وجود

... loading ...

وجود
وجود

کچرا،سندھ اورکپتان کے خواب

جمعرات 12 ستمبر 2019 کچرا،سندھ اورکپتان کے خواب

انتہائی شرم اور افسوس کی بات ہے، کراچی آج کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، نہ صرف کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے بلکہ سڑکوں اور گلیوں کی تباہی اور بربادی کی المناک تصویر بھی پیش کررہا ہے۔ اوپر سے ستم یہ کہ شہر کا سیوریج نظام بھی مکمل طور پر برباد ہوچکا ہے۔مزید یہ کہ سرکاری اداروں کا نظام بھی برباد ہوچکا ہے اورکرپشن اور بدانتطامی انتہا کو چھو رہی ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ کراچی کی حالت سدھارنے پر صرف پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست کی جارہی ہے۔سندھ حکومت نے تو پچھلے گیارہ سالوں میں صرف کراچی پر اپنا قبضہ مضبوط بنانے کے سوا کوئی اقدام ہی نہیں کیا، نتیجہ شہری اداروں کی بربادی اور کرپشن کی انتہا کی شکل میں سامنے آیا۔
سندھ حکومت کے علاوہ اس معاملے میں ایک فریق ایم کیوایم بھی ہے۔جنہیں ایک زمانے میں صرف دھونس دھمکی اور دہشت گردی کی سیاست سیکام نکالنا آتا تھا، لیکن انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ اور بنیادوں کو کبھی مضبوط نہیں کیا، چنانچہ جیسے ہی ان کا دہشت گرد اسٹرکچر توڑا گیا،اس تنظیم کی تمام سیاست ہی دھڑام سے زمین پر آرہی۔باوجود اس کے کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات میں لولی لنگڑی حکومتیں ہونے کے باوجود یہ ان شہروں کے لیے تھوڑا بہت کام کرسکتے تھے مگر نہیں کیا،مانا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے شہری سندھ کو فندز دینے میں بے حسی سے کام لیا جاتا ہے اور بلدیات کے اختیارات پر بھی قبضہ ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی بلدیاتی حکومتوں کی بھی اپنی تھوڑی بہت کام کی نیت اورسنجیدگی نظر نہیں آتی۔ میئر کراچی سمیت بلدیاتی حکومتوں کے دیگر عہدیدار بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔
ایسے میں کراچی کی سیاست میں کودی پی ٹی آئی۔ اور چلائی ایک نام نہاد صفائی کی مہم۔ جس نے کراچی کے زخموں پر صرف نمک ہی چھڑکا۔کراچی والوں نے پی ٹی آئی کو بڑی امیدوں سے ووٹ دیئے تھے، لیکن وفاقی حکومت نے کراچی کو کوئی خصوصی اہمیت نہیں دی۔کراچی کے شہری دیکھتے ہی رہ گئے کہ وفاق، صوبائی حکومت پر اپنا کوئی اثرو رسوخ استعمال کرے گا کہ سب سے بڑے شہر کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہ کرے، لیکن وفاق نے سندھ پر ایسا کوئی دباؤ نہ ڈالا۔سندھ میں پیپلز پارٹی کو، حکومت کرتے ہوئے گیارہ سال ہوچکے ہیں، اور ان گیارہ سالوں کی داستان کرپشن، اقربا پروری، نااہلی اور بدانتظامی سے بھری پڑی ہے، ایسے میں عوام وفاقی حکومت سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا ایسی حکومت کومحض اس لیے کام کرنے دیا جاسکتا ہے کہ وہ ووٹ لیکر آئی ہے؟سیاست کو لوٹ مار کے لیے استعمال کرنے کی اجازت کب تک دی جا ئے گی۔ عوام کے مال پر ڈاکا مارنے کے لیے کیا گیارہ سال بھی کم ہوتے ہیں جو انہیں مزید موقع دیا جارہا ہے؟سب کچھ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے،یہ لوگ تو سندھ میں اپنے ان علاقوں میں بھی کام نہیں کرتے، جہاں سے یہ ووٹ لے کرآتے ہیں، کراچی سے تو انہیں ووٹ ہی نہیں ملتے تو پھر سمجھ لیں کہ یہاں کیا ہونا ہے۔
سندھ کے کرپشن کے بڑے کردار آج جیل میں ہیں، لیکن صوبے میں موجود ان کے ساتھی بدستور ہاتھ دکھانے میں مصروف ہیں۔دوہزار آٹھ میں جب پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت ملی تو اس کی بدترین کارکردگی نے اسے اس کا یہ آخری موقع بنادیا، اوراگلے الیکشنوں میں پیپلز پارٹی کا پورے ملک سے صفایا ہوگیا۔یہی نہیں گلگت بلستان اور کشمیر کے لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد کیا تھا، لیکن وہاں بھی تاریخی بدانتظامی اور کرپشن نے اگلی باری میں پیپلز پارٹی کا وہاں سے بھی مکمل صفایا کرادیا۔
بلاول جب سیاست میں آیا تو لوگوں کو امید تھی کہ شاید صاف ستھری اور کرپشن فری سیاست کرے گا، لیکن افسوس آج یہ پڑھا لکھا خون بھی والد اور ساتھیوں کی کرپشن کو بچانے میں لگا ہے۔بلاول بھٹو کے خیالات کا جائزہ لیں تو گزشتہ سات سالوں میں اس میں کرپشن کے خلاف کوئی عزم نظر نہیں آئے گا، نہ ہی انہوں نے کرپشن کرنے والے لوگوں کو خود سے دور کرنا مناسب سمجھا، شاید وہ بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھتے۔یہی سندھ کی بڑی بدنصیی ہے۔۔
پچھلے سات سال سے سیاست میں موجود بلاول کے کریڈٹ پر کوئی ایک کام یا کوئی ایک کارنامہ نہیں ہے جسے وہ فخر سے قوم کے سامنے پیش کرسکیں۔ایسے میں ملک کے دیگر علاقوں میں ان کی سیاست کا اختتام ہی سمجھا جائے، سندھ میں وہ بدستور قوم پرست رہنما کے طور پر کچھ عرصہ مزید باقی رہ سکتے ہیں۔گڈ لک سندھ۔سندھ کی بربادی کی بات کے بعد وفاق کا رخ کرتے ہیں، کپتان کی قیادت میں ملک ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے، جہاں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ جہاں روزگار کے موقع تقریباً بند ہوچکے ہیں۔جہاں بیرونی سرمایہ کاری کا کوئی نام و نشان نہیں بچا۔ملک چلانے کے لیے ہر ماہ کوئی قدم ایسا اٹھایا جارہا ہے کہ عوام کی جیبوں سے رقوم نکلوا لی جاتی ہیں، اور وقتی طور پر ملک کی گاڑی کھینچ لی جتی ہے۔
عمران خان ملک کے ایک پاپولر رہنما ہیں، لیکن انہیں اس خواب سے باہر آنا ہوگا کہ حکومت کے ہر ظلم اور فضولیات کو عوام خوشی خوشی برداشت کررہے ہوں گے اور درگزر کررہے ہوں گے۔ایسا ہر گز نہیں ہے جناب۔ مانا کہ آپ بڑی کرپشن کے خلاف ہیں اور آپ کے دور میں کسی کو بڑا ہاتھ مارنے کا موقع مشکل سے ہی مل رہا ہوگا، لیکن عوام کام مانگتے ہیں۔جیسا کام میاں نواز شریف کے دور میں ہوتا نظر ا?تا تھا، یا جس طرح مشرف دور میں کام ہوا۔ ان ادوار میں بھی ملک بحیثیت مجموعی ایک غریب ملک ہی تھا، لیکن کام ہوتے ہوئے نظر آتے تھے، نواز شریف فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کے ان کے دور میں سڑکوں، پلوں، موٹر ویز، میڑو بسوں، اورنج ٹرین اور بجلی کے کارخانے لگے، لاکھوں لوگوں کو روزگار ملا۔بچوں کو لیپ ٹاپ ملے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی، اور بھی درجنوں دیگر معاملات میں بہتری دیکھی گئی۔
اسی طرح پرویزمشرف دورمیں بھی ملک بھر میں ترقی کی لہر دیکھی گئی، مقامی حکومتوں کے نظام کا تجربہ کامیاب رہا۔مقامی سطح پر ترقیاتی کام ہوئے، بڑے منصوبے بنے، کوسٹل ہائی وے،پنڈی پشاور موٹر وے، میرانی ڈیم سمیت کئی ڈیمز، کاروں اور موٹر سائیکلوں کے نئے کارخانے، دو نئی آئل ریفائنریز،شہروں اور ہائی ویز پر پلوں اور انڈرپاسز کا جال، اور انٹرنیٹ اور میڈیا کی ترقی اس دور کے چند کارناموں کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کپتان بتائیں کہ وہ ایسی کون سی مثالیں عوام کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔عوام جواب کے منتظر ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر