وجود

... loading ...

وجود
وجود

خواہش اور ارادے میں فرق

جمعرات 29 اگست 2019 خواہش اور ارادے میں فرق

الفاظ کے خراچ عمل کے قلاش ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ باتیں زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں۔ دشمن سب سے بڑا استاد بھی ہوتا ہے۔ بھارت کی وہمی داستانوں کے بعض حصے کافی سبق آموز بھی ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق وشنو بھگوان کے ساتویں اوتار رام چندر ہیں، اُن کے استاد سے منسوب کیا سبق آموز فقرہ ہے:دُنیا اُن لوگوں سے بدلتی ہیں جو بولتے نہیں“۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بولتے بہت ہیں۔اُن کی گفتارِ بسیار کا عمل سے تناسب نکالا جائے تو شرمناک نتیجہ نکلے گا۔ اگرچہ وہ بعض حیرت انگیز اوصاف کے مالک ہیں۔ اُنہیں اپنے خیالات کے اظہار میں کسی قسم کی پیچیدگی یا ردِ عمل کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ فی البدیہہ بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے خیالات میں کوئی احساس کمتری نہیں رکھتے۔ مدینہ کی ریاست کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ کسی ایچ پیچ کے شکار نہیں ہوتے۔ اُ ن کی یہ ایک خوبی ہی اُنہیں بہت سے سیاسی رہنماوؤں سے ممتاز کردیتی ہے۔ چنانچہ اُن کی تقاریر پر خواہ کتنی ہی تنقید کی جاتی ہو، مگر وہ بجائے خود ایک بحث کا موضوع بن جاتی ہیں۔مخالفت میں ہی سہی مگر اُن کی تقاریر کا تنقیدی طور پر موضوع بننا ہی اُن کو ایک سبقت دلاتا ہے۔ ماضی کے وزرائے اعظم کا پرچی کے ذریعے سوال کے جواب تک دینے کا تجربہ کافی شرمنا ک رہا ہے۔ مگر کیا وزیرا عظم عمران خان کے لیے یہ سبقت کافی ہے؟
وزیراعظم عمران خان نے دوروز قبل قوم سے خطاب کیا تو اس میں وقت کی بہت اہمیت تھی۔چیئرمین حریت کانفرنس اور مردِ حریت سید علی گیلانی ایک روز قبل ایک خط کے ذریعے پاکستان سے مدد کی اپیل کرچکے تھے۔ اور عین خطاب سے ذرا قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جی سیون اجلاس کے دوران میں ناقابلِ اعتبار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سائیڈ لائن ملاقات میں اپنے حصے کے سارے کھیل کھیل چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنی بدن بولی سے امریکی صدر کے ساتھ بے تکلفی کا تاثر دیا۔اُن پر بھارت میں سب سے زیادہ تنقید یہ ہورہی تھی کہ اُنہوں نے امریکی صدر کو کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا۔ اگرچہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اس پیشکش کے معنی ہی بدل گئے تھے، مگر نریندر مودی نے ا س کا فرانس میں جواب انگریزی میں نہیں ہندی میں دیا۔اُنہوں نے امریکی صدر کے سامنے کہا کہ وہ اس معاملے میں دوطرفہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں اور کسی تیسرے ملک کو کشٹ (تکلیف) نہیں دیتے۔ مودی کے اقدامات پر دھیان دیں تو وہ انتہائی ضابطہ بند (Methodical)ذہن کے ساتھ بروئے کار رہتے ہیں۔ اس سے قبل مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے مودی کی رضامندی کا جو اعلان امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہئ امریکا میں کیا تھا، وہ اس پر مکمل خاموش رہے تھے۔ بھارت میں کانگریسی رہنما راہول گاندھی نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیاتھا اور پارلیمنٹ میں آکر اس کی وضاحت کا دباؤ ڈالا تھا، مگر مودی نے انتہائی خاموشی سے جی سیون اجلاس میں ٹرمپ سے ملاقات کا انتظار کیااور ٹرمپ کے سامنے اس پیشکش کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ امریکی صدر کی اتنی بے عزتی شاید ہی کبھی ہوئی ہو مگر اُنہوں نے ہاتھوں پہ تالی کے ساتھ اِسے بھی جھیلا۔
نریندری مودی کے اقدامات اُسے ایک خاص طرح کا عملیت پسند اور اپنی دُھن میں مگن ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور اُن کی طاقت”ہندوتوا“ہے جو مودی کی حد تک مسلم مخالف جذبات کے ساتھ اُن کو بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی نفسیات رکھتی ہے۔وہ 2002ء میں گجرات فسادات کے باوجو دسیاسی طور پر اپنا قد بلند کرتے رہے اور ایل کے ایڈوانی کو دھکیل کر وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ اُنہوں نے بی جے پی کی پوری طاقت کو اپنی ذات میں مرتکز کر لیا۔ وہ بھارت کی وسیع تر معیشت پر گرفت رکھنے والی تمام بڑی کاروباری شخصیات سے گہرا تعلق استوار کرچکے ہیں۔ جو درحقیقت مودی پر ہرقسم کی سرمایہ کاری کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔گودھرا ٹرین حادثے سے ایک فسادات کا نمونہ (پیٹرن)مودی کی خاص ذہنیت کا پتہ دیتا ہے۔وہ سخت انتہاپسندی کے ماحول کو سیاسی اہداف میں تبدیل کرنے کی شاطرانہ اہلیت رکھتے ہیں۔اُنہیں 2002ء کے فسادات میں ”گجرات کا قصاب“کہا گیا۔ امریکا میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد ہوئی۔ مگر مودی نے دنیا کے تمام دباؤ کو دھتکارا، اب وہ مغرب کی عیسائی اور یہودی دنیا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں بھی اپنے گہرے روابط استوار کر چکے ہیں۔ یوں مودی نے ایک طریقے سے پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو دو ملکی ہی نہیں بلکہ اسلامی عصبیت سے بھی”نیوٹرل“ کرنے کی خاص روش اختیار کررکھی ہے۔ مسلم دنیا کے لیے کشمیر کا مسئلہ اسلامی نہیں بلکہ قومی مسئلہ بنایا جارہا ہے۔ یہ اس پورے مسئلے کے خدوخال کو بدلنے اور دھیرے دھیرے دنیاکو اس سے بیگانگی برتنے پر مائل کرنے کی انتہائی گہری حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مودی یہ سارے کا م اپنے خاص طریقے (میٹھڈ) سے کررہا ہے۔
بھارت کے شاطر وزیراعظم نریندر مودی نے5/اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی سے قبل تین بڑے اقدامات اُٹھائے۔ بی جے پی نے جون 2018ء میں مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت سے اچانک علیحدگی اختیار کرلی۔ یوں مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مخلوط اقتدار کا خاتمہ ہوگیااور معاملات گورنر راج کی طرف چلے گئے۔ نومبر 2018ء میں کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے گورنر کو فیکس کیا کہ وہ کشمیر اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لیے اُنہیں حکومت کی تشکیل کی دعوت دی جائے۔ مگر گورنر نے اچانک اسمبلی برخاست کردی اور دعویٰ کیا کہ اُنہیں محبوبہ مفتی کا کوئی فیکس نہیں ملا۔یہ مودی حکومت کا دوسرا سوچا سمجھا اقدام تھا۔ تیسرے اقدام کے طور پر مودی کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا راستا روکا۔ الیکشن کمیشن جون 2019 ء میں انتخابات کا خواہاں تھا۔مگر مرکزی حکومت کے دباؤ پر بغیر کسی تاریخ کا تعین کیے انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کی تالابندی ہونی شروع ہوگئی۔ تمام مواصلاتی رابطے، انٹرنیٹ کی سہولت اور ابلاغی ذرائع کو معطل کردیا گیا۔ دنیا سے کشمیر کو کاٹ کر مودی حکومت نے اپنے تیور واضح کردیے تھے۔ کشمیری قیادت باربار کہہ رہی تھی کہ یہاں جو کچھ اب ہورہا ہے، اس شدت کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مودی کی انتہاپسند حکومت کچھ خطرناک کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ پاکستان ان حالات میں مودی سے تعلقات کی بحالی کا خواہاں تھا۔ پاکستان کی ہرسطح کی قیادت صورتِ حال کی سنگینی کو درست طور پر بھانپنے میں مکمل ناکام رہی۔اس کا اندازا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر یہ ردِ عمل دیا کہ اُنہیں اس کااندازا ہی نہیں تھا کہ مودی حکومت یہ کام کرگزرے گی۔
یہ دنیا عمل کی دنیا ہے۔یہ ارادہ باندھنے والوں کی دنیا ہے۔آج کی دنیا کے قصر میں کوئی انتظارگاہ نہیں بنائی جاتی۔ یہ یکایک تبدیلیوں سے منقلب ہوتی ہے۔ اس میں ارادوں کی پختگی ہی زندگی کی ضمانت بنتی ہے۔ امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب میں لکھا تھا: طاقت اور اختیار کو سمجھنے کے لیے خواہش اور ارادے کے مابین فرق کو جاننا ضروری ہے۔ خواہش کرنا مفعولی عمل ہے جبکہ ارادہ ظاہر کرنا ایک فاعلی عمل ہے۔ پیروکار خواہش ظاہر کرتے ہیں مگر لیڈر ارادہ کرتے ہیں“۔ ہماری شعری تہذیب نے بچپن میں ہی ہمیں تعلیم کیا تھا
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
بھارت کی مسلسل پیش قدمی کے ردِ عمل میں ہم نے اب تک خوب صورت تقاریر کی ہیں۔ ہمارے پاس بحث کے لیے بھی یہی موضوع ہے کہ یہ تقاریر اچھی تھی یا نہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایک جنگ ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے ہم تقاریر سے کچھ زیادہ کے خواہش مند ہیں، جس کا وقت اب آگیا ہے۔ جلیل عالی کا کیا خوب صورت شعر ہے:
راستا سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر