وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں تقسیم کی لکیریں

جمعرات 12 ستمبر 2019 بھارت میں تقسیم کی لکیریں

معروف امریکی جریدے”ٹائم“ نے 2014ء میں اُسے دنیا کی ایک سو موثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا اور اُسے ”بھارت کے ضمیر“ کا نام دیا۔ دو سال قبل اُس کا دوسرا ناول ”The Ministry of Utmost Happiness“(بے پناہ شادمانی کی مملکت) سامنے آیا۔بیس برس قبل اُس کا پہلا ناول ”The God of Small Things“() شائع ہوا تھا، جسے 1997ء میں ”مین بکر پرائز“ سے نوازا گیا۔ اس دوران میں اُس کی متعدد سیاسی اور غیر افسانونی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں، جس نے ثابت کیا کہ ”ارون دھتی رائے“واقعی ایک ضمیر کا نام ہے۔ اُسے بھارت کا ضمیر کہنا شاید موزوں نہ ہو، درحقیقت وہ انسانیت کا ضمیر کہلانے کی مستحق ہیں۔ اپنے دوسرے ناول کے جرمن ترجمہ کے بعد جب اُس کی تعارفی تقریب برلن میں ہوئی تو ارون دھتی رائے سے پوچھا گیا کہ اُس کے پہلے اور دوسرے ناول کے درمیان بیس برس کا وقفہ کیوں ہوا؟ مصنفہ کا جواب حیرت انگیز تھا:جب میں نے اپنا پہلا ناول لکھا جو انتہائی کامیاب رہا تھا، تو اس کے کچھ ہی دیر بعد بھارت میں ہندوؤں کی برتری کی حامی دائیں بازو کی ایک ایسی بنیاد پرست جماعت اقتدار میں آ گئی، جس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے کئی ایٹمی دھماکے کیے، جن پر بھارت میں بہت خوشیاں منائی گئیں۔تب میری تصویریں ہر میگزین کے ٹائٹل پر شائع ہوتی تھیں اور مجھے نئی بھارتی سپر پاور کے چہرے کے طور پر مارکیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ مجھے یہ بات بہت بُری لگی، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، جسے اس دور کے حکمرانوں نے پسند نہیں کیا تھا“۔کیا واقعی کوئی اس لیے خود کو عاجزانہ طور پر ایک تخلیقی عمل سے الگ کرسکتا ہے جہاں اُس کی بات کو اُس کے درست سیاق وسباق سے ہی علیحدہ کردیا جائے۔ بھارت کے ہندو انتہا پسند تاریخی طور پر صدیوں سے یہی کام کرتے آتے ہیں۔ ارون دھتی رائے نے اُسی تقریب میں ایک اور غیر معمولی مگر معروضی فقرہ کہا:آج کا بھار ت خود کو اپنی ہی نوآبادی بناتا جارہا ہے“۔
استعمار سے بہیمانہ وابستہ نو آبادی کاننگ ِ انسانیت تصور بھی کچھ حقوق کی فراہمی کے مغالطے سے منسلک ہیں۔ مگر بھارت میں ہندوتوا کا غلبہ اس سے زیادہ بھیانک طور پر اپنی”نوآبادی“تخلیق کرتا ہے۔ ”یہ نوآبادی“ عالمی استعماریت کی نوآبادیوں سے زیادہ پست اور قابل حقار ت طور پر سانس لیتی یا جینے کی اداکاری کرتی ہے۔ اس کا تاریخی مشاہدہ ہندو سماج میں ذات پات کے وحشت ناک نظام میں شودروں کے رہن سہن (اگر اسے رہن سہن بھی کہا جاسکتا ہو)سے لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ سرمایہ کے مندر پر سچ کے قتل کو پوجا بنا چکے۔ چنانچہ ہندوتوا کے زیراثر آرایس ایس کے غنڈوں کے ہجومی تشدد (موب لنچنگ)پر مبنی واقعات پوری طرح سامنے نہیں آتے۔ اگر متوازی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ واقعات پوری طرح عیاں ہو جائیں اور مرکزی ذرائع ابلاغ کے لیے گریز ممکن نہ ہوتو وہ آرایس ایس غنڈوں کی شناخت چھپاتے اور نشانہ بننے والے مظلوموں کی ”ذات“ کو موضوع نہیں بناتے ہیں۔ گؤرکشکوں کے نام پر آرایس ایس نے مختلف ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے جتھے بنالیے ہیں۔جو مختلف لوگوں کو باقاعدہ نشانا بنا بنا کر قتل کررہے ہیں، پھراُسے بھیڑ یا ہجوم کا تشدد باور کرادیا جاتا ہے۔ ان جتھوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، جو خود برہمن رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ حد تویہ ہے کہ ان مظلوموں کی عدالتوں میں بھی کوئی شنوائی نہیں۔ صرف ایک مثال لیجیے!سال 2013ء کے مظفرنگر فسادات میں 65 افراد قتل کیے گئے تھے، جس میں سے مسلمان بوڑھوں کو جبراً بھاگنے کے لیے کہا گیا اور اُنہیں یوں بھگا بھگا کر قتل کردیا گیا،ان واقعات کے کل 41 مقدمات درج ہوئے تھے۔ جن میں 40 ملزمان تھے، گزشتہ دنوں انڈین ایکسپریس نے خبر دی کہ یہ تمام کے تمام ملزمان بری کردیے گئے۔ بھارت میں کسی بھی واقعے کو ایک ”کیس اسٹڈی“ بنالیں تو چند حقائق خود بخود سامنے آئیں گے۔عدالتوں میں منصفین کو ہندو فلسفے اور برہمن برتری کے جنون میں مبتلا کردیا گیا ہے۔پولیس کو ان ہی خطوط پر ڈھالا جارہا ہے۔ چنانچہ ہر واقعے میں مقتولین کے رشتہ داروں کو ایک دباؤ میں لے کر مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے باقی رہ جانے والے لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنے بیانات اور گواہی سے منحرف ہو جائیں، پولیس کو پابند رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ ہونے دیں۔ اور عدالتوں کے پاس حتمی احکامات ہیں کہ اُنہیں کس مقدمے میں کیا کیا کرنا ہے۔ اگر اس سب کے باوجود کوئی انصاف کے لیے مُصر ہو تو زیادہ بڑا المیہ اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ چل رہا تھا، لڑکی پر مقدمہ واپسی کا شدیددباؤ تھا۔ مگر باہمت لڑکی نے یہ مقدمہ واپس نہیں لیا تو برہمن لڑکوں نے اُسی دلت لڑکی کو انتقاماً دوبارہ اجتماعی زیادتی کا نشانا بنایا۔ چند ہفتے قبل بھارتی اخبارات نے ایک خبر چھپ چھپا کر چھاپی کہ ایک دلت کی ارتھی کو برہمن محلے سے گزرنے نہیں دیا گیا۔مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اس حوالے سے خبریں شائع یا نشر کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
بھارت کی اکثر ریاستوں سے ہجومی تشدد کی دل دہلا دینے والی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اترپردیش میں 28 سالہ سجیت کمار ہجومی تشدد سے بچا، جسے چور قرار دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح بہارکے ضلع سرن کے بنیاپور گاؤں میں تین افراد کو چوری کے الزام پر پکڑ کر ہلاک کردیا گیا۔ پٹھوری نندلال تولا میں تین نوجوانوں نوشاد، راجیو اور سریش کو مویشی چرانے کے الزام پر مار مار کر مارد یا گیا۔ضلع ارریا میں مہیش یادو، جھارکھنڈ میں تبریز اور دہلی میں قاری محمد اویس اسی طرح ہجوم کے ذریعے قتل کردیے گئے۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے اسے ایک ”مذہبی“ تعبیر دے رکھی ہے۔ اور وہ منظم طور پر ہجومی تشدد کے طریقے سے دلتوں ا ور مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر نشانا بنا رہے ہیں۔ ایک سال قبل راجستھان کے الور واقع رام گڑھ میں پچاس سالہ اکبر خان کو ہجومی تشدد سے قتل کیا گیا توآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ایک ٹوئٹ کیا تھا: گائے کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت جینے کا حق ہے اور ایک مسلم کو مارا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے پاس‘جینے ’کا بنیادی حق نہیں۔ مودی حکومت کے چار سال لنچ راج“۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان تمام حالات کے باوجود تازہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ گویا بھارت کو اپنی ہی نوآبادی میں بدلنے کے برہمن منصوبے کو ایک عمومی ہندوؤانہ تائید میسر ہے۔ بھارت کی تقریباً تمام ریاستوں میں ایک برہمن طوفان اُٹھا ہوا ہے۔ برہمن مقبوضہ کشمیر میں ”جبر“ کے ہتھیار سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں سرعت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت مجموعی طور پر ایک ہندو ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ یہ ایک عارغی رجحان(phenomenon) ہے تو وہ فاش غلطی کررہے ہیں۔ درحقیقت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان حالات کو بھانپ کر ہی ہندوستان میں دو قومی نظریے کی بات کی تھی۔ چند دن قبل بھارت میں ایک کتاب کی تقریب ِ رونمائی میں یہ نظریہ بانداز دگر دُہرایا گیا۔ قائد اعظمؒ کے یوم وفات(۱۱/ستمبر)پر ہم اپنے حیات بخش نظریے یعنی دو قومی نظریے کی تجدید کے زیادہ قابل ہیں، جب بھارتی مسلمان دو قومی نظریے سے دوری کو اپنی تاریخی غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔ایک بار پھر بھارت میں تقسیم کی لکیریں گہری ہورہی ہیں،اس میں اگر کوئی رکاؤٹ ہے تو وہ ہم پاکستانی ہیں۔ یہ موضوع اگلی نشست کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر