وجود

... loading ...

وجود
وجود

سعودی عرب پر حملے کے اصل محرکات۔۔۔؟(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 23 ستمبر 2019 سعودی عرب پر حملے کے اصل محرکات۔۔۔؟(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

اگرچہ دو آئل فیکٹریوں پر کروز میزائل حملے سعودی عرب کی سرزمین پر ہوئے ہیں لیکن امریکی میڈیا کے شورشرابے سے محسوس ایسا ہورہاہے کہ جیسے یہ حملے امریکا پر ہو گئے ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِن حملوں کا بدلہ جلد ازجلد ایران کو نیست ونابود کر کے لینا چاہتے ہیں ۔ بقول ٹرمپ اُنہوں نے ایران پر حملے کے لیے 15 اہداف لاک کردیے ہیں جنہیں و ہ کھڑے کھڑے تباہ کرسکتے ہیں اور بس سعودی عرب کی اجازت کا انتظار ہے ۔یعنی جیسے ہی سعودی عرب امریکا کو ایران پر حملہ آور ہونے کا کہے گا امریکا اپنی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایران کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔ لیکن کیا امریکا واقعی ایران پر حملہ کرنے کے لیے سنجیدہ ہے ؟ یا امریکاکے لیے ایران پر حملہ آور ہونااتنا ہی سہل ہے جتنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر کو باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں ؟خاص طور پر اُن حالات میں جبکہ ایران سعودی عرب کے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی کو قبول کرنے سے یکسر انکاری ہو۔ اس کے علاوہ خطے کی دو انتہائی اہم عسکری طاقتیں روس اور چین بھی امریکا کے پیش کیے گئے اُن مبہم ثبوتوں کو مسترد کرچکے ہیں ۔جن کے مطابق امریکی انٹیلی جنس سے کچھ سیٹلائٹ تصاویر جاری کی گئی ہیں جن پر سعودی عرب پر ہونے والے حملوں میں ایران کو ملوث کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ ایران کے خلاف جس حتمی نتیجہ پر پہنچنے میں امریکا کو چند منٹ لگے ۔سعودی عرب اُس نتیجہ پر حملہ کے ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی نہیں پہنچ سکا ہے ۔ اِس معاملہ پرجو باقاعدہ سرکاری موقف اَب تک سعودی عرب کی فوج کے ترجمان کرنل ترکی المالکی کی طرف سے دیاگیا ہے اُس کے مطابق ’’ابتدائی تحقیقات سے فقط اتنا ہی معلوم ہوسکاہے کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں ایرانی ہتھیار استعمال کیے گئے لیکن یہ حملے یمن سے نہیں کیے گئے جبکہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے میں بھی کوئی سچائی نہیں پائی گئی ہے ۔ہماری تحقیقات ابھی جاری ہیں ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ سعودی عرب پر یہ حملے کہاں سے کیے گئے؟‘‘

سعودی عرب کے سرکاری موقف سے خوب اچھی طرح واضح ہوگیاہے کہ ایران کے حملوں میں براہِ راست ملوث ہونے کی امریکی رائے کو قبول کرنے میں سعودی عرب کے اعلیٰ حکام ہچکچاہٹ کا شکارہیں ۔ دوسری جانب ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اُن کے ملک پر سعودی عرب یا کسی اور طرف سے حملہ کیا گیا تو وہ اُس کے جواب میں سعودی عرب پر حملہ کرنے کے بجائے خطے میں موجود امریکا کے بحری بیڑوں اور بری بیسز کو اپنے میزائلوں کا نشانا بنائیں گے۔حیران کن بات یہ ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی سعودی آئل کمپنی آرامکو کی فیکٹریاں عبقیق اور خریض سعودی عرب کے جس مشرقی صوبے میں واقع ہے وہ علاقہ چاروں طرف سے مکمل طور پر امریکی افواج کے زیرِ انتظام ہے اور اِس علاقہ کے اردگرد امریکا کی بے شمار ملٹری بیسز دنیا کے جدید ترین ڈیفنس سسٹم کے ساتھ قائم ہیں ۔ اَ ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے جدید ترین مواصلاتی نظام کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو ، چار کروز میزائل امریکی افواج کی مرضی کے بغیر آئل کی فیکٹریوں کو نشانا بناسکیں۔مجھے تو خدشہ ہے کہ کہیں یہ نائن الیون کی طرز کا امریکی سی آئی اے کا پوری طرح سے سوچ سمجھ کر ترتیب دیا گیا مشرقِ وسطیٰ کا نیا نائن الیون حملہ تو نہیں ہے ۔ جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کے خطہ کو نئی جنگوں میں دھکیل کر علاقہ میں اسرائیل کی بالادستی کو قائم کرنا ہو۔ کیونکہ اگر خطہ کے سب ہی ممالک جنگوں میں مصروف ہوجائیں گے تو پھر اسرائیل کی عسکری قوت کو چیلنج کرنے والا کوئی بھی ملک موجودنہیں رہے گا اور شاید امریکا یہ ہی چاہتا ہے کہ اسرائیل کی شرق سے غرب تک ایک وسیع و عریض صیہونی ریاست قائم کرنے کی راہ میں کوئی ادنی سی بھی رکاوٹ باقی نہ رہے۔

سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدلعزیز نے بالکل درست فرمایا ہے کہ ’’یہ حملے سعودی عرب کی تنصیبات پر نہیں بلکہ عالمی معیشت پر کیے گئے ہیں‘‘۔ اِس وقت سعودی عرب دنیا میں کروڈ آئل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے ۔ لہذا اِس حملہ کو پلان کرنے والی بین الاقوامی طاقتوںکی شدید خواہش ہے کہ دنیا بھر خاص طور پر یورپ کو آئل کے بحران کے خوف میں مبتلا کر کے کسی طرح اُنہیں بھی اِس جنگ کی طرف دھکیلا جائے ۔ اگر یہ پلان کامیاب ہو جاتا ہے اور سعودی عرب ،ایران،ترکی اور روس کی کسی ایک غلط فہمی کی وجہ سے پورا خطہ نئی جنگوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے تو آبنائے ہرمز جہاں سے یورپ کو نوے فیصد آئل کی ترسیل ہوتی ہے مکمل طور پر بند ہوجائے گی اور یورپ کا مشینی پہیہ مکمل طور پر جام ہوجائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس ساری صورت حال سے امریکا پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا کیونکہ امریکا 70 فیصد آئل خود پیدا کرتا ہے جبکہ بقایا 30 فیصد آئل کی تجارت وہ اپنے پڑوسی ملک وینزویلا کے ساتھ کرتا ہے ۔اَب کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال ایک بات پوری طرح سے طے ہے کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں چھڑنے والی اِس نئی جنگ میں عملی طورپر کسی صورت شامل نہیں ہوگااور اِس کے آثار ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہونا شروع بھی ہوگئے ہیں ۔ کچھ دن پہلے تک جو ٹرمپ سعودی عرب کے دفاع میں ایران پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار بیٹھا تھا آج وہی ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ ہم سعودی عرب میں اپنے فوجی فقط اپنی ملٹری تنصیات کی حفاظت کے لیے بھیج رہے ہیں کیونکہ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمیں لازمی سعودی عرب کے دفاع میں اُس کی جنگ میں کودنا پڑے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 1930 میں جب آل سعود کے سربراہ محمد بن سعود نے سعودی عرب پر بادشاہت قائم کی تو اس نے امریکی صدر روز ویلٹ سے دفاعی معاہدہ کیا۔ جس کے مطابق امریکا سعودی عرب کا تحفظ کرے گا اور بدلے میں سعودی عرب امریکا کو سستا تیل فراہم کرے گا۔امریکہ کی طوطا چشمی ملاحظہ ہو کہ کم و بیش سو سال تک سعودی عرب سے مفت میں تیل حاصل کر نے کے بعد وہ اپنا ایک فوجی اور ایک گولی بھی سعودی عرب کے دفاع میں خرچ کرنے کا روادار نظر نہیں آتا۔امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے شاید بالکل سچ ہی کہا تھا کہ ’’ امریکہ کی دوستی ،اُس کی دشمنی سے زیادہ نقصان دہ ہے ‘‘۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر