۔

ماضی میں سفارت کاری کے عالمی مقابلوں میں بھارت کے خلاف ہماری مسلسل مایوس کُن کارکردگی پر مایہ ناز سفارتی تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی سفارتی ٹیم نے جان بوجھ کر اپنا ’’فطری سفارت کاری ‘‘ کا کھیل کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور پاکستانی سفارتی ٹیم کے ناعاقبت اندیش کپتان، بھارت کی ٹیم کے کپتان کے ساتھ ’’تجارتی فکسنگ‘‘ کرکے سفارتی فتوحات کو جان بوجھ کر بھارت کو دان کرنے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی میں پے درپے ہونے والی عالمی سفارتی شکستوں سے تنگ آکر اِس مرتبہ پاکستانی عوام نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی صورت میں ایک بالکل نیا ’’سفارتی کپتان‘‘ منتخب کرکے پاکستان کی سفارتی ٹیم کے ہمراہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھیجا تھا ۔اِس اُمید کے ساتھ کہ وہ سفارت کاری کے اِس عالمی مقابلہ میں بھارت سے اپنی پچھلی تمام شکستوں کا بدلہ سود سمیت چکادے گا۔

پاکستانی عوام کی توقعات اور خواہشات جو بھی ہوں مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں کشمیر کا میچ جیتناایک بہت ہی کھٹن اور مشکل معرکہ تھا ۔خاص طور اُن حالات میں جبکہ بھارت کی سفارتی ٹیم مسلسل دوسری بار اپنے سفارتی کپتان نریندر مودی کی قیادت میں سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں شرکت کے لیے آئی ہوئی ہو اور اُس کے مقابل میں پاکستان کی سفارتی ٹیم ایک ناتجربہ کار’’سفارتی کپتان ‘‘عمران خان کے ساتھ پہلی بار سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے میدان میں اُتری ہو۔بظاہر سفارت کاری کے میچ میں تجربہ اور ناتجربہ کاری کا کوئی مقابلہ نہیں بنتا تھا مگر اُس کے باوجود پاکستان کے سفارتی ٹیم کے کپتان وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے ہر میچ میں زبردست اَپ سیٹ ’’سفارتی کارکردگی‘‘ کا مظاہرہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی اور کئی نازک مقامات پر تو انہوں نے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے ’’سفارتی چھکے ‘‘چھڑا کر اُن کے دلوں پر پاکستان کے فطری سفارتی کھیل کی دھاک بھی بٹھا دی ۔اَب وہ الگ بات ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے ہر میچ میں ہمیں امپائرنگ کے جانبدارانہ اور متنازعہ فیصلوں کا بھی باربار سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہماری کئی یقینی سفارتی فتوحات عین آخری لمحات میں شکست میں تبدیل ہوگئیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھلے ہی ہم فاتح نہ ٹہرسکے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ اِس بار ہمارے سفارتی کپتان نے سفارتی جیت کا جشن بھارت کی سفارتی ٹیم کو بھی منانے نہیں دیاہے اور یوں کشمیر کی ٹرافی ایک بار پھر سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں والی الماری میں اگلے عالمی مقابلہ کے شروع ہونے تک کے لیے واپس سجا دی گئی ہے۔مگر ایسا صرف کشمیر کی ٹرافی کے ساتھ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ کشمیر کی ٹرافی کے ہمراہ فلسطین،عراق ،شام ،میانمار اور افغانستان کی’’سفارتی ٹرافیاں‘‘ بھی فقط رونمائی کے بعد میدان سے واپس اُٹھاکر اقوامِ متحدہ کی تجوری میں قید کردی گئی ہیں ۔بس کھیلوں کے عالمی مقابلوں اور سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے مابین اکلوتا یہ ہی فرق ہے کہ سفارت کاری کے ٹورنامنٹ کے اختتام پر حتمی فاتح کوئی بھی نہیں ہوتا یعنی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں شرکت کرنے والی سفارتی ٹیمیں خالی ہاتھ ہی اِس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے آئیں تھیں اوراَب ایک ایک کر کے خالی ہاتھ ہی واپس اپنے اپنے ملک لوٹ رہیں ہیں ۔مقامِ فکر تو یہ ہے کہ سات اَرب آبادی والی اِس دنیا میں ہے کیا کوئی ایک بھی ایسا عقلمند شخص نہیں ہے جو دنیا کے 195 ممالک کے سربراہوں سے فرداً فرداً پوچھ سکے کہ بھئی جب آپ کی اقوامِ متحدہ نے دنیا کا کوئی مسئلہ حل ہی نہیں کرنا ہوتا تو پھرہر برس یہ سب تام جھام سجاتے کیوں ہو؟ ۔بہرحال ہم تو اقوامِ متحدہ کی شان میں بس اتنا ہی کچھ کہہ سکتے ہیں کہ کاش !دنیا کے195 ممالک کے سربراہوں نے جو تالا اپنی عقلوں پر لگایا ہوا ہے ،ایسا ہی ایک بڑا سا تالا وہ سب مل کر اقوامِ متحدہ کے مین گیٹ پر بھی لگادیں تاکہ سفارت کاری کے نام پر ہونے والا سالانہ عالمی مذاق تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر